Inquilab Logo

قتل عام جیسی سنگین دھمکی دینے والے، ملک کیلئے نقصاندہ

Updated: January 23, 2022, 9:51 AM IST | Aakar Patel | Mumbai

اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی کے بیانات اور تقاریر سے بیرونی دُنیا میں ہماری کافی بدنامی ہورہی ہے۔ ایسے افراد کو نظر انداز کرنے یا ان کی پشت پناہی کرنے سے کام نہیں چلے گا۔

Statements and speeches of provocation and hate are bringing us a lot of notoriety in the outside world.
اشتعال انگیزی اور نفرت انگیزی کے بیانات اور تقاریر سے بیرونی دُنیا میں ہماری کافی بدنامی ہورہی ہے۔

کیا ہمارے ملک کی خواتین جب گھر سے باہر نکلتی ہیں تو خود کو محفوظ سمجھتی ہیں یا اپنی حفاظت کے تئیں فکرمند رہتی ہیں؟ اس سوال کا جواب جاننے کیلئے مَیں نے ۵۰؍ افراد (سبھی مرد) سے رابطہ قائم کیا جن کا کہنا تھا کہ خواتین محفوظ ہیں اور اُن کے ساتھ کوئی دقت نہیں ہے۔ مجھے یہ جواب اس لئے ملا کیونکہ مردوں کو یہ احساس نہیں ہے کہ خواتین پر کیا گزرتی ہے۔ اُنہوں نے کبھی کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا نہیں کیا۔ چنانچہ یہ سوال کہ خواتین گھر سے باہر ہوں تو خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتی ہیں، خواتین ہی سے پوچھا جانا چاہئے، مردوں سے نہیں۔
 گزشتہ چند ہفتوں سے دُنیا کے مختلف ممالک، ہندوستان میں مسلمانوں کی نسلی تطہیر یا اُن کے صفائے (جینوسائڈ) کی باتوں سے فکرمند ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جانے والے جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ نے اپنی ۱۵؍ جنوری کی اشاعت میں لکھا کہ: ’’آگ سے کھیلنے کی کوشش: ہندوستانی حکومت اقلیتوں کے خلاف نفرت کو یا تو نظر انداز کررہی ہے یا اس کی حوصلہ افزائی کررہی ہے۔‘‘ اسی دن سی این این نے ایک رپورٹ جاری کی جس کا عنوان تھا: ’’ہندوستان کے ہندو انتہا پسند مسلمانوں کے نسلی صفائے کی دھمکیاں دے رہے ہیں، انہیں روکا کیوں نہیں جارہا ہے؟‘‘ اس سے چند روز پہلے نیو یارک ٹائمس نے ایک رپورٹ شائع کی: ’’ہندو انتہا پسند، مسلمانوں کے قتل عام کی باتیں کررہے ہیں مگر حکومت چُپ ہے۔‘‘ لندن میں ’’دی ٹائمس‘‘ نے لکھا کہ ’’ماہرین قانون نے ہندوستان کے چیف جج کو مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز تقریروں کے خلاف خط لکھا۔‘‘ ٹائم میگزین میں مضمون شائع ہوا کہ ’’کیا ہندوستان، مسلمانوں کے قتل عام کی راہ پر گامزن ہے؟‘‘ یہاں، بیرونی ملکوں کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایسی کئی رپورٹوں اور مضامین کا حوالہ دیا جاسکتا ہے مگر شایدیہ چند مثالیں یہ سمجھنے کیلئے کافی ہیں کہ دُنیا ہمارے بارے میں کیا کہہ رہی ہے۔ یہ تحریریں مضمون نگاروں کی خیال آرائی نہیں بلکہ ہر مضمون اور ر پورٹ میں واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے کہ کب اور کس طرح عیسائیوں اور مسلمانوں پر حملے ہوئے مگر حکومت بے عملی کے اپنے طرز عمل پر قائم رہی۔ جب دُنیا بہت کچھ کہہ چکی تب کہیں جاکر ہری دوار کی دھرم سنسد میں تقریر کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر ہوئی۔ اس کے بعد گرفتاریوں کا عمل بھی دھیما ہی رہا۔
 حکومت نے اس الزام کی تردید کی ہے کہ تشدد کی حوصلہ افزائی میں اس کا کوئی رول ہے۔ حکومت یہ بھی تسلیم نہیں کرتی کہ ہندوتوا اور بی جے پی کے دور ِاقتدار میں مسلمانوں کا تحفظ مشکوک ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو کچھ بھی کہا جارہا ہے اور جس طرح کی رپورٹیں بیرونی اخبارات میں شائع ہورہی ہیں وہ درست ہیں یا نہیں؟ اس کا صحیح معنوں میں جواب جاننے کیلئے ہمیں اُنہی لوگوں سے استفسار کرنا چاہئے جو خود کو غیر محفوظ محسوس کررہے ہیں یعنی مسلمان۔ صحیح جواب مسلمانوں اور اقلیتوں کو دھمکیاں دینے والوں یا اُن کی پشت پناہی کرنے والوں سے نہیں مل سکتا۔ چونکہ مسلمانوں کے بارے میں صحیح بات جاننے کیلئے مسلمانوں ہی سے دریافت کرنا درست ہوگا اس لئے مَیں نے یہی کیا اور اس بنیاد پر دوٹوک انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ ہاں ملک کے مسلمان اپنی حفاظت اور مستقبل کے تئیں  فکرمند ہیں، اُنہیں اس بات کا بھی افسوس ہے کہ ملک میں اُن کے ساتھ کس طرح کا سلوک کیا جارہا ہے اوریہ مٹھی بھر لوگ ملک کو کہاں لے جا رہے ہیں۔ مسلمان فکرمند اس لئے ہیں کہ فکرمندی کے اسباب ہیں اور کسی اورنے نہیں اُن کے اپنے برادران وطن نے اُنہیں یہ اسباب فراہم کئے ہیں۔
 حالات اس موڑ پر آگئے ہیں کہ بیہودہ سے بیہودہ بات عوامی پلیٹ فارمس پر کہی جاسکتی ہے جس کا نہ تو کہنے والوں کو افسوس ہوگا نہ ہی سننے والوں کو۔ کہنے والوں کو یہ خوف بھی نہیں کہ اُن کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے یا سماج اُن کے بارے میں کیا سوچے گا۔یہ بے خوفی اس لئے پیدا ہوئی ہے کہ اہل اقتدار اقلیتوں کے تعلق سے اپنے خیالات اور نظریات کو چھپانے کا ڈھونگ تک نہیں کرتے۔ زیر بحث بے خوفی اور بے شرمی کا دوسرا سبب ہندوستانی سماج ہے جس کی حساسیت ختم کردی گئی ہے لہٰذا اس نے ردعمل کے اظہار کی روش ترک کردی ہے۔اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو ہدف بنانے اور اُن کے ساتھ غیر انسانی رویہ اپنانے کا عمل اتنا بڑھ رہا ہے کہ مسلم خواتین کو جنسی استحصال کی دھمکی بڑی حد تک قابل قبول ہوکر رہ گئی ہے چنانچہ ایسی دھمکی ڈھکے چھپے انداز میں یا نجی محفلوں میں نہیں بلکہ عوامی جلسوں تک میں دی جارہی ہے۔ 
 ہم نے مادر وطن کو اندرون ملک اور بیرون ملک اس قدر نقصان پہنچایا ہے کہ اس کے اثرات تادیر قائم رہ سکتے ہیں۔ اِن معاملات پر دُنیا اس لئے خاموش نہیں ہوجائیگی کہ ہماری حکومت نے اس کی تردید کی ہے اور ہماری حکومت اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں سمجھنا چاہے گی کہ جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اسے اپنا سیاسی و انتخابی مفاد تصور کرتی ہے۔
 اٹارنی جنرل نے ایک خود ساختہ سادھو کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا ہے کہ ’’یتی نرسمہانند کا یہ اظہار خیال کہ جو لوگ اس سسٹم ، سیاستدانوں، سپریم کورٹ اور فوج پر بھروسہ کرتے ہیں، و ہ کتے کی موت مریں گے، عوام کے ذہنوں میں سپریم کورٹ کی بالادستی کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ اٹارنی جنرل نے یہ بات تب کہی جب ایک سماجی خدمتگار نے اس موضوع پر اُنہیں ایک خط لکھا۔ کیا خود حکومت ایسے بیان کیخلاف کارروائی نہیں کرسکتی تھی؟
 شاید ہم سمجھ نہیں رہے ہیں کہ نفرت انگیز بیانات ملک کا بڑا نقصان کررہے ہیں اور بیرونی دُنیا ہمارے بارے میں فکرمند ہے۔ بہتر ہوگا کہ خلق خدا کیا کہہ رہی ہے ہم اس پر غور کریں اور جو چیزیں بہت سنگین ہیں اُن کی سنگینی کو محسوس کریں، نظر انداز کردینا خود کو دھوکے میں رکھنے جیسا ہوگا ۔ n  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK