Inquilab Logo

کووڈ کا دَور بھلایا نہیں جاسکتا مگر کتنا یاد رکھا جاتا ہے؟

Updated: April 14, 2024, 1:29 PM IST | Aakar Patel | Mumbai

اُس دور کی یہ خصوصیت بھی یاد رکھی جانی چاہئے کہ ابتدائی دور میں تو حکومت وباء کی سنگینی کو ملحوظ ہی نہیں رکھ رہی تھی، بی جے پی کی ریلیاں جاری تھیں۔

Photo: INN
تصویر:آئی این این

تین سال پہلے، ۱۵؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو عالمی وباء ’’کووڈ‘‘ کے سلسلے میں  نیشنل ٹاسک فورس کی میٹنگ ہوئی تھی جو کہ تین ماہ میں  ہونے والی پہلی میٹنگ تھی۔ اس کی آخری میٹنگ ۱۱؍ جنوری کو ہوئی۔ تب یعنی ۲۰۲۱ء میں  متاثرین کی تعداد ۲؍ لاکھ ۱۶؍ ہزار سے تجاوز کرچکی تھی جبکہ مہلوکین کی تعداد ایک ہزار سے سوا تھی۔ اس کے دو دن بعد یعنی ۱۷؍ اپریل ۲۰۲۱ء کو وزیراعظم نریندر مودی نے آسنسول میں  ایک ریلی کی جسے اُنہوں  نے اپنی سیاسی زندگی کی سب سے بڑی ریلی قرار دیا تھا۔ سامعین میں  لاکھوں  لوگ موجود تھے۔ اس دن متاثرین کی تعداد ۲؍ لاکھ ۶۰؍ ہزار جبکہ مہلوکین کی تعداد ڈیڑھ ہزار تھی۔ اس وقت تک مودی اقتدار کی جدوجہد میں  تھے حالانکہ ماہرین متنبہ کرچکے تھے کہ وباء تیزی سے پھیل رہی ہے۔ وہ حرکت میں  تب ہی آئے جب مغربی بنگال سے اُن کی واپسی ہوئی اور ٹی وی پر یہ خبر گرم ہوئی کہ دہلی کے اسپتالوں  کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ دوسرے دن یعنی ۱۸؍ اپریل کو مودی نے کمبھ میں  مزید کسی سرگرمی کو موقوف کیا۔ اس وقت روزانہ کے کیسیز کی تعداد ۲؍ لاکھ ۷۵؍ ہزار ہوچکی تھی اس کے باوجود اُنہوں  نے حالات کی سنگینی کو نہیں  سمجھا۔ چار دن بعد اُن کی جانب سے فعالیت کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا وہ بھی اس صورت میں  کہ اُنہوں  نے مغربی بنگال میں  مالدا، مرشد ااباد، بیر بھوم اور کولکاتا کی ریلیاں  منسوخ کیں ۔ 
 تب بھی اُن کا کہنا تھا کہ جو ریلیاں  ہونی ہیں  وہ ’’ورچوئل‘‘ ہوں  گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ صرف خطاب کرنے والا ورچوئل یعنی آن لائن ہوگا جبکہ سامعین اب بھی اُسی طرح جمع ہوں  گے جیسے کسی ریلی کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ اس دن متاثرین کی تعداد ۳؍ لاکھ ۳۲؍ ہزار ہوچکی تھی اور ہلاکتیں  روزانہ ۲۲۰۰؍ تھیں ۔ جس دن وزیر اعظم مودی نے ریلیوں  کو منسوخ کیا اُسی دن الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ہدایت جاری کی کہ تمام پارٹیاں  ریلیاں  منسوخ کریں ۔ گویا اُن پر پابندی لگا دی گئی۔ 
 کووڈ کے دوسرے دور میں  وزیر اعظم مودی نے جس حکمت عملی کو راہ دی وہ یہ تھی کہ اُن کا دفتر تمام اُمور کی سربراہی کرے گا۔ مرکزی کابینہ نے نہ تو صورت حال پر غوروخوض کیا نہ ہی کوئی فیصلہ کیا۔ کسی بھی نکتے پر صلاح و مشورہ نہیں  ہوا۔اس دور میں  کابینہ کی پانچ میٹنگیں  ہوئیں  مگر اُن کا ایجنڈا مختلف تھا۔ بنگلور کا میٹرو پورجیکٹ اور چند غیر ملکوں  سے میمورینڈم آف انڈراسٹینڈنگ پر بات چیت۔
 ۱۱؍ مئی کو بھی کابینہ کی میٹنگ ہوئی مگر اب بھی موضوع دوسرا تھا۔ وہ تھا اتراکھنڈ میں  روپ وے پروجیکٹ۔مرکزی کابینہ کے وزراء نہیں  جانتے تھے کہ کووڈ کی ٹیکہ کاری سے متعلق وزیر اعظم مودی کی حکمت عملی کیا ہے، اگر کوئی حکمت عملی ہے تو۔ ۱۸؍ مئی کو وزیر نتن گڈکری نے مطالبہ کیا کہ مزید فرموں  (کمپنیوں ) کو کووڈ کا ٹیکہ بنانے کی اجازت (لائسنس) دیا جائے۔دوسرے دن یہ خبر مشتہر ہوئی اور اس کے ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ مودی کو یہی مشورہ ڈاکٹر منموہن سنگھ نے بھی دیا تھا۔
 اس پوری تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ جب وباء پھیلی ہوئی  تھی، عوام پر آفت آئی ہوئی تھی تب مودی صاحب کووڈ سے نجات پانے کی پلاننگ او رہنگامی حالات سے ہنگامی طور پر نمٹنے کی منصوبہ بندی کے علاوہ کچھ اور کررہے تھے۔ مارچ سے ستمبر ۲۰۲۰ء تک مودی نے خود شریک رہ کر یا ورچوئل ذریعہ سے ۸۲؍ عوامی ریلیوں  سے خطاب کیا۔ اس کے بعد کے چار مہینوں  میں  وہ ۱۱۱؍ عوامی جلسوں  میں  دکھائی دیئے۔ فروری سے ۲۵؍ اپریل ۲۰۲۱ء کے درمیان اُنہوں  نے ۹۲؍ ریلیوں  سے خطاب کیا لیکن کمبھ اور بنگال کی ریلیاں  منسوخ کرنے کے بعد وہ غائب ہوگئے۔ ۲۰؍ دن تک اُنہوں  نے کسی پبلک ریلی میں  شرکت نہیں  کی۔ وزیر اعظم ایسے وقت میں  عوام کی نگاہوں  سے اوجھل ہوئے تھے جب عوام کو اُن کی حکومت اور اس  کے ذریعہ جنگی پیمانے پر مدد کی سخت ضرورت تھی۔ 
 ۲۰۲۰ء میں  دو مرتبہ (پہلے اپریل میں  اور اس کے بعد نومبر میں ) مرکزی حکومت کو متنبہ کیا گیا تھا کہ آکسیجن کی قلت بڑھ رہی ہے۔ ایک میٹنگ کی روداد میں  صاف طور پر لکھا ہوا ہے کہ’’ آئندہ دنوں  میں  ہندوستان آکسیجن کی سخت قلت سے دوچار ہوسکتا ہے۔‘‘   ہرچند کہ اپریل سے پہلے مودی نے وباء کی سنگینی پر کوئی خاص توجہ نہیں  دی تھی بلکہ یہ کہا تھا کہ ہر شخص اس سے خود نمٹے۔ اُس وقت انڈین ایکسپریس کی ایک شہ سرخی کا مفہوم کچھ اس طرح تھا: ’’وباء کو روکنے میں  کابینہ کا کوئی کردار نہیں ، دفتر وزارت عظمیٰ سارے کام دیکھ رہا ہے۔‘‘ یہی طرز حکمرانی ہے جو وزیر اعظم مودی کے اقتدار میں  آنے کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ 
 کووڈ کی وبا فروری سے پھیلنی شروع ہوئی تھی جو پھیلتی رہی اور اسے روکنے کی کوشش نہیں  ہوئی۔ مارچ کے چار ہفتے اور اپریل کے تین ہفتوں  تک صورت حال یہ تھی کہ عوامی اجتماعات جاری تھے جو یاتو بی جے پی کے زیر اہتمام منعقد کئے جارہے تھے یا اُنہیں  بی جے پی کی حمایت حاصل تھی۔ ایسے میں  ملک کا وہ طبی نظام غیر معمولی ہچکولے کھا رہا تھا جو عام دنوں  میں  بھی غریبوں  کا ساتھ نہیں  دیتا۔ 
 کووڈ کی دوسری لہر سے دو ماہ پہلے (۲۱؍ فروری ۲۰۲۱ء کو) بی جے پی نے ایک قرار داد منظور کی جس میں  درج تھا: ’’یہ بات فخر کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ ہندوستان نے وزیر اعظم نریندر مودی کی اہل اور قابل، حساس، دھن کی پکی اور صاحب بصیرت قیادت میں  کووڈ کو شکست دے دی ہے۔‘‘
  اسی قرار داد میں  یہ بھی درج تھا کہ اس حکومت نے عوام میں  آتم نربھر بھارت کے عزم کو پختہ کیا ہے چنانچہ پارٹی اپنی قیادت کی ستائش کرتی ہے کہ اس نے ملک کو عالمی نقشے پر ایک ایسے ملک کے طور پر متعارف کرایا ہے جو کووڈ کے خلاف جنگ جیت چکا ہے۔ 
 جب شمشانوں  کے قریب بھیڑ دیکھی جارہی تھی، تب اس کا کہیں  کوئی تذکرہ نہیں  تھا۔ ہوسکتا ہے کہ ان ساری باتوں  سے بلند بانگ دعوؤں  پر کوئی فرق نہ پڑے مگر یہ ۱۵۲۶ء کے واقعات نہیں  ہیں ، یہ سب ہماری آنکھوں  کے سامنے محض تین سال پہلے ہوا ہے جسے فراموش نہیں  کیا جانا چاہئے ۔

covid-19 Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK