Inquilab Logo

کسانوں کے مطالبات اور حکومت کی بے اعتنائی

Updated: September 12, 2021, 8:38 AM IST | Mumbai

حکومت چاہتی ہے کہ کسان تحریک ختم کردیں اور کسان مُصر ہیں کہ حکومت متنازع قوانین کو منسوخ کردے۔ ایسے میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منسوخی کیوں نہیں ہورہی ہے؟

Farmers Movement.Picture:INN
کسان تحریک تصویر آئی این این

رواں  ماہ کے اواخر میں یعنی ۲۶؍ ستمبر کو سمیوکت کسان مورچہ نے زرعی قوانین کی منسوخی کیلئے بھارت بلند کا اعلان کیا ہے۔ کسانوں کا  وہ احتجاج جو گزشتہ سال شروع ہوا تھا، اب تک کیوں جاری ہے۔ اس کے جواب کیلئے ہمیں اب تک کی تفصیل کا جائزہ لینا چاہئے:
 کسانوں کی تحریک نے مرکزی حکومت کو آٹھ مطالبات کی ایک فہرست پیش کی ہے۔ اس میں پہلا مطالبہ ہے کہ قانون جس کے تحت، منڈی کے باہر ٹیکس سے مستثنیٰ زرعی پیداوار کی فروخت کی اجازت دی گئی ہے اُسے منسوخ کیا جائے اور اقل ترین قیمت کی ضمانت دی جائے۔ دوسرا مطالبہ ’’معاہدہ کے تحت کاشت کاری‘‘  (کانٹریکٹ فارمنگ) کے قانون کی واپسی سے متعلق ہے۔ تیسرا مطالبہ یہ لے کہ لازمی اشیاء ایکٹ میں جو ترمیم کی گئی ہے اُسے بھی منسوخ کیا جائے جس کے ذریعہ زرعی پیداوار کی ذخیرہ اندوزی کو مجرمانہ فعل کے دائرے سے باہر کردیا گیا ہے۔ چوتھا مطالبہ الکٹریسٹی آرڈیننس ۲۰۲۰ء میں جس ترمیم کی تجویز پیش کی گئی ہے اُسے واپس لیا جائے جس کے ذریعہ پاور سبسیڈی ختم ہوجائے گی اور اس کی جگہ نقد سبسیڈی جاری ہوجائیگی۔ پانچواں مطالبہ یہ ہے کہ ایندھن پر جو ٹیکس ہیں اُنہیں ختم کیا جائےجس کا مقصد ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں کو بین الاقوامی خام تیل کی قیمتوں سے منسلک کیا گیا ہے۔ چھٹا مطالبہ پھونس اور غلے کے سوکھے ڈنٹھل کو جلانے سے ہونے والی آلودگی کے آرڈیننس ۲۰۲۰ء کو منسوخ کیا جائے جو  پھونس یا ڈنٹھل کو جلا کر تلف کرنے سے متعلق ہے، جسے مجرمانہ اور قابل تعزیر قرار دیا گیا ہے۔ ساتواں مطالبہ اس رجحان کو ختم کرنے سے متعلق ہے جس کے ذریعہ مرکز، ریاستوں کے موضوعات یا اُن کی عملداری کے اُمور میں مداخلت کرتا ہے۔ یاد رہے کہ زراعت یا کاشتکاری ریاستوں کا موضوع ہے، مرکز کا نہیں۔ آٹھواں مطالبہ یہ ہے کہ سی اے اے مخالف احتجاج کے سبب بھیما کوریگاؤں کیس میں ماخوذ افراد کو غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے۔ 
 گزشتہ سال ۳۰؍ دسمبر کو مودی حکومت نے الیکٹریسٹی سے متعلق آرڈیننس (مندرجہ بالا مطالبہ نمبر ۴) کے ذریعہ کی جانے والی ترمیم کو واپس لینے پر اتفاق کا اظہار کیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ پھونس یا سوکھے ہوئے ڈنٹھل جلانے پر عائد جرمانہ سے کسانوں کو مستثنیٰ کرنے کا بھی اشارہ دیا تھا (مطالبہ نمبر ۶)۔ اس کے بعد، سال رواں میں ۱۲؍ جنوری کو سپریم کورٹ نے زرعی قوانین کے نفاذ کو اسٹے آرڈر کے ذریعہ روک دیا۔ اسٹے میں مطالبہ نمبر ایک، دو اور تین کو ملحوظ رکھا گیا تھا۔ اس کے بعدعدالت نے ایک چار رُکنی کمیٹی بنائی جسے کسانوں سے ملاقات اور مذاکرات کی ذمہ داری دی گئی اور کہا گیا تھا کہ وہ اپنی سفارشات عدالت کو پیش کرے۔ کمیٹی کے ایک رُکن بھوپندر سنگھ مان نےیہ کہتے ہوئے خود کو کمیٹی سے علاحدہ کرلیا تھا کہ وہ کسانوں کے مطالبات کے حامی ہیں۔ دیگر تین اراکین میں دو زرعی معاشیات کے ماہر ہیں جو کسانوں کی تحریک سے قطع نظر حکومت کے اقدام کی حمایت میں مضامین لکھ چکے تھے۔ 
 سپریم کورٹ نے کمیٹی تو بنادی مگر کسانوں نے اس کے اراکین سے ملاقات سے انکار کردیا۔ کمیٹی نے رواں سال (مارچ) میں اپنی سفارشات ایک مہربند لفافے میں سپریم کور ٹ کو پیش کردیں۔ چند ماہ پیشتر مرکزی وزیر ِاُمور ِ صارفین، جس کے سربراہ پیوش گوئل ہیں، نے مونگ دال کو چھوڑ کر تمام دالوں کی ذخیرہ اندوزی کی حد مقرر کردی اور کہا کہ ہول سیل والے ۲۰۰؍ ٹن اور ریٹیل والے ۵؍ ٹن سے زیادہ دالیں ذخیرہ نہیں کرسکتے۔
  یہ اس لئے کیا گیا کہ قیمتیں بڑھ رہی تھیں مگر اس کا ایک مطلب یہ تھا کہ حکومت خود لازمی اشیاء کے قانون کی منسوخی کے خلاف جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کی بنائی ہوئی کمیٹی کے اراکین نے اس بات پر بے دلی اور اُکتاہٹ کا اظہار کیا کہ ان کی پیش کردہ رپورٹ  کا مہر بند لفافہ اب بھی جوں کا توں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی رپورٹ کے جاری ہونے کے وقت حکومت اور عدالت کو ’’نظم و نسق کی صورتحال‘‘ کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کمیٹی نے زرعی قوانین ختم کرنے یا منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کی ہے مگر اس کے ایک رکن انیل گھنوٹ کے بقول ’’ان قوانین میں بہت سے عیب یا خامیاں ہیں جن کا دور کیا جانا ضروری ہے۔‘‘ 
 اب صورتحال یہ ہے کہ کسانوں کے مطالبات سب پر ظاہر ہیں اس کے باوجود ان کی شنوائی نہیں ہورہی ہے اور وہ حسب سابق احتجاج پر مجبور ہیں جبکہ عالم یہ ہے کہ ان کے چند مطالبات کے خاتمے پر اتفاق کرلیاگیا ہے۔ چند اُمور میں سپریم کورٹ نے اسٹے دے کر حکومت کو نفاذ سے روک دیا ہے جبکہ ایک شق ایسی ہے (جسے اوپر بیان کیا گیا) جسے حکومت نے منسوخ تو نہیں کیا مگر بے اثر کردیا ہے۔ سال کے اوائل میں حکومت نے کہا کہ وہ زرعی قوانین کے نفاذ کو ۱۸؍ ماہ تک روکنے کیلئے تیار ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت جن قوانین کو خود روکنے پر رضامند ہے اُنہیں منسوخ کرنے میں اسے کیا تامل ہے؟ زیر بحث قوانین آرڈیننس کی شکل میں پیش ہوئے تھے اور آتم نربھر بھارت پیکیج کے طور پر منظور ہوئے، راجیہ سبھا میں بھی اسے اس طرح منظور کروالیا گیا کہ ان پر ووٹوں کی تقسیم نہیں کرائی گئی کہ کتنے اراکین ان سے متفق ہیں اور کتنے متفق نہیں ۔ 
 بہرکیف، کسان اپنی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سب سے دلچسپ اور غور طلب بات یہ ہے کہ کسی تنظیم یا گروہ یا گروپ نے ان قوانین کے وضع کئے جانے کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔ حکومت پر انہیں نافذ کرنے کا کوئی دباؤ بھی نہیں ہے اس کے باوجود حکومت مُصر ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کسان خود اُکتا کر تحریک ختم کردیں گے یا کوئی اور بات ممکنہ طور پر آڑے آجائیگی حالانکہ اس کا امکان نہیں ہے۔ بھارت بند اس کا ثبوت ہے کہ کسانوں کے حوصلے بلند ہیں۔ 
 سوال یہ ہے کہ آخر کیا چیز حکومت کو روکتی ہے ان قوانین کو منسوخ کرنے سے؟ شاید یہ کہ حکومت اپنے ’’عزم محکم‘‘ کا ایک اور ثبوت دینا چاہتی ہے جس کا براہ راست تعلق ’’۵۶؍ انچ کے سینے‘‘ سے ہے۔ خدا کرے کہ ایسا نہ ہو کیونکہ اس سے ہمارے ملک کی قیادت کے بارے میں کوئی اچھا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ n 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK