Inquilab Logo

بی جے پی الیکشن جیتنے کیلئے کچھ بھی کرسکتی ہے

Updated: February 18, 2024, 1:20 PM IST | Veer Singhvi | Mumbai

پہلے تو اپوزیشن کےاتحاد میں شامل جماعتوں کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے اور اس سے بھی بات نہیں بنتی ہے تو ان کے ووٹوں کو کالعدم قرار دے دیا جاتا ہے۔

AAP`s mayoral candidate in Chandigarh Kuldeep Kumar could not understand his defeat and started crying, actually this result was unexpected for everyone. Photo: INN
چنڈی گڑھ میں ’آپ‘ کے میئر امیدوارکلدیپ کمار اپنی شکست کو سمجھ ہی نہیں پائے اور رونے لگے، دراصل یہ نتیجہ ہر کسی کیلئے غیر متوقع تھا۔ تصویر : آئی این این

کبھی کبھی، ہماری سیاست میں کچھ چیزیں اتنی عجیب اور بے تکی ہوتی ہیں کہ وہ آپ کو قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتی ہیں، اور کبھی کبھی، یہ سب اتنا مضحکہ خیز لگتا ہے کہ آپ اس پر طنزیہ اور افسوس کے انداز میں ہنستے ہیں۔ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو آپ اپنی آنکھوں کے سامنے ملک کے سیاسی نظام کو تہہ و بالا ہوتے ہوئے دیکھ کر روئیں گے۔ 
 گزشتہ دنوں ہم نے ایک الیکشن کے دوران اس کی ایک واضح مثال دیکھی جس کا کوئی بڑا نتیجہ نہیں نکلنے والا تھا۔ چنڈی گڑھ کے میئر کے انتخاب کیلئے ہونے والی ووٹنگ کو سب سے پہلے پریذائیڈنگ آفیسر انیل مسیح نے اس بنیاد پر ملتوی کر دی تھی کہ وہ کمر میں درد میں مبتلا تھے۔ جب انہوں نے ووٹنگ ہونے دینے کی مہربانی کی تو نتیجے کی پیش گوئی کرنا آسان ہونا چاہئے تھا کیونکہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی (آپ) نے اتحاد کرلیا تھا اور ان کے پاس واضح اکثریت تھی۔ 
 لیکن نہیں، بی جے پی کی طرف سے مقرر کردہ پریزائیڈنگ آفیسر اور بی جے پی اقلیتی مورچہ کے سابق جنرل سیکریٹری نے اعلان کیا کہ بی جے پی امیدوار منوج سونکر جیت گئے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے آسان حل یہ نکالا کہ اپوزیشن کے۲۰؍ میں سے۸؍ ووٹوں کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کے بعد وہ میونسپل کارپوریشن کی عمارت سے باہر نکل گئے کیونکہ ہاتھا پائی شروع ہوگئی اور مبینہ طور پرکچھ بیلٹ پیپرز تباہ ہو گئے۔ 
 بیلٹ پیپرز کو کالعدم کیوں قرار دیا گیا؟ پریزائیڈنگ آفیسر کے دعوے کے مطابق ان پر نشانات تھے۔ یہ بات درست بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی۔ ویسے وہاں لگے سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پریزائیڈنگ آفیسر خود ہی کاغذات پر چھوٹے چھوٹے نشان بنا رہے ہیں۔ کیا وہ ان ووٹوں کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟جی ہاں ! کم از کم اپوزیشن کا یہی خیال ہے۔ لیکن جب پریزائیڈنگ آفیسر ٹی وی کیمروں کے سامنے آیا تو اس نے الگ ہی دعویٰ کردیا۔ اس نے کہا کہ’’نہیں ! اپوزیشن لیڈروں ہی نے کاغذات خراب کئے ہیں۔ ‘‘
 یہ مقدمہ اب پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کے سامنے زیر سماعت ہے، لیکن سرخیاں پہلے ہی لکھی جا چکی تھی اور نیوز چینلوں نے بھی اپنا کام کر دیا تھا۔ انہوں نے حالات کا جائزہ نہیں لیا، واقعات کی جانچ نہیں کی اور خوشی سے’’انڈیا اتحاد کو دھچکا‘‘ دینے کا اعلان کردیا۔ میئر کے الیکشن میں اس طرح کے شرمناک رویے کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ آج ہندوستانی سیاست کس قدر مضحکہ خیز ہوچکی ہے بلکہ ہندوستانی سیاست کے زوال کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ اب تو صورتحال یہ ہے کہ آپ وہی کرتے ہیں جو آپ کو پسند ہےکیونکہ آپ کو یقین ہے کہ آپ ایسا کرکے بچ سکتے ہیں۔ 

یہ بھی پڑھئے: حکمراں طبقہ اپوزیشن کےتمام لیڈروں کونشانہ بنارہا ہےلیکن ہم نےبھی یہ عہد کررکھاہےکہ ہم نہیں جھکیں گے

 آئیے! اب ایک اور سنگین معاملے پر غور کریں۔ اس کیلئے مشہور بہاری قلاباز، جنتا دل (یونائیٹڈ) کے صدر اور بہار کےوزیراعلیٰ نتیش کمار کی تازہ ترین قلابازی کو بطور مثال پیش کرتے ہیں۔ ہندوستانی سیاست میں وزیر اعلیٰ کے سابق اتحادیوں کے درمیان عام اتفاق رائے یہ ہے کہ انہوں نے آسانی سے پالا نہیں بدلا ہے۔ کیونکہ ایسا کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا؟ اسمبلی انتخابات، جس میں راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ساتھ ان کا اتحاد کی کامیابی بھلے ہی مشکوک رہی ہو لیکن ابھی اس میں کئی ماہ باقی ہیں اورتب تک بہار کے وزیر اعلیٰ کے طور پر ان کے عہدہ کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ نتیش کمار کے پالا بدلنے سے فرق صرف اتنا ہوگا کہ اس کی وجہ سے آنے والے لوک سبھا انتخابات میں بہار میں بی جے پی کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوگا۔ اس سے نتیش کمار یا ان کی پارٹی جے ڈی (یو) کو زیادہ فرق پڑنے کا امکان نہیں ہے۔ اس اتحاد میں زیادہ تر کامیابی بی جے پی کو ملیں گی۔ بھلے ہی نتیش کمار آئندہ اسمبلی انتخابات تک بی جے پی کے ساتھ رہیں ... اور وہ ایک ساتھ الیکشن لڑ کر جیت بھی جائیں .... تو بھی ان کے وزیراعلیٰ بننے کے امکانات نہیں رہیں گے۔ بی جے پی انہیں ہرگز وزیراعلیٰ نہیں بنائے گی۔ بی جے پی نے مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کو موقع نہیں دیا تو وہ نتیش کمار کے ساتھ رحم دلی کیوں دکھائے گی؟
 دوسری طرف اس واقعے کی وجہ سے ایک بااصول لیڈر کے طور پر نتیش کمار کی جو تھوڑی بہت بھی ساکھ بچی ہوئی تھی، وہ اب خاک میں مل چکی ہے۔ بار بار پالا بدلنے کی ان کی حرکتیں ان کے سطی پن کو ظاہر کرتا ہے اور اقتدار کے تئیں ان کی لالچ کی عکاس کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اپنے کریئر کے اس مرحلے پر، جب ان کے وزارت اعلیٰ کے عہدے کو کوئی خطرہ نہیں تھا، ان کی تازہ ترین قلابازی سے کوئی زیادہ فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔ 
 اسلئے اب ’انڈیا‘ اتحاد میں شامل ان کے پرانے ساتھیوں کی طرف سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ انھوں نے دباؤ میں آکر بی جے پی کے ساتھ اتحاد کیا ہے۔ حالانکہ کوئی یہ نہیں بتارہا ہے کہ وہ کس قسم کے دباؤ میں تھے، لیکن ایسا اسلئے کہا جارہا ہے کیونکہ اس بار ان کے قلابازی کھانے میں یہی ایک بات ہے جو قرین قیاس زیادہ لگ رہا ہے۔ 
لیکن جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے اور بعد میں نتیش کمار کیمپ اور خود اُن کے بیانات میں پہلے ہی سے ایک خاص قسم کی مضحکہ خیزی تھی۔ ان کی باتوں میں کوئی وزن نہیں ہے۔ ان کے وزیروں کا کہنا ہے کہ کانگریس اور مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مل کر نتیش کمار کو انڈیا اتحاد کاکنوینر نہیں بننے دیا۔ اگر اس بات میں سچائی ہے تو بھی کیا محض اس بنیاد پر اتنا بڑا فیصلہ کیا جاسکتا ہے؟ ایسا کہہ کر ان کے لیڈران خود ان کی ہی ساکھ خراب کررہے ہیں۔ اس طرح سے بیانات سے یہی ثابت کیا جارہا ہے کہ نتیش کمار ایک ’بگڑیل بچے‘ کی طرح ہیں کہ انہیں ان کے پسند کا ’کھلونا‘ نہیں ملا تو انہوں نے ’کھیل‘ ہی خراب کردیا۔ نتیش کمار کیمپ میں کسی کو بھی شاید اس بات کا احساس نہیں ہے کہ یہ جواز کتنا بکواس ہے۔ 
 بہرحال گزشتہ ہفتے پیش آنے والے یہ دونوں واقعات ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ آج کے حالات میں کسی بھی اپوزیشن اتحاد کیلئے بی جے پی سے لڑنا کتنا مشکل ہونے والا ہے، اسے شکست دینا تو بہت دور کی بات ہے۔ اول تو ان کے اتحادمیں شامل پارٹیوں کو توڑ لیا جائے گا اوراس سے بھی بات نہیں بنی تو اپوزیشن کے ووٹوں کو کالعدم قرار دےدیا جائے گا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK