Inquilab Logo

دو طرفہ مسئلہ

Updated: May 19, 2024, 1:24 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اسکول کالج بند ہیں اور طلبہ چھٹیاںمنا رہے ہیں ۔ان میں سے بیشتر کو یہ احساس نہیں ہے کہ عرصۂ حیات میں طالب علمی کا یہ دَور ہی ایسا ہوتا ہے جس میں کم و بیش ڈیڑھ ماہ کی فراغت حاصل رہتی ہے۔ ایک بار طالب علمی کا دور ختم ہو جائے تو یہ فراغت چھن جاتی ہے جو، بہ الفاظ دیگر، نعمت ہے۔ کیا والدین اور دیگر لوگ طلبہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نعمت کی قدر کی جانی چاہئے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

اسکول کالج بند ہیں  اور طلبہ چھٹیاںمنا رہے ہیں ۔ان میں  سے بیشتر کو یہ احساس نہیں  ہے کہ عرصۂ حیات میں  طالب علمی کا یہ دَور ہی ایسا ہوتا ہے جس میں کم و بیش ڈیڑھ ماہ کی فراغت حاصل رہتی ہے۔ ایک بار طالب علمی کا دور ختم ہو جائے تو یہ فراغت چھن جاتی ہے جو، بہ الفاظ دیگر، نعمت ہے۔ کیا والدین اور دیگر لوگ طلبہ کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس نعمت کی قدر کی جانی چاہئے اور جو فارغ وقت اُنہیں  میسر ہے اُس کے بہترین استعمال سے اُنہی کا مفاد وابستہ ہے؟
 شاید نہیں ۔ اس کی وجہ معاشرہ کی غفلت ہے جس کے ایک نہیں کم از کم آدھ درجن شواہد پیش کئے جاسکتے ہیں ۔ مثلاً محلوں  میں طلبہ کو تعمیری طور پر مصروف رکھنے کا کوئی منصوبہ کہیں  دیکھنے کو نہیں  ملتا۔ نہ تو ہم عارضی کتب خانے قائم کرتے ہیں  نہ ہی مختصر مدتی تکنیکی کورسیز جاری کرکے طلبہ کو ہنر مند بنانے کی سعی کرتے ہیں ۔ نہ تو اُنہیں  ووکیشنل گائیڈنس سے ہمکنار کرتے ہیں  نہ ہی مذہبی تعلیمات کو سمجھنے اور سمجھانے کا کوئی لائحہ عمل ان کے سامنے رکھتے ہیں ۔ قرآن فہمی اور دین فہمی کی مجالس، نمازوں کو درست کرنے کا تربیتی سلسلہ نیز کلام پاک کو صحیح مخارج اور تجوید کے ساتھ پڑھنے کیلئے مختصر مدتی کورس بھی طلبہ کو مصروف رکھنے کی اہم تدابیر ہوسکتی ہیں مگر نجانے کیوں  معاشرہ ہمہ وقت غفلت میں  پڑا رہتا ہے۔ اس صورت حال میں  اگر نوعمروں کے پاس کوئی کام نہ ہو اور وہ اپنا وقت غیر تعمیری سرگرمیوں  میں گزاریں توقصوروار کون ہوگا؟ 
 دورِ حاضر میں موبائل اور انٹرنیٹ، چیٹنگ، سوشل میڈیا وغیرہ کے اثرات ِ بد سے کون واقف نہیں ۔ پہلے بھی اصلاح معاشرہ کی ضرورت تھی مگر اب تو معاشرہ کے بگاڑ کے درجنوں  دروازے کھل گئے ہیں  لہٰذااصلاح معاشرہ کی ضرورت کتنے گنا بڑھ گئی ہے اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ۔ اصلاح معاشرہ کے نام پر بھی ہمارے یہاں تقریروں پر اکتفا کیا جاتا ہے جبکہ ہمارے خیال میں  متبادل پیش کرنے کی حکمت عملی ہی نتیجہ خیز ہوسکتی ہے۔ جب تک آپ متبادل پیش نہ کریں تقریروں  سے مقصد پورا نہیں  ہوسکتا۔ 
 اوپر جن تدابیر کی جانب اشارہ کیا گیا ہے وہ متبادلات ہی ہیں  تاکہ طلبہ اپنا فاضل اور فارغ وقت بہترین انداز میں گزاریں  مگر متبادل ہے کہاں ؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم یہ سوچ کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ طلبہ ازخود ٹھیک ہوجائینگے۔ فرض کرلیجئے وہ ازخود ٹھیک ہوگئے اور تعمیری خطوط پر گامزن کئے بغیر اُنہوں  نے غیر تعمیری سرگرمیوں  سے منہ موڑ لیا تو یہ بہت اچھی بات ہوگی مگر بیج بوئے بغیر پیڑ کے پھلنے پھولنے اور ثمر بار ہونے کی اُمید کیسے کی جاسکتی ہے؟ معاشرہ کو یہ تسلیم کرنا پڑیگا کہ اس کے پاس نوعمروں  اور نوجوانوں  کو انگیج کرنے کا پروگرام نہیں  ہے۔ صرف تسلیم کرنے سے بھی کام نہیں  چلے گا بلکہ ’’پرو ایکٹیو‘‘ ہوکر طلبہ کے سامنے ایسے متبادل پیش کرنے ہوں  گےجو پُرکشش ہوں  اور جن میں  وہ دلچسپی لیں ۔ 
 یہ بھی تسلیم کیجئے کہ نوجوانوں کی زندگی میں  تربیت کا خلاء پایا جاتا ہے۔ ان کی تربیت ویسی نہیں  ہورہی ہے جیسی ہماری ہوئی تھی۔ اس کے مقابلے میں  خرابیٔ حالات ہے کہ اس پر قدغن لگانا ممکن نہ ہونے کی حد تک مشکل ہے۔ یہ دو طرفہ مسئلہ ہے اور اس کا یک طرفہ حل بھی معاشرہ کے پاس نہیں  ہے۔کیا اس غفلت کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ نئی نسل اعلیٰ صفات کی حامل ہوگی؟ یہ تو خام خیالی ہوگی۔

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK