Inquilab Logo

تربیت کا فریضہ اور گھر کی مرکزیت

Updated: March 17, 2024, 2:26 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ باپ کی گود کو بھی اسی درجہ میں رکھنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو اسکول سے پہلے جس اسکول کی شناخت مستحکم ہوگی وہ گھر ہوگا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

ماں کی گود پہلی درس گاہ ہوتی ہے۔ باپ کی گود کو بھی اسی درجہ میں رکھنا چاہئے۔ اگر ایسا ہو تو اسکول سے پہلے جس اسکول کی شناخت مستحکم ہوگی وہ گھر ہوگا۔ چونکہ یہ شناخت مستحکم نہیں کی جاتی اور گھر کو اولین اسکول کا درجہ نہیں دیا جاتا اس لئے گھر پر بچے کی جو تعلیم و تربیت ہونی چاہئے وہ بھلے ہی غیر شعوری طور پر تھوڑی بہت جاری رہے، اسے باقاعدہ اور شعوری طور پر جاری رہنے والی سعی نہیں کہا جاسکتا جبکہ بچوں کے عادات و اطوار کی ابتدائی اور حقیقی نشوونما گھر ہی میں ہوتی ہے اور بچپن ہی میں ہوتی ہے۔ یہ نہ ہو تو بعد میں خراب عادات و اطوار کی اصلاح بہت مشکل ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ عادات کی اصلاح کے بغیر ہی زندگی گزارتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ بعد کی نسل کی بھی تربیت نہیں کرپاتے، تربیت کا حق ادا کرنا تو دور کی بات ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ بہت کم والدین بچوں کو بتا پاتے ہیں کہ اُنہیں کتنا کھانا ہے، کیا اور کیسے کھانا ہے، کب سونا ہے، کیسے سونا ہے، کب جاگنا ہے، کس طرح گفتگو کرنی ہے، اُٹھنے بیٹھنے کا انداز کیسا ہونا چاہئے، ایمانداری اور سچائی کو خود پر کس طرح لازم کرنا چاہئے، جھگڑنے کا نقصان اور مل جل کر رہنے کا فائدہ کیا ہے، وغیرہ۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کی تعلیم بھی والدین نہیں دیتے، گھر آنے والے مولوی صاحب یا مکتب کے معلم کے ذریعہ بچوں تک یہ باتیں پہنچتی ہیں اگر اُنہیں ابتدائی دینی تعلیم کا باقاعدہ موقع ملا اور پڑھانے والا ذمہ داری سے پڑھاتا ہو۔ عموماً بچے کا کلام پاک پڑھنے کے قابل ہوجانا کافی سمجھا جاتا ہے جبکہ نماز کیسے پڑھی جائے، بچہ جو کچھ بھی پڑھنے کے قابل ہوا اس کا معنی کیا ہے، کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے، گفتگو کرنے اور مہمان نوازی کے اسلامی آداب کیا ہیں یہ سب بچوں کو نہیں معلوم ہوتا۔ اسلامی تاریخ کی موٹی موٹی باتیں بھی اُس کے علم میں نہیں لائی جاتیں۔ علم کی اس کمی اور تربیت کے اس خلاء کے ساتھ بچہ پروان چڑھتا ہے اور پھر اسکول نیز کالج جاکر اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ یہ خلاء پُر ہو ہی نہیں پاتا۔ چند بچے ذاتی کوشش سے یا ذمہ دار والدین کی تنبیہ پر کچھ سیکھ لیں تو بات جدا ہے۔ یہ سب اسلئے ہے کہ والدین اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتے اور گھر کو اولین مدرسہ و مکتب کا درجہ دینے کا شعور نہیں رکھتے۔ سب جانتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے مگر صفائی ستھرائی کا فقدان ثابت کرتا ہے کہ صفائی کو نصف ایمان سمجھنے کا احساس پیدا نہیں ہوا۔ پڑوسی کے حقوق سے اکثر لوگ واقف ہوتے ہیں مگر چونکہ اس کی تعلیم جیسی تعلیم نہیں ہوتی اس لئے پڑوسی کے حقوق سے واقفیت کے باوجود ان حقوق کی ادائیگی معلق رہتی ہے۔ ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ بچے بڑے ہوجائیں تب بھی گھر کے تعلیم گاہ ہونے کی حقیقت برقرار رہتی ہے۔ اسلاف کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نہایت مؤثر تعلیم گاہ ہے چنانچہ ماں کی کہی ہوئی باتیں بچوں کے ذہن پر نقش ہوکر رہ گئیں اور زندگی بھر اُنہیں روشنی دیتی رہیں۔ والد صاحب کی تنبیہ یا تاکید جزوِ زندگی بن گئی۔ اسلاف کی تاریخ میں اس کے نقوش جابجا دکھائی دیتے ہیں مگر اس تاریخ سے استفادہ کرتے ہوئے تربیت کے معاملے میں گھر کی مرکزیت کو یقینی نہیں بنایا گیا۔ آج بھی والدین بچوں کو لے کر نہیں بیٹھتے۔ اُن کی نماز نہیں سنتے کہ وہ ٹھیک طریقے سے نماز پڑھتے ہیں نہیں، کبھی یہ نہیں کہتے کہ کلام پاک کی کوئی ایک سورہ پڑھ کر سناؤ تاکہ اندازہ ہوکہ اُن کا تلفظ، مخرج وغیرہ درست ہے یا نہیں۔کیا یہ سب ہمارے کرنے کے کام نہیں؟ 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK