Inquilab Logo

سماجی مسائل اور معاشی مواقع

Updated: June 26, 2023, 12:57 PM IST | Mumbai

ہندوستان اپنے تمام تر سماجی مسائل اور اندرونی خلفشار کے باوجود بیرونی ملکوں کیلئے معاشی مواقع کا بہترین مرکز ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

ہندوستان اپنے تمام تر سماجی مسائل اور اندرونی خلفشار کے باوجود بیرونی ملکوں کیلئے معاشی مواقع کا بہترین مرکز ہے۔ اگر ان مواقع کے تعاقب میں امریکہ، روس، آسٹریلیا، یواے ای، یورپی یونین، برطانیہ اور کناڈا ہندوستان میں دلچسپی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور بعض ملکوں کے ساتھ اقتصادی معاہدوں پر دستخط بھی ہوچکے ہیں تو کچھ عجب نہیں کہ تین کھرب ڈالر کی معیشت بن جانے کے بعد اب ہمارا پانچ کھرب ڈالر کی اکنامی کا اگلا ہدف بھی جلد پورا ہوجائے۔ ہندوستان میں  بیرونی ملکوں کی دلچسپی کا سب سے بڑا سبب اس کا وسیع تر صارف بازار ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک  ارب تیس کروڑ کی آبادی کوئی معمولی طاقت نہیں ہے۔ یہی طاقت ٹم کوک کو رجھاتی ہے جب وہ ہندوستان آکر ’’ایپل‘‘ کے پہلے فزیکل اسٹور کا افتتاح کرتے ہیں۔ یہی طاقت جو بائیڈن کو رجھاتی ہے جب وہ وزیر اعظم مودی کیلئے امریکہ میں سرخ قالین بچھاتے ہیں اور یہی طاقت برطانیہ کی ’’پریٹ اے مینگر‘‘ نامی کمپنی کو رجھاتی ہے جب وہ ہندوستان میں اپنی کاروباری ساکھ کو بھنانے کیلئے ممبئی میں اولین اسٹور قائم کرنے کا فیصلہ کرتی ہے۔ سابقہ تجربات اور حالیہ پیش رفتوں سے اگر کچھ ثابت ہوتا ہے تو یہی ہے کہ بیرونی ملکوں کیلئے ہندوستان بہت اہم سرزمین اور فائدہ مند مارکیٹ ہے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بھی اپنی سرزمین کو بہت اہم اور اپنی مارکیٹ کو غیرمعمولی سمجھتے ہیں؟ اس سوال کے جواب سے شاید ہی کوئی نا واقف نہ ہو۔ یہ خصوصیات بیرونی ملکوں اور وہاں کی کمپنیوں کیلئے خاص معنویت رکھتی ہیں جو ہندوستانی مارکیٹ سے فائدہ اُٹھائینگی مگر ہماری ایک خصوصیت اور ہے جس سے ہم خود کافی فائدہ اُٹھاسکتے ہیں اور وہ ہے آبادی میں نوجوانوں کی کثرت۔ ساری دُنیا شاہد ہے کہ اس ملک کی سب سے زیادہ آبادی ہی اس کا سب سے بڑا اثاثہ نہیں ہے بلکہ اس آبادی میں نوجوانوں کی کثرت بھی بے مثال تحفہ ہے۔ اِس دور میں جب کئی ملکوں میں آبادیٔ بزرگاں زیادہ ہے، ہمیں اپنی نوجوان آبادی پر ناز ہونا چاہئے مگر کیا ایسا ہے؟ 
 دُنیا اس آبادی کو ’’معاشی منافع‘‘ (اکنامک ڈویڈنڈ) کے طور پر دیکھ رہی ہے اور رشک کررہی ہے۔ ہم بھی اس کا فخریہ تذکرہ کرتے ہیں مگر چونکہ ہم نے آبادی کے اس حصے کی قدر نہیں کی اوراس سے کیا گیا روزگار کا وعدہ پورا نہیں کیا اس لئے آج عالم یہ ہے کہ نوجوانوں کے پاس کام نہیں ہے، روزگار نہیں ہے اور جب تک اطمینان بخش روزگار نہیں مل جاتا ان کا وقت ضائع ہوتا رہے گا۔ نہ تو انہیں معاشی فائدہ حاصل ہوگا نہ ہی ملک کو۔ اگر مزید کچھ سال اسی طرح گزر گئے اور روزگار کا حصول دشوار ہی رہا تو ہم، خدانخواستہ ، اس منافع سے قطعاً محروم ہوسکتے ہیں جس کے بارے میں سوچ کر دُنیا ہمیں رشک آمیز نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ 
 مختصر یہ ہے کہ حکومت کو دونوں طرح کے مواقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے معاشی سرگرمیوں کو تیز تر کرنا چاہئے۔ پہلا بیرونی سرمایہ کاری کے نقطۂ نظر سے ضروری ہے اور دوسرا اندرون ملک  ازخود روزگار پیدا کرنے سے ہے تاکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کم ہو۔ اگر دیگر معیشتوں کے مقابلے میں ہماری معیشت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی معاشی سرگرمیوں کے بغیرنہیں رہ سکتی۔ کووڈ میں یہ سرگرمیاں ٹھپ تھیں۔ کووڈ کے بعد بہت کچھ بحال کرنا تھا اسلئے معاشی سرگرمیوں کو رفتار ملنا فطری تھا۔ اب جو چیلنج ہے وہ اس رفتار کو برقرار رکھنے کا ہے جو حکومت کی خاص توجہ کے بغیر ممکن نہیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK