Inquilab Logo

حکمراں طبقہ اپوزیشن کےتمام لیڈروں کونشانہ بنارہا ہےلیکن ہم نےبھی یہ عہد کررکھاہےکہ ہم نہیں جھکیں گے

Updated: February 04, 2024, 4:58 PM IST | Kapil Sibal | Mumbai

گرفتاری سے قبل جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنت سورین کی ملک کے معروف قانون داں کپل سبل سے یوٹیوب چینل ’سینٹرل ہال وِتھ کپل سبل‘ پر ہونے والیگفتگو کے اہم اقتباسات۔

Hemant Soren and Kapil Sibal. Photo: INN
ہیمنت سورین اور کپل سبل۔ تصویر : آئی این این

کپل سبل: ابھی حال ہی میں ۲۲؍ جنوری کو ایودھیا میں بڑا بھاری پروگرام ہوا۔ اس کے بعد رام راج کی بات کی جانے لگی۔ ایک طرف تو رام راج کی بات ہورہی ہے، دوسری طرف سرکاریں گرائی جارہی ہیں ۔ ابھی بہار میں ایسا دیکھنے کو ملا ہے۔ یہاں رام راج اور وہاں آیا رام، گیا رام۔ یہ ہندوستان میں ہورہا ہے۔ اور مجھے ایسا پتہ چلا ہے کہ آپ کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ای ڈی آپ کو بلاتی رہتی ہے، سمن بھیجتی رہتی ہے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے پاس کیس کیا ہے؟
ہیمنت سورین: ہم لوگ آج یہاں ملے، اس کیلئے بہت بہت شکریہ۔ جہاں تک موجودہ رام راج کی بات ہے، ایودھیا ایونٹ کی بات ہے، ملک کے اندر سیاسی گہماگہمی کی بات ہے، میں بھی ا س سے مبرا نہیں ہوں کیوں کہ میں بھی ایک سرکار چلا رہا ہوں ۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ جس دن میں نے سرکار بنائی ہے، اس کے ایک گھنٹے بعد ہی سے میں مختلف قسم کے چیلنجز کا سامنا کررہا ہوں۔ بی جے پی کی جانب سے میری حکومت کو غیر مستحکم کرنے اور سرکار گرانے کی مسلسل سازشیں ہوتی رہی ہیں لیکن ہم نے ان کی ہر سازش کو بے نقاب کیا ہے۔ 
سبل: بی جے پی کے دور حکومت میں آپ نائب وزیراعلیٰ بھی تو رہے ہیں ؟ جس وقت ریاست میں ارجن منڈا کی سرکار تھی؟
سورین: ہاں ! یہ بات درست ہے۔ سیاسی اُتار چڑھاؤ تو ہم نے کئی بار دیکھا ہے۔ بنیادی طورپر ہم لوگوں کا تحریکی اور آندولن کاری پس منظر ہے۔ آپ کو تو پتہ ہوگا، دنیا کے لوگ لاکھ کچھ کہہ لیں، لیکن ۲۰۰۰ء میں ہمیں جو الگ ریاست ملی، وہ ہمارے والد صاحب کی دین رہی ہے۔ ہمارے والد نےاُس تحریک کیلئے اپنا بچپن، جوانی اور بڑھاپا نذر کردیا۔ اس کے ساتھ ملک میں اور کئی ریاستیں بھی وجود میں آئی تھیں جو تاریخ جھارکھنڈ کی رہی ہے، وہ سب سے مختلف ہے کیونکہ جغرافیائی، علاقائی اور لسانی اعتبار سے اس ریاست کا وجود عمل میں نہیں آیا تھا، جیسا کہ دوسری بہت ساری ریاستیں تشکیل پائی تھیں۔ یہاں پر ہندی کے ساتھ کئی اور زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ یہاں کی آبادی کی اکثریت غریبوں پر مشتمل تھی۔ آپ جانتے ہیں کہ یہاں دلتوں، آدیواسیوں اور غریبوں پر مظالم کی ایک تاریخ رہی ہے۔ اس کا شکار ہمارے دادا جی بھی ہوئے تھے۔ 
سبل: وہ شاید ایک پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے؟
سورین: جی ہاں !وہ ایک سرکاری پرائمری اسکول میں ٹیچر تھے لیکن وہ بھی اعلیٰ طبقات کے مظالم سےمحفوظ نہیں تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ اس حوالے سے ملک میں اگر سب سے زیادہ ظلم کہیں ہوئے ہوں گے تو وہ اسی خطے میں ہوئے ہوں گے، اس کی وجہ سے ہمیں ایک طویل جنگ لڑنی پڑی۔ 
سبل: آپ کے داد ا جی کا قتل بھی ہوگیا تھا؟
سورین: ہاں ! میرے دادا جی کا نہایت دردناک قتل ہوا تھا۔ قتل کے بعد انہیں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا تھا۔ مجھے تو خیر اپنے دادا کو دیکھنا نصیب نہیں ہوالیکن باتیں سنی ہیں اور اپنے والد کی جدوجہد کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ 
سبل: آپ کے والد کس عمر سے اس تحریک سے وابستہ ہوئے تھے؟
سورین: مجھے لگتا ہے کہ اُس وقت ان کی عمر ۱۶۔ ۱۵؍ سال رہی ہوگی۔ اُس وقت انہوں نے تعلیم اور گھر بار چھوڑ کر پوری طرح سے اس تحریک سے جڑ گئے تھے۔ انہوں نے اپنے ساتھ ہی کچھ اور لوگوں کو جمع کیا لیکن ان کی تحریک کی ایک خاص بات یہ بھی رہی کہ انہوں نے لوگوں کو حصول تعلیم پر بھی آمادہ کیا۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم ہی سے حق حاصل ہوگا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد بہرحال ملک کی حکومت نے تسلیم کیا کہ ان کا مطالبہ جائز ہے۔ اس طرح سے جھارکھنڈ کا وجود عمل میں آیا۔ اس کے بعد ہی سے ریاست میں سرکاریں بنتی اور بگڑتی ہیں، کبھی ہم سرکار میں تو کبھی سرکار کے باہر ہوتے تھے۔ وہ لوگ جو ہمیں اقتدار میں کسی صورت میں نہیں دیکھنا چاہتے، ہم برابر ان کی سازشوں کے شکار ہوتے رہے۔ ۲۰؍ سال تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد ہم نے اقتدار کی جدوجہد شروع کی اور اس کیلئے ہم نے اپنی ہم خیال جماعتوں سے اتحاد کیا۔ 
سبل: آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔ آپ بی جے پی کے ساتھ حکومت میں تھے، پھر آپ نے علاحدگی کیوں اختیار کی؟
سورین: یہ بات درست ہے کہ ہم نے بی جے پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تھی اور میں اس میں ڈپٹی چیف منسٹر تھا لیکن حکومت سازی کے بعد ہی اس بات کا احساس ہونے لگا تھا کہ بی جے پی کو صرف اقتدار میں دلچسپی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اتحادی جماعت کو کمزور بھی کرنا چاہتی ہے۔ جس طرح تالاب میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھاجاتی ہیں، اسی طرح بی جے پی اپنی حلیف جماعتوں کو بھی کھاجانا چاہتی ہے۔ مجھے جلدہی اس بات کااحساس ہوگیا تھا کہ اگر ہم ان کے ساتھ رہے تو ’جے ایم ایم‘ کا وجود ہی مٹ جائے گا، اسلئے ہم ان سے الگ ہوگئے۔ ان سے الگ ہونے کے بعد ہمیں ان سے بہت زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ 
سبل: مجھے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ آپ ایک آدیواسی ہونے اور معاشی طور پر ایک کمزور پس منظرسے تعلق رکھنے کے باوجود آپ اس مقام تک پہنچے، مجھے لگتا ہے کہ آپ شاید پہلے وزیراعلیٰ ہوں گے؟
سورین: میرے والد صاحب نے جب علاحدہ ریاست کی تحریک چلائی تھی تو ملک کی سیاسی جماعتیں میرے والد کا مذاق اُڑاتی تھیں کہ ایک آدیواسی الگ ریاست کی مانگ کررہا ہے لیکن دنیا نے دیکھا کہ ان کی تحریک کامیاب رہی۔ اسی طرح سے جب میں نے سرکار بنائی تو اول دن سے لوگ میرا مذاق اُڑانے لگے تھے کہ یہ کیا سرکار چلا پائے گا؟ یہ سرکار تو دو چار ماہ میں گر جائے گی، وغیرہ لیکن آج ہماری حکومت کے چار سال پورے ہوگئے ہیں اور پانچویں سال میں داخل ہوگئی ہے۔ ہماری حکومت کو جب سیاسی طور پر غیر مستحکم نہیں کرپائے تو پھر ایجنسیوں کا استعمال ہونے لگا۔ 
سبل: یہ آ پ کو جو سمن پر سمن دیئے جارہے ہیں، تو کیا آپ کے خلاف کوئی ایف آئی آر بھی درج ہے؟
سورین: یہی تو خاص بات ہے۔ میرے خلاف کوئی ایف آئی آر نہیں ہے، نہ ہی میں نے کسی طرح کی کوئی قانون شکنی کی ہے، اس کے باوجود یہ میرے خلاف ایک پروپیگنڈہ چلا کر میری شبیہ خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ 
سبل:سنا ہوں کہ آپ کے ساتھ ہی آپ کے افسروں اور آپ کے رشتہ داروں کو بھی پریشان کیا جارہا ہے؟
سورین: ہاں ! یہ لوگ جانتے ہیں کہ حکومتیں اعلیٰ افسران کی وجہ سے ہی چلتی ہیں۔ اسلئے یہ لوگ انہیں پریشان کرکے میری حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسی طرح رشتہ داروں کو پریشان کرکے ذہنی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجھے اب یہ بات شدت سے محسوس ہورہی ہے کہ قانون کا نام لے کر یہ لوگ اپنا مفاد پورا کررہے ہیں۔ 
سبل:آج کی تاریخ میں کیا آپ موجودہ حکومت کا مقابلہ کرسکتے ہیں ؟
سورین: میں حالات سے کبھی مایوس نہیں ہوا۔ اس سے کہیں خراب حالات سے ہم دوچار ہوئے ہیں۔ انہیں ہمارے عزائم کا علم ہے، اسلئے یہ اپوزیشن کے تمام لیڈروں کو نشانہ بنارہے ہیں لیکن ہم نے بھی یہ عہد کررکھاہے کہ ہم ان کے آگے نہیں جھکیں گے۔ 
نوٹ: یہ ویڈیو ہیمنت سورین کی گرفتاری سے دو دن قبل’دی وائر‘ پر جاری کیا گیا تھا۔ اب وہ سابق وزیراعلیٰ ہوگئے ہیں اور جیل میں ہیں لیکن ان کی باتیں آج بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK