Inquilab Logo

ماہ رمضان کے تناظر میں محنت کا فلسفہ!

Updated: March 22, 2024, 11:01 AM IST | Mudassir Ahmad Qasmi | Mumbai

کسی بھی کامیابی کے لئے محنت لازمی ہے، بس شرط یہ ہے کہ محنت کا قبلہ درست ہو؛ بصوت دیگر کامیابی سے قریب ہونے کے بجائے دور ہونا یقینی ہے۔

In Ramadan, the market is at its peak. Photo: INN
رمضان میں بازاروں کی بھیڑ اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ تصویر : آئی این این

کسی بھی کامیابی کے لئے محنت لازمی ہے، بس شرط یہ ہے کہ محنت کا قبلہ درست ہو؛ بصوت دیگر کامیابی سے قریب ہونے کے بجائے دور ہونا یقینی ہے۔ شریعت اسلامیہ میں بھی مختلف النوع کامیابی کے حصول کے لئے الگ الگ طریقوں سے محنت کرنے کی تلقین اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں سورہ جمعہ کی آیت نمبر دس میں رزق کی تلاش کے لئے محنت کی کچھ اس طرح رہنمائی کی گئی ہے: ’’پھر جب نماز پوری ہوجائے تو اللہ کی زمین میں پھیل جاؤ، اللہ کی روزی تلاش کرو اور اس کو کثرت سے یاد کرتے رہو ؛ تاکہ تم فلاح پاؤ۔ ‘‘ اس آیت کے ضمن میں اس نکتہ کو سمجھنا اہم ہے کہ اگر کوئی نماز پڑھنے کے بعد بھی مسجد ہی میں بیٹھا رہے یا سو جائے جبکہ اس کیلئے محنت ضروری ہو تو اس صورت میں رزق سے محرومی طے ہے۔ 
محنت کے ضمن میں یہ بات بہت اہم ہے کہ جس کام کے لئے جو وقت متعین ہو وہ کام اسی وقت میں ہونا چاہئے۔ ایک کام کی جگہ دوسرا اور دوسرے کی جگہ تیسرا کام، بہتر نتائج کو مانع ہے۔ سورہ جمعہ ہی کی آیت نمبر گیارہ میں ہمیں یہ پیغام ملتا ہے:’’ اور جب یہ تجارت یا کھیل تماشہ دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں، آپ فرمادیجئے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ کھیل تماشہ اور خرید و فروخت سے بہتر ہے اوراللہ سب سے بہتر روزی دینے والے ہیں۔ ‘‘ اس آیت کا سبب نزول یہ ہے کہ مدینہ میں قحط کی کیفیت تھی، اشیاء کی قیمتیں بہت بڑھ گئی تھیں، اسی حال میں ایک جمعہ کو لوگ جمعہ کے لئے اکٹھا تھے اور رسول اللہ ﷺ خطبہ کے لئے کھڑے ہوچکے تھے، اسی درمیان ایک تجارتی قافلہ آیا، جس کے پاس ڈھیر ساری غذائی اشیاء تھیں، اس وقت تک چوں کہ جمعہ کے آداب مسلمانوں کے سامنے نہیں آئے تھے اور خطبہ کے وقت خرید و فروخت کی ممانعت نہیں ہوئی تھی، ان کا خیال تھا کہ نماز میں ادھر اُدھر جانے کی ممانعت ہے نہ کہ خطبہ میں ؛ اس لئے چند حضرات کو چھوڑ کر سب کے سب تجارتی قافلہ کی طرف چلے گئے۔ بہر حال، قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے اس آیت میں یہ پیغام ہے کہ شریعت نے جس کام کے لئے جو وقت متعین کیا ہے، ہمیں وہ کام اسی متعینہ وقت میں انجام دینا چاہئے۔ 
 چونکہ اس وقت ہم رمضان کے مقدس مہینے میں ہیں، اس وجہ سے آئیے! محنت میں کامیابی کے فلسفے کو اسی سیاق و سباق میں دیکھتے ہیں۔ رمضان کا روزہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے، اب اگر کوئی بلا عذر محنت کو یعنی رمضان کے روزے کو موخر کر دیتا ہے تو اس کو جو نقصان ہوگا اس کا اندازہ ہم اس حدیث سے لگا سکتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے بغیر شرعی اجازت اور بیماری کے رمضان شریف کا ایک روزہ بھی توڑا اسے عمر بھر کے روزے کفایت نہیں کر سکتے اگرچہ وہ عمر بھر روزے رکھے۔ ‘‘ (ترمذی) اسی طرح رمضان نیکی اور عبادات میں محنت کرنے کا وقت ہے تاکہ اللہ رب العزت کی جانب سے رمضان کے خصوصی آفر سے ہم کما حقہ مستفیض ہو سکیں۔ رمضان کے خصوصی آفر کا ذکر اس حدیث میں مذکور ہے: ’’حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کی آخر تاریخ میں ہم لوگوں کو وعظ فرمایا کہ : تمہارے اوپر ایک مہینہ آرہا ہے جو بہت بڑا مہینہ ہے، بہت مبارک مہینہ ہے۔ اس میں ایک رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے، اللہ تعالی نے اس کےروزہ کو فرض فرمایا اور اس کے رات کے قیام کو ثواب کی چیز بنایا ہے، جو شخص اس مہینہ میں کسی نیکی کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرے، ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں فرض کو ادا کیا، اور جو شخص اس مہینہ میں کسی فرض کو ادا کرے وہ ایسا ہے جیسا کہ غیر رمضان میں ستر فرض ادا کرے۔ (صحیح ابن خزیمہ)
 افسوس کی بات یہ ہے کہ رمضان میں جن چیزوں پر ہمیں زیادہ محنت کرنی چاہئے ہم اس پر محنت کرنے کے بجائے کچھ غیر ضروری چیزوں پر زیادہ محنت صرف کر دیتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ رمضان سے جو روحانی کامیابی ہمیں ملنی چاہئے وہ نہیں مل پاتی ہے۔ چنانچہ رمضان میں ہم میں سے کچھ لو گوں کی محنت کا محور، عمدہ کھانے کی تیاری، آرام اور عید کی خریداری ہو جاتا ہے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ زندگی میں کوئی بھی اہم اور قابلِ قدر چیز بغیر مشکل اور جد و جہد کے حاصل نہیں ہوتی۔ چونکہ رمضان المبارک نیکیوں کا خزینہ ہے تو ہم یہ کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ وہ خزینہ ہم عمدہ کھانا، شاپنگ اور آرام سے حاصل کر لیں گے۔ ایک حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ: ’’روزہ میرے لئے ہے اور اس کا بدلہ میں عطا کروں گا۔ ‘‘ (بخاری) اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس بدلے کا وعدہ کیا ہے، اس کی وسعت کا اندازہ بھی ہمارے تصور سے ما وراء ہے، لہٰذا انعامات کے اُس بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونے کیلئے، ہمیں ماہ رمضان المبارک میں اپنی عبادت والی محنت کو دو چند کر دینا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK