Inquilab Logo

مطالعہ ہماری فکر کو وسعت اور گہرائی عطا کرتا ہے

Updated: December 26, 2022, 3:37 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

وسیم عقیل شاہ اردو افسانہ نگاری کے میدان میںان چند نوجوانوں میں سے ایک ہیں جن سے بڑی امیدیں وابستہ کی جارہی ہیں۔ پیش ہے انٹرویو سیریز کی پہلی قسط

photo;INN
تصویر :آئی این این

ادب نما پرنئے سلسلے کے تحت ہم ۱۰؍ نوجوان ادباء و شعراء سے گفتگو اپنے قارئین تک پہنچائیں گے ۔ اس سلسلے کی پہلی قسط کے تحت نوجوان افسانہ نگار وسیم عقیل شاہ کا انٹر ویو پیش کیا جارہا ہے۔ ادبی حلقوں میں وسیم عقیل شاہ کا نام تعارف کا محتاج نہیں ہیں۔ وسیم عقیل شاہ اردوکی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اس دور میں آنکھیں کھولیں جب سماجی و ادبی قدریں انحطاط پذیرہیں ، انٹر نیٹ کے ساتھ ساتھ موبائل فون کے عروج نے ادب لکھنے ، پڑھنےاور اسے پیش کرنے کےرائج طریقوں کو تبدیل کردیا ہے اورافسانہ نگاری کے موضوعات بھی صدی کی تبدیلی کے ساتھ بدل گئے ہیں۔ اس تمام پس منظر کو ذہن میں رکھیں اور وسیم عقیل شاہ کی افسانہ نگار ی کا مطالعہ کریں تو محسوس ہو تا ہے کہ انہوں نے ادب کی روایتی قدروں کواپنی افسانہ نگاری کے ذریعے سینچنے کے ساتھ ساتھ مسلسل تبدیل ہوتی ادبی و سماجی صورتحال کوبھی اپنی کہانیوں کے دامن میں جگہ دی ہے۔ ان کا تعلق مہاراشٹر کے ادبی طور پر نہایت زرخیز خطے خاندیش کے جلگائوں سے ہے لیکن وہ عروس البلاد میں رہائش پذیر ہیں اورممبئی میونسپل کارپوریشن میں طلبہ کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔جلد ہی ان کا افسانوی مجموعہ بھی منظر عام پر آجائے گا جبکہ عالمی ادب کی جرائم پر مبنی کہانیوں کا ایک انتخاب ۲۰۱۹ء میں ہی اشاعت پاچکا ہے ۔ اس کے علاوہ ادبی تحقیقی و تنقیدی مضامین کی دو کتابیں زیر طبع ہیں جو اگلے چند ماہ میںمنظر عام پر آجائیں گی۔ پیش ہے ان سے گفتگو
آپ نے لکھنا کب  سے شروع کیا  اور لکھتے وقت کیا کیا
 دقتیں آئیں؟
   لکھنے کی شروعات تو کالج کے زمانے ہی سے ہو گئی تھی لیکن۲۰۰۶ءسے باقاعدہ طور پر تحریریں شائع ہونے لگیں ۔ـ بہت شروع میں لکھتے ہوئے جو دشواریاں درپیش ہوتی تھیں ان میں سے چند یہ کہ کس موضوع کا انتخاب کرنا ہے اور اسے افسانے میں کس طرح برتنا مناسب ہوگا، دوسرے یہ کہ ابتدا میں خواہ ہمیں فنی لوازمات کا علم کتنا ہی خوبی سے کیوں نہ ہو تب بھی ہم لکھتے وقت ان میں وہ تناسب قائم نہیں رکھ پاتے جو پختگی کے بعد آتا ہے ـ ۔ بنیادی بات یہ ہے کہ مطالعہ کم ہوتا ہے تو الفاظ کا ذخیرہ بھی ویسا نہیں ہوتا اور نہ ڈھنگ سے لکھنے کا سلیقہ آتا ہے ـ لہٰذا یہ دقتیں ہر کسی نوآموز کو درپیش ہوتی ہی ہیں ـ (ویسے اب بھی نو آموز ہی ہوں ) ۔
 لکھنے کے لئے افسانہ ہی کیوں منتخب کیا ؟
  بچپن میں کامکس کہانیاں، جن ، بھوتوں کے قصے اور شہزادوں و پریوںکی داستانیں پڑھنے کا شوق تھا، پھر نوجوانی میں تاریخی ناول اور جاسوسی ادب میں دلچسپی پیدا ہوئی ـ لہٰذا فطری طور پر لکھنے کے لئے بھی ذہن فکشن ہی کی طرف مائل ہوا۔ یہ کوئی سوچا سمجھا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ آدمی کی دلچسپی از خود اسے ایک طرف بہا لے جاتی ہے۔ ـ 
 بطور قلم کار مطالعہ کی اہمیت پر روشنی ڈالیں ـ 
  مطالعے کے بغیر لکھنے کا تصور ہی نہیں ہے بلکہ لکھنے کی تحریک  مطالعہ ہی ہے۔ ـ بطور افسانہ نگار یا شاعر جب ہم کسی شعر کو، کسی خیال کو، کردار کو، یا کسی حقیقت کو فن کا جامہ پہناتے ہیں تو اس کے جملہ اوصاف مطالعہ کی زمین سے پھوٹتے ہیں ۔ـ جتنا اچھا مطالعہ ہوگا تخلیق پارہ اسی درجہ معیاری ہوگا۔ ـ تحریر ہمارے مطالعے کا آئینہ دار ہوتی ہے۔ ـدوسرے یہ کہ مطالعہ معلومات کے ساتھ ہمیں فکری وسعت اور مختلف نظریات کا حامل بناتا ہے جو ایک فن کار میں بہ درجہ اتم موجود ہونا چا ہئے۔ ـ 
 آپ اپنے تخلیقی شعبے میں کسے اپنا آئیڈیل مانتے ہیں؟ 
   مجموعی طور پر تو افسانہ نگاروں کے آئیڈیل پریم چند، منٹو یا کرشن چندر وغیرہ ہی ہوتے ہیں میرے بھی انہی میں سے ہیں، لیکن میرے حساب سے اس کا تعین زمانوں کے اعتبار سے کرنا چاہئے۔ ـ عصری افسانہ کے حوالے سے میرے آئیڈیل معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق ہیں۔ ـ 
 بنیادی طور پر آپ کے لکھنے کا مقصد کیا ہے؟
  اس معاملے میں میرا کوئی طے شدہ مقصد نہیں رہا ۔ یہ بات بھی شاید فطری ہی ہے کہ میری کہانیاں پڑھ کر قارئین اپنے آپ میں کوئی تبدیلی پیدا کریں نہ کریں لیکن میرے احساس میں شریک ہوجائیں، بس یہی بات میرے لئے مقصود بنی رہتی ہے۔ ـ 
 کیا آپ اپنی افسانہ نگاری سے مطمئن ہیں؟ 
  جی نہیں، بس اپنی سی کوشش ہے،البتہ ایک افسانہ اندر ضرور ہے جو ابھی لکھنا باقی ہے اور ایک دن وہ ضرور صفحہ قرطاس پر وجود پائے گا، لیکن میں اس افسانے کو لکھنے کے بعد بھی شاید مطمئن نہیں ہو سکوں گا اس لئے کہ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ فکر میں پختگی آتی ہے، فن نکھرنے لگتا ہے تو نئے عزائم نئے نظریات جنم لیتے رہتے ہیں، لہٰذا یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا ہوں کہ اپنے فن سے میں کب مطمئن ہوں گا۔ ـ ہاں میری بات قاری تک پہنچ رہی ہے، میرے کردار قاری کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو مجھے اطمینان کے ساتھ تحسین بھی میسر آتی ہے ـ۔ 
 کیا ادب میں جونیئر ہونے کی وجہ سے آپ کو
 اپنے پیر جمانے میں دشواری ہوتی ہے ؟ 
 جی نہیں، کبھی نہیں، اب تک تو کسی سینئر کی جانب سے نہ کسی جونیئر کی جانب سے کوئی تکلیف ہوئی ـ اور ویسے اس مرحلے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے ـ۔(ہنستے ہوئے) جس دن ستائے جائیں گے اس دن سے اچھے رائٹرز میں شمار کئے جائیں گے۔ ویسے ـ مجھے یہ اعتراف ہے کہ مجھے ابھی لکھنے سے زیادہ پڑھنا چاہئے اسی لئے پچھلے پندرہ سترہ برسوں میں صرف ۲۵؍کہانیاں ہی لکھ پایا ہوں ـ ۔
 آپ کے نزدیک ادب کیا ہے؟ اور کیا آج تیز رفتار زندگی میں انسان کو ادب کی ضرورت ہے؟ 
 ادب زندگی ہے اور زندگی کی تہذیب کرتا ہے ۔ـ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میں ادب مختلف شکلوں میں موجود رہا ہے اور ہر دور کو اس کی ضرورت بھی رہی ہے، اور یقیناً آگے بھی رہے گی ـ۔ آج چونکہ زمانہ بے طرح تبدیل ہو چکا ہے ایسے میں میرے نزدیک ادب کی ضرورت پہلے سے اور زیادہ ہو گئی ہے۔ ـ ابھی کچھ دن پہلے کہیں پڑھا کہ شعبہ معالجات میں پریم چند اور بیدی کی کہانیوں کو شاملِ نصاب کرنے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔ ـ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس بھاگ دوڑ بھری زندگی میں بھی آدمی کو تفریح کی ضرورت کے ساتھ ساتھ اپنے وجود اور اپنی ذات کی شناخت کی بھی ضرورت ہو۔ ادب نے دنیا میں کس طرح اور کن حوالوں سے تبدیلی لائی ہے اس کی مثالیں بے شمار ہیں۔ ـ آج کا دور بھی مختلف شعبوں میں صالح تبدیلیوں کا متقاضی ہے اور یقین جانیے ادب اس کا بہترین وسیلہ ہے۔ ـ 
عصری ادبی منظر نامے میں شاعر و ادیب کا کردار بیان کیجیے ـ 
 کہیں پڑھا تھا کہ کہیں کسی انقلابی دور میں پولیس ایک شخص کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی جس نے عوام میں انقلاب کی روح پھونک دی تھی ، پتہ چلا کہ وہ کوئی انسان نہیں بلکہ وہ تو کسی ناول کا ایک فرضی کردار ہے۔ مارکسزم، انقلاب روس اور دنیا بھر کے اور بھی کئی انقلابات قلمی سطح پر عروج پاتے ہیں۔ ـاسی طرح دیگر شعبۂ حیات میں بھی ادیبوں و شاعروں نے گراں قدر خدمات دی ہیں۔ـ سیاسی، سماجی یہاں تک کہ مذہبی تناظر میں بھی دیکھیں تو شاعر و ادیب کا رول نمایاں رہا ہے ـ اور آج بھی وہ نمایاں ہی ہے اگر اس کی فکر تعمیری ہو،وہ بے باک ہو ، مخلصانہ رویہ رکھتا ہو اور بلاکسی صلہ و ستائش کے حق بیانی سے کام لیتا ہو تو یقیناً وہ بھی اسی طرح یاد کیا جائے گا۔
 کیا عصری افسانہ کا معیار کم ہو رہا ہے ؟
 پہلے تو یہ کہ اس سوال کا جواب اساتذہ افسانہ نگار ہی بہتر طریقے سے دے سکتے ہیں۔ ـ دوسرے یہ کہ ہم اس کا جواز کس کس طرح پیش کریں کہ ہر دور میں اچھے ، اوسط درجے کے اور کمزور لکھنے والے رہے ہیں۔ ایسے میں مجموعی طور پر رائے قائم کرنا مشکل ہے۔ ـ البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کل افسانہ لکھا بہت جا رہا ہے لیکن جو بھی لکھا جا رہا اس پر بات کرنا قبل از وقت ہوگا ـ ۔
 نئے قارئین پیدا ہوں اس کے لیے آپ کیا کرنا چاہیں گے؟ 
  میں افسانہ نگار ہونے کے ساتھ ایک معلم بھی ہوں اس لئے میرے پاس دو اہم شعبے ہیں کہ میں ان کےتوسط سے نئے قارئین پیدا کرنے میں تعاون پیش کر سکوں۔ ـ بطور استاد میں مطالعے کی ترغیب دینے میں یقین رکھتا ہوں۔اسی طرح افسانہ نگار کی حیثیت سے میں چاہوں گا کہ اپنی تخلیقات کو بہت سہل اور آسان بناؤں۔جدیدیت کے بعد اب بھی بہت سے لکھنے والے علامت و تجرید کا اس قدر استعمال کرتے ہیں کہ وہ قارئین کے سر کے اوپر سے گزرجاتا ہے۔اس کے بے جا استعمال نے قارئین کی تعداد پر خاصا اثر ڈالا ہے۔ ویسے بھی آج کسی کے پاس پڑھنے ہی کیلئے وقت نہیں ہے اور اس پر ہمارے افسانہ نگار قاری کو علامتوں کی تعبیریں ڈھونڈنے کیلئے مجبور کر رہے ہیں ـ ۔
 اردو زبان و ادب کی ترویج میں کیا چیزیں اہم ہیں؟ 
  صرف یہ احساس کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے اور اس کا ادب ہمارے لازوال کلچر کا عکاس ہے جو ہمیں ہر وقت اپنی وجودی عظمت کا احساس دلاتا ہے ـ اور واقعی یہ جذبہ اگر اردو والوں میں قائم ہوگیا تو ہمارے زبان و ادب کی ترویج کی راہیں از خود کھلتی چلی جائیں گی ـ ان شاءاللہ۔ ـ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK