Inquilab Logo

بی جے پی کو مندرسےکامیابی کی اگر اتنی ہی اُمید ہےتو ایودھیا سے نکلتے ہی خوفزدہ کیوں ہوجاتی ہے؟

Updated: February 04, 2024, 4:58 PM IST | Shiron Garg | Mumbai

وزیر اعظم کو ان ہی کی کابینہ نے ایک قرارداد پاس کرکے’جن نائک‘ قرار دے دیا ہے۔ اب عوام کو بھی ایسی ہی ایک تجویز پاس کردینی چاہئے! ملک میں اس وقت انقلابی تبدیلیوں کی ہوا چل رہی ہے۔

Narendra Modi. Photo: INN
نریندر مودی۔ تصویر : آئی این این

وزیر اعظم کو ان ہی کی کابینہ نے ایک قرارداد پاس کرکے’جن نائک‘ قرار دے دیا ہے۔ اب عوام کو بھی ایسی ہی ایک تجویز پاس کردینی چاہئے! ملک میں اس وقت انقلابی تبدیلیوں کی ہوا چل رہی ہے۔ یہ مان لینا چاہئے کہ ۱۵؍ اگست اور۲۶؍ جنوری نہیں بلکہ۲۲؍ جنوری ہی اب نئے ہندوستان کی تشکیل اور اس کے جمہوریہ بننے کی تاریخ ہے۔ وزیر اعظم نے ملک اور دنیا کو جانکاری دی ہے کہ ۲۲؍ جنوری کا سورج ایک نئی چمک کے ساتھ طلوع ہوا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ اس کی مدد سے آنے والے ہزار برسوں کیلئے ہندوستان کی بنیاد رکھنی ہے۔ 
وزیر اعظم کے خطاب کے بعد یہ نہیں بتایا گیا کہ حال کے جس دور میں ۱۴۰؍ کروڑ ہڈی اور گوشت کے پُتلے سانس لے رہے ہیں، وہ کیا ہے؟ اور جس ’رام راج‘ کے آنے کی جانب سنگھ (راشٹریہ سویم سیوک سنگھ) کے سربراہ موہن بھاگوت نے ایودھیا میں اشارہ کیا ہے، اس کا خاکہ کن معماروں کے ذریعہ اقتدار کے کن خفیہ تہہ خانوں میں ترتیب دیا جارہاہے؟
 اگر ملک میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو اشاروں میں سمجھنا ہو تو ہمیں ملک کی آزادی کے بعد سومناتھ مندر کے افتتاح کے دور میں جانا ہوگا۔ اس موقع پر اُس وقت کے وزیر اعظم اور جدید ہندوستان کے خالق پنڈت جواہر لال نہرو نے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کو ایک سیکولر جمہوریہ کے سربراہ کی حیثیت سے کسی خاص مذہب کی عبادت گاہ کی افتتاحی تقریب میں شریک ہونے سے متعلق آگاہ کیا تھا۔ لیکن راجندر بابو راضی نہیں مانے۔ ۲۲؍ جنوری صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک ’تاریخی لمحہ‘ ہے کیونکہ نہ صرف خود وزیر اعظم نے سومناتھ ہی کی طرح منعقدہ تقریب میں میزبان کے طور پر شریک ہونے کا فیصلہ کیا بلکہ ان کے ایودھیا دورے قبل والی رات کو صدر کے طور پر مقرر سیکولر ملک کی پہلی شہری نے اس قدم کیلئے انہیں نیک خواہشات کااظہار بھی کیا۔ 
 صدر جمہوریہ نے اپنے تہنیتی پیغام میں کہا کہ ہم سب خوش قسمت ہیں کہ قومی احیا کے ایک نئے دور کے آغاز کا ہم مشاہدہ کر رہے ہیں۔ صدر جمہوریہ نے رام مندر کے افتتاح کے موقع پر ملک گیر تہوار کے ماحول کو ہندوستان کی ابدی روح کا آزادانہ اظہار قرار دیا۔ صدر جمہوریہ نے وزیراعظم کے نام بھیجے گئے اپنے خط میں کہا کہ `آپ کی طرف سے کی گئی۱۱؍ روزہ سخت مشقت صرف مذہبی روایات کی پیروی نہیں ہے بلکہ قربانی کے جذبے سے متاثر ایک اعلیٰ ’دھارمک‘ عمل ہے اور شری رام کے تئیں مکمل عقیدت کی مثال بھی ہے۔ 
 پیچھے مڑ کر دیکھنا چاہئے کہ ہزاروں کروڑ کی لاگت سے بنائے گئے عظیم الشان مندر کے احاطے میں لگائے گئے ’بیریکیڈ‘ کے پُرسکون انداز میں سجی سجائی اور خاموش بیٹھی وہ سات آٹھ ہزار مخلوق کون تھیں ؟
کیا ملک کے یہ انتہائی اہم چہرے اپنا قیمتی وقت اور پیسہ خرچ کر کے صرف رام للا کے درشن کیلئے ایودھیا پہنچے تھے؟ یا ملک کے سب سے طاقتور شخص کو اپنا چہرہ دکھانے کیلئے ان کا وہاں جمع ہونا ضروری تھا؟ کیا ان لوگوں کو رام للا کے درشن کا شرف حاصل ہوا؟ یہ لوگ یقیناً ان کروڑوں لوگوں سے مختلف تھے جو۲۲؍ جنوری کو بن بلائے وہاں پہنچے تھے لیکن اس وقت اپنے درشن کیلئے قطاروں میں دھکے کھارہے ہیں ۔ 
باباؤں، سادھو سنتوں، بڑے بڑے صنعت کاروں، اداکاروں، صدی کے مہا نائیکوں اور سیاست دانوں کی جس منتخب گروپ کو ایودھیا میں مدعو کیا گیا تھا، دراصل اس گروپ میں شامل لوگ ہی ملک اور حکومتیں چلاتے ہیں۔ دہلی میں خواہ کوئی بھی پارٹی حکومت بنائے، ہرایک’پران پرتشٹھا‘ میں صرف انہی لوگوں کی موجودگی ہی اقتدار کےبھگوانوں کے ذریعہ قبول کی جاتی ہے۔ میڈیا کے کیمروں کی آنکھوں کی مدد سے ملک کے لوگ اس گروہ کے کپڑوں، زیورات، میک اپ اور ان کی سجی سجائی شخصیت کو دیکھتے ہیں اور اس کی سحر میں اپنے تمام دکھ درد بھول جاتے ہیں۔ حکومت بھی عوام کو یہ واضح پیغام دینا چاہتی ہے کہ وہ تمام لوگ جن کی سماج میں ذرا سی بھی حیثیت ہے، اِس وقت اس کا ساتھ دے رہے ہیں ... اور جو لوگ اس تقریب سے غیر حاضر ہیں، حکومت انہیں اپنے ساتھ نہیں مانتی۔ 
 آزاد ہندوستان کی پارلیمانی تاریخ میں یہ شاید پہلا موقع ہے کہ وزیر اعظم کی قیادت میں وزراء کی کونسل نے ایودھیا دھام میں ’پران پرتشٹھا‘ کیلئے ایک غیر معمولی قرار داد منظور کر کے مودی کو مبارکباد دی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ’’۱۹۴۷ء میں ملک کا جسم آزاد ہوا تھا لیکن ۲۲؍ جنوری کو اس کی ’پران پرتشٹھا‘ ہوئی ہے۔ ’مریادا پرشوتم رام‘ کی ’پران پرتشٹھا‘ کیلئے قدرت نے آپ کاانتخاب کیا ہے۔ عوام کی طرف سے جس قدر محبت آپ کو ملی ہے، اسے دیکھ کر آپ کو ’جن نائیک‘ تو کہا ہی جاتا ہے، اب تو اس دور کا آغاز کرنے کے بعد آپ نئے دور کے سرخیل بھی بن کر ابھرے ہیں۔ ‘‘
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ شنکراچاریہ کی واضح اور کھلی ہوئی مخالفت کے باوجود کی گئی ’پران پرتشٹھا‘ کی تقریب کو بی جے پی ۲۰۲۴ءکے لوک سبھا انتخابات کیلئے عوامی حمایت میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ عوام بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ گزشتہ ۱۰؍ برسوں میں کام کے نام پر حکومت کے پاس یا تو کورونا ویکسین کی گنتی ہے یا پھر ایودھیا میں مندر کا افتتاح۔ تو کیا ایودھیا میں محض مندر کی تعمیر ہی سے لوک سبھا میں بی جے پی اکثریت کے جادوئی اعداد تک پہنچ جائے گی؟ اگر ’جن نائیک‘ کو مندر کے افتتاح کے بعد اپنی کامیابی کا اتنا ہی یقین ہے اورعوام پر اتنا ہی اعتماد ہے تو وہ ایودھیا سے باہر نکلتے ہی اتنا خوف زدہ کیوں ہوجاتے ہیں؟ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK