Inquilab Logo

قول و عمل میں بےجا سختی منفی نتیجے کا سبب بنتی ہے

Updated: January 06, 2023, 12:29 PM IST | Mudassar Ahmad Qasmi | Mumbai

اگر ہم صحیح معنوں میں اچھائی کا استعارہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر معاملے میں درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا

A moderate approach should be adopted in communication with competitors
مدمقابل سے بات چیت میں اعتدال کا راستہ اپنانا چاہئے


اللہ رب العزت نے انسانی روح کو اِس طرح پیدا فرمایا ہے کہ اس میں اچھائی اور بُرائی دونوں طرف مائل ہونے کی صلاحیت موجود ہے لیکن ساتھ ہی حضرتِ انسان کو یہ ملکہ بھی عطا فرمایا ہے کہ وہ اچھی اور بُری چیزوں کے درمیان تمیز کر لے،اسی لئے دونوں جہان میں انسانوں کے لئے کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ہرشعبہ  ٔ   زندگی اور ہر کام کے لئے اچھائی کا راستہ منتخب کریں اور اُس کے حصول کے لئے ہمہ وقت جد و جہد کریں۔اس تعلق سے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر ہم صحیح معنوں میں اچھائی کا استعارہ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں ہر معاملے  میں درمیانی راستہ اختیار کرنا ہوگا اور افراط و تفریط یعنی تشدد و تساہلی سے بچنا ہوگا۔ 
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم میں سے  اکثر لوگ جنہیں اللہ رب العزت نے کسی نہ کسی اعتبار سے لائق و فائق بنایا ہے، اپنے ماتحتوں سے معاملہ کرتے ہیں تو سختی   کا راستہ اپنا لیتے ہیں جس سے اچھا کام بھی خراب ہو جاتا ہے اور ایک قسم کی بدمزگی پیدا ہوجاتی ہے۔بلاشبہ یہی وہ طرز عمل ہے جس نے گھر سے لے کر باہر تک سماج سے لے کر سیاست تک اور عام معاملات سے لے کر مذہبی و دینی معاملات تک،  ہر  ایک نظام کودرہم برہم کر دیا ہے اور انسانی سماج کے افرادکو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کردیا ہے۔
اس حوالے سےجب ہم شریعت کا مطالعہ کرتے ہیں تو واضح طور پر یہ پیغام ملتا ہے کہ ایک ہمدرد، مہذب اور پاکیزہ سماج میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن ہماری عام زندگی میں اس معاملے کی انتہا یہ ہے کہ جب سماج کا کوئی فرد کسی اعتبار سے تشدد پر اتر آتا ہے تو سامنے والا شخص بھی تشدد کا جواب تشدد سے دینے کی کوشش کرتا ہے۔حالانکہ کسی نے اگر تشدد کی بنیاد پرآپ کی حق تلفی کی ہے ،آپ کو بُرا بھلا کہا ہے یا ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہیں تو آپ کے لئے حصولِ انصاف کے مختلف نظام قائم ہیں ،جس کا سہارا لے کر آپ اپنا حق حاصل کر سکتے ہیں ؛لیکن اِس کی جگہ اگر آپ نے بھی وہی طریقہ اپنایا جو مد مقابل نے اپنایا ہے تو آپ کریلا نیم چڑھا کی طرح بن جاتے ہیں اور سماج کو تشدد کی طرف گامزن کر دیتے ہیں۔
اِس پس منظر میں جب ہم نبی اکرم ﷺ کی حیات ِ مبارکہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپؐ کی تعلیمات اور آپؐ کی عملی زندگی میں تشدد کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی حتیٰ کہ آپ ﷺ نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی عفو و در گزر کا معاملہ فرمایا جنہوں نے آپ ﷺ پر تشدد کی حد کر دی تھی۔ اِس کی سب سے روشن مثال فتح مکہ کے موقع پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کر نے والوں کے لئے آپ ﷺ کا یہ جملہ ہے کہ ـ”تم پر کوئی ملامت نہیں ہے ،جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ (بیہقی) اسی طرح آپ ﷺ نے دوسروں کو بھی حد میں رہنے کی تعلیم دی ہے تاکہ عمل میں تشدد نہ آجائے۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں ہے ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  فرماتی ہیں کہ :”ایک دن کچھ یہودی نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے ”السلام علیکم” کہنے کے بجائے یہ کہا کہ ”السام علیکم “ (تمہیں موت آئے)آپﷺ نے ان کے جواب میں فرمایا: ”وعلیکم “۔  حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ یہودیوں کی یہ بدتمیزی مجھ سے برداشت نہیں ہوئی اور میں نے ان کے جواب میں کہا کہ تمہیں موت آئے اور تم پر اللہ کی لعنت ہو اور تم پر اللہ کا غضب ٹوٹے۔آپ ﷺ  نے جب میری زبان سے ایسے الفاظ سنے تو فرمایا کہ عائشہؓ رک جاؤ! تمہیں نرمی اختیار کرنی چاہئے، نیز سخت گوئی سے اجتناب کرنا چاہئے۔ میںنے عرض کیا کہ کیا آپؐ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا لفظ کہا ہے؟ آں حضرت ﷺ نے فرمایا اور کیا تم نے نہیں سنا کہ انہوں نے جو کچھ کہا ہے، میں نے اس پر کیا جواب دیا ہے؟(وعلیکم یعنی تم پر بھی)۔‘‘
اِس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے مد مقابل سے ہم اپنی بات چیت اور بحث و مباحثہ کا راستہ طے کر سکتے ہیں کہ مد مقابل اگر توہین آمیز رویہ بھی اپنائے تو ہمیں اپنے کلام میں حُسن پیدا کر کے اُنہیں قائل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔  افسوس کا مقام ہے کہ آج ہمارا عمومی رجحان یہ بن چکاہے کہ ہم ہمیشہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی کوشش کرتے ہیں جس سے مسئلے کے حل کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں۔
تشدد کے تعلق سے ایک اہم پہلو پر ہماری نظر ضرور رہنی چاہئے کہ جب ہم اصلاحی و تبلیغی امور کی تر سیل کی کوشش کریں تو ہمارے اندر تشدد کی ہلکی سی  جھلک بھی نظر نہ آئے کیونکہ بصورت دیگر نفع کے بجائے نقصان ہونے کا قوی امکان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں صاف طور پر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ: ’’(اے رسولؐ )آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلائیے اور ان سے بہتر طریقہ پر بحث کیجئے ، یقیناً آپ کے پروردگار اس شخص سے بھی واقف ہیں ، جو اپنے راستے سے بھٹک گیا اور راہ راست پر لگنے والوں کو بھی خوب جانتے ہیں۔‘‘ (النحل:۱۲۵)
چونکہ تشدد ہر حال میں نقصان دہ ہے؛چاہے وہ لفظی ہو، عملی ہو یا جسمانی،اس لئے ہمیں تشدد کے تمام طریقوں سے بچنا چاہئے اور اسی طرح یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ تشدد صرف وہ نہیں ہے جو مدمقابل سے معاملہ کرتے ہوئے سرزد ہو بلکہ تشدد وہ بھی ہے جو روزمرہ زندگی میں اپنوں کے درمیان رونما ہو۔ چنانچہ کبھی ہم اپنے بچوں کے معاملے میں تشدد پر اُتر آتے ہیں تو کبھی اپنی عورتوں کو تختہ مشق بنادیتے ہیں اور گھر سے باہر سماج میں کمزوروں پر تشدد تو اب ایک عام بات بن کر رہ گئی ہے۔
اِس تناظر میں حرف ِآخر یہ ہے کہ انسان تو دور کی بات اسلام نے جانوروں پر بھی تشدد کو سختی سے منع کیا ہے۔  ایک حدیث میں ہے کہ ایک دن نبی اکرم ﷺ کسی انصاری کے باغ میں داخل ہوئے، اچانک ایک اونٹ آیا اور آپ ﷺ کے قدموں میں لوٹنے لگا، اس وقت اس کی آنکھوں میں آنسو تھے، آپؐ نے اس کی کمر پر اور سر کے پچھلے حصے پر ہاتھ پھیرا جس سے وہ پر سکون ہوگیا، پھر نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ تو وہ دوڑتا ہوا آیا،آپ ﷺ  نے اس سے فرمایا:”اس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری ملکیت میں کر دیا ہے، مگر تم اللہ سے ڈرتے نہیںہو؟، یہ مجھ سے شکایت کر رہا ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو، اور اس سے محنت ومشقت کا کام زیادہ لیتے ہو۔‘‘ (ابودائود)
 آیئے!ہم یہ عہد کریں کہ اپنے قول و عمل سے تشدد کو ختم کر کے ایک پُر امن خاندان، سماج، ملت اور قوم کی تشکیل میں اہم کردار ادا کریں گے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK