Inquilab Logo

جواب بھلے ہی نہ ملے مگر حقائق بہت کچھ کہتے ہیں

Updated: July 25, 2021, 10:45 AM IST | Mumbai

ان حقائق کو حاصل کرنے یا ان تک پہنچنے کی کوشش کے ذریعہ وطن عزیزکے لوگوں کو اپنے ملک کی تصویر اعدادوشمار کے آئینے میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ ہم کہا ںآگئے ہیں؟

Government spending on poor Indians was cut short before the outbreak began.Picture:Midday
غریب ہندوستانیوں پر سرکاری خرچ کا سلسلہ وباء کے آغاز سے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ تصویر مڈڈے

چند ہفتے پہلے تک ہندوستانی میڈیا حتیٰ کہ عالمی میڈیا کی خبروں پر بھی جو موضوع چھایا ہوا تھا وہ کووڈ کی وباء پر قابو پانے میں ہندوستان کی ناکامی سے متعلق تھا۔ وباء کے ٹیکوں کی اب بھی قلت ہے جس کا اظہار وزرائے اعلیٰ کے بیانات سے ہوتا ہے مگر اب میڈیا کا موضوع بدل گیا ہے۔ ٹی وی چینلوں کے میزبان (اینکر) پیگاسس پر زور صحافت صرف کررہے ہیں۔ یہ وہ اسرائیلی سافٹ ویئر ہے جو صحافیوں، سیاستدانوں، جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین اور اُن کے عزیزوں نیز سی بی آئی کے افسروں کیلئے ’’خریدا‘‘ گیا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ سافٹ ویئر حکومت ہی نے حاصل کیا ہے مگر اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کا جواب ہمیں نہیں معلوم اور شاید ہی کبھی معلوم ہوسکے۔ یہ ہمیں کبھی بتایا ہی نہیں جائیگا۔ بلاشبہ ہندوستان جمہوری ملک ہے مگر اب اس میں بڑی غیر شفافیت آگئی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے حکومت، کسی بادشاہ کے زیر انصرام ہو جس کے شایان شان نہ تو سوالوں کے جواب دینا ہے نہ ہی پریس کانفرنس سے خطاب کرنا۔ جو صحافتی ادارے سچائی کو اُجاگر کرتے ہیں اُن کے دفاتر پر چھاپے پڑتے ہیں۔
 اس تمہید کے لئے معذرت خواہی کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج کے کالم کا یہ موضوع نہیں ہے۔ میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اُس موضوع کی طرف جو مودی کے اب تک کے اقتدار میں بالکل حاشئے پر رہا۔ یہ موضوع ہے: ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟پیگاسس کی طرح کہ اسے کس نے حاصل کیا اور کووڈ کی طرح کہ اسے دفع کرنے میں اتنی غفلت کیوں برتی گئی، یہ سوال بھی تشنہ ٔ جواب ہے کہ معیشت کی وہ درگت کیوں بنی جس کا سامنا ہم کررہے ہیں۔ جواب بھلے ہی نہ دیا جارہا ہو مگر حقائق زیادہ عرصے تک چھپے نہیں رہ سکتے۔ یہاں چند حقائق پیش کئے جارہے ہیں، ان کے پیش نظر سوچئے کہ ہمارا ملک کہاں آگیا ہے اور اسے کہاں لے جایا جارہا ہے۔ 
 غریب ہندوستانیوں پر سرکاری خرچ کا سلسلہ وباء کے آغاز سے پہلے ہی ختم ہوچکا تھا۔ صارفین کے ذریعہ خرچ ہونے والی رقومات کا حجم ۱۸۔۲۰۱۷ء میں کم ہوچکا تھا ۱۲۔۲۰۱۱ء کے مقابلے میں۔ اس کی تفصیل حکومت ہی کے ذریعہ ملی مگر حکومت نے اسے باقاعدہ طور پر جاری نہیں کیا۔ مودی کے دور میں بے روزگاری کی شرح بڑھتی ہی چلی گئی۔ جن لوگوں کے پاس کام یا روزگار ہے ان کی تعداد ۲۰۱۳ء میں ۴۴؍ فیصد تھی جو ۲۰۱۶ء میں ۴۱؍ فیصد ہوگئی، پھر ۲۰۱۷ء میں ۴۰؍ فیصد ہوگئی اور ۲۰۲۱ء میں ۳۸؍ فیصد رہ گئی ہے جبکہ کام کرنے والے لوگوں یا روزگار کے خواہشمندوں کی تعداد ۷۹؍ کروڑ سے ۱۰۶؍ کروڑ ہوگئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مودی کے اقتدار میں متوسط طبقہ کی ترقی رُک گئی۔ آٹھ بڑے شہروں (احمد آباد، بنگلور، چنئی، دہلی، حیدرآباد، کولکاتا، ممبئی اور پونے) میں رہائشی فلیٹوں کی فروخت جو ۲۰۱۲ء میں ۳ء۳؍ لاکھ تھی، ۲۰۱۹ء میں ۳ء۲؍ لاکھ ہوگئی جبکہ ۲۰۲۰ء میں مزید تخفیف کا شکار ہوکر ۱ء۵؍ لاکھ یونٹ ہی باقی رہ گئی۔ 
 مسافر موٹر گاڑیوں کی کھپت بھی جمود کا شکار ہے۔ ۲۰۱۲ء میں ۲۷؍ لاکھ گاڑیاں فروخت ہوتی تھیں، ۲۰۱۹ء میں یہ تعداد ۲۷؍ لاکھ ہی رہی اور ۲۰۲۰ء میں بھی ۲۷؍ لاکھ۔ دو پہیہ گاڑیوں کی فروخت پر بھی جمود طاری ہے۔ ۲۰۱۴ء میں ۱ء۶؍ کروڑ گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جو ۲۰۲۰ء میں کم و بیش اتنی ہی( ۱ء۵؍ کروڑ) رہی۔ تین پہیہ گاڑیوں کی فروخت ۲۰۱۲ء میں ۵؍ لاکھ تھی جو ۲۰۱۵ء میں بھی ۵؍ لاکھ رہی، ۲۰۱۶ء میں بھی ۵؍ لاکھ رہی، ۲۰۱۹ء میں ۶؍ لاکھ ہوئی (معمولی اضافہ) اور ۲۰۲۰ء میں ۲؍ لاکھ پر آگئی۔ تجارتی مقاصد کے تحت استعمال ہونے والی گاڑیاں، جو کمرشیل وہیکل کہلاتی ہیں، ان کی سیل میں بھی کوئی اضافہ ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ ۲۰۱۲ء میں ان گاڑیوں کی کھپت ۷ء۹؍ لاکھ تھی، ۲۰۱۵ء میں ۶؍ لاکھ ہوئی، ۲۰۱۶ء میں ۷؍ لاکھ ہوئی، ۲۰۱۹ء میں بھی ۷؍ لاکھ رہی جبکہ ۲۰۲۰ء میں ۵ء۶؍ لاکھ ہوگئی۔ جہاں تک ’زیادہ عرصہ تک استعمال میں رہنے والی اشیاء‘ (کنزیومر ڈیوریبلس) یعنی ایئر کنڈیشنر، واشنگ مشین اور ٹی وی سیٹ وغیرہ کا تعلق ہے، ۲۰۱۴ء میں خیال کیا جاتا تھا کہ ۲۰۲۰ء تک یہ مارکیٹ ڈیڑھ لاکھ کروڑ کا ہوجائیگا مگر ۲۰۱۹ء میں یہ ۷۵؍ ہزار کروڑ سے کچھ زیادہ ہی کا رہ گیا تھا جبکہ ۲۰۲۰ء میں ۵۰؍ ہزار  کروڑ تک محدود ہوگیا۔ 
 سفر کرنے والوں کی تعداد (خواہ ریل سے ہو یا ہوائی جہاز سے) ۲۰۱۲ء میں ان کی تعداد ۸۴۰؍ کرو ڑ تھی جو ۲۰۱۹ء میں ۸۲۶؍ کروڑ رہ گئی۔ یہ وبائی حالات کے آغاز سے پہلے کی صورت حال ہے۔ چین کے سربراہ لی کیکیانگ نے ایک جدول تیار کیا ہے جس کے ذریعہ حقیقی جی ڈی پی میں اضافے کو پیش کیا جاتا ہے بالخصوص ریلوے کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچائے جانے والے مال کی مقدار و تعداد، بجلی کا استعمال اور قرضوں کی تقسیم جیسے اُمور میں جن سے معیشت کی نبض کو جانچا جاتا ہے۔ اگر ان کاجائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ریلوے سے بھیجے جانے والے مال کی مقدار ۲۰۱۴ء میں ۱ء۱؍ ارب ٹن تھی جو سال بہ سال اتنی ہی رہی ۲۰۱۹ء تک۔ ۲۰۲۰ء میں یہ ۱ء۲؍ ارب ٹن ہوئی (معمولی اضافہ)۔ بجلی کی پیداوار ۲۰۱۷ء سے ۲۰۲۰ء تک یکساں رہی (۱ء۳؍ ارب ٹن)، جبکہ ملک کی آبادی میں ۷؍ کروڑ کا اضافہ ہوا۔ 
 یہ مودی کے دور اقتدار کا کچا چٹھا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم اس حالت کو کیوں پہنچے؟ اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ اگر ایسے ہی حالات رہے تو ہم دُنیا سے کیسے مسابقت کرسکیں گے اور اپنے عوام کی بڑی تعداد کو غربت کے دلدل سے کس طرح نکال سکیں گے؟ہمارے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے اور حکومت تو یہ اعتراف کرنے تک کو تیار نہیں ہے کہ ہاں ہم اس حالت کو پہنچ چکے ہیں۔ اس نے یہ بتانے میں بھی دلچسپی نہیں لی کہ اس حالت سے نکلنے کیلئے اس کے کیا منصوبے ہیں۔ کیا ’’سب چنگا سی‘‘ کہنے سے کچھ ہوسکتا ہے؟ n 

editoral Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK