Inquilab Logo

قرآن خود اعلان کررہا ہے کہ وہ سمجھنے والوں کیلئے ایک کھلی کتاب ہے

Updated: April 08, 2024, 3:08 PM IST | Dr. Tasneem Ahmed

اِن کے ایمان لانے کے چند ہی روز بعد چھٹے برس کا آغاز ہو گیا اور عمرؓ بن الخطاب ایمان لے آئے۔ یہ چھٹا برس ہے اور اہلِ ایمان کے لئے دورِ تشدد اختتام کی جانب ہو رہا ہے۔

In order to understand the Qur`an, one should recite it sincerely and meditate on it. Photo: INN
قرآن کو سمجھنے کیلئے اخلاص کے ساتھ اس کی تلاوت اور اس پر غور و فکر کرنا چاہئے۔ تصویر: آئی این این

حیاتِ طیّبہ کے چوتھے برس میں، جب مکّہ شہر والےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا اپنے لیڈروں کی پیروی میں مذاق اُڑا رہے تھے اور بات کو مان کر نہ دےرہے تھےاور نہ بات کوسمجھنا ہی چاہ رہے تھے، تو ایسی صورتِ حال میں سورئہ سبا میں فرمایا گیا:
’’کافر کہتے ہیں کہ ہم ہرگز اس قرآن کو نہ تسلیم کریں گے اور نہ اِس سے پہلے آئی ہوئی کسی کتاب کو، کاش! تم ان کا حال اس وقت(روزِ محشر) دیکھو جب یہ ظالم مشرک اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔ اس وقت یہ ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہوں گے، جو پیچھے چلنے والےلوگ (عوام کالانعام)دنیا میں دبا کر رکھے گئے تھے، وہ بڑے بننے والے اپنے لیڈروں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ ‘‘ (السبا:۳۱)
پانچویں برس میں، جب مومنین پرایمان لانے کے جرم میں زندگی تنگ کردی گئی تھی، جسمانی اذیتوں اور معاشرتی پابندیاں اُن کا مقدّر بن رہی تھیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کی جانب سے انکار و ناقدری پر بہت افسردہ تھے۔ سورئہ قٓ میں فرمایا گیا
’’ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ وہ کہتے ہیں اور آپ اُن پر جبر کرنے والے نہیں ہیں، پس قرآن کے ذریعے اس شخص کو نصیحت فرمائیے جو میرے وعدۂ عذاب سے ڈرتا ہے۔ ‘‘ (قٓ:۴۵)
پانچویں برس کے وسط میں اپنے دین و ایمان کو بچانے اور دیارِ غیر میں اسلام کی دعوت پہنچانے کی غرض سے اللہ تعالیٰ کی مشیت مسلمانوں کے ایک گروہ کو ہجرت کرا کے قریب کی مسیحی مملکت حبشہ کی جانب لے گئی۔ قریش کی جانب سے اِن مسلمانوں کو واپس مکہ لانے کی سفارتیں اور تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور وہاں کے سربراہِ مملکت نجاشی نے مسلمان مہاجرین کو عزّت و اکرام دیا۔ اس کے نتیجے میں اِس خوف سے کہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مسلمان بھی کہیں وہاں نہ چلے جائیں اور پھر اُن کی مملکت مسلمان ہو کر اِن پر حملہ آور نہ ہو جائے، وہ مسلمانوں کو مزید تنگ کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر تُل گئے۔ اسی برس کے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیّدناحمزہؓ ﷛ بھی ایمان لے آئے۔ 
اِن کے ایمان لانے کے چند ہی روز بعد چھٹے برس کا آغاز ہو گیا اور عمرؓ بن الخطاب ایمان لے آئے۔ یہ چھٹا برس ہے اور اہلِ ایمان کے لئے دورِ تشدد اختتام کی جانب ہو رہا ہے۔ ان حالات میں اہلِ ایمان کو بتایا جاتا ہے:
’’طس ٓ۔ یہ قرآن اور روشن کتاب کی آیتیں ہیں، (جو) ہدایت ہے اور (ایسے) ایمان والوں کے لئے خوشخبری ہے، جو نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہی ہیں جو آخرت پر (بھی) یقین رکھتے ہیں۔ ‘‘ (النمل: ۱؍تا۳)
قرآن اعلان کر رہا ہے کہ اپنے معانی بیان کرنے میں وہ ایک کھلی کتاب، كِتَابٍ مُّبِيْنٍ ہے، ایک عام قاری جو اسے اخلاص کے ساتھ مطالعہ کرکےسمجھنا چاہے اُسے یہ اپنا مرکزی خیال بہ آسانی مہیا کرتی ہے۔ 
آنے والے دنوں میں، آٹھویں برس، قرآن نے اپنے بارے میں یہی بات تکرار کے ساتھ بتائی: ’’اور بیشک ہم نے قرآن کو نصیحت کے لئے آسان کر دیا ہے تو کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے۔ ‘‘ (القمر: ۴۰ )
اس مقام پر یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ رسالت کا ساتواں، آٹھواں اور نواں برس وہ زمانہ تھا، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے بنوہاشم کو آپؐ کی پشت پناہی کے ’جرم‘ میں سارے قریش کے مقاطعے کا سامنا تھا، نہ کوئی بات کرتا تھا، نہ اِن سے خرید و فروخت، نہ شادی بیاہ۔ اِن حالات میں ابو طالب، سردارِ بنو ہاشم اپنے پورے قبیلے کو لے کر آبادی سے باہر کی جانب قبیلے کے ایک قطعۂ زمین، شعب ِ بنو ہاشم پر جا کر قیام پذیر ہو گئے تھے۔ اسی مقاطعہ کے دوران سورئہ فرقان نازل ہوئی، جس میں روزِ قیامت اللہ کے رسولؐ کی جانب سے اپنی قوم کے قرآنِ مجید کے ساتھ بے اعتنائی برتنے اور اسے نشانہ تضحیک بنانے پر احتجاج کئے جانے کا تذکرہ یوں وارد ہوا:
’’اور رسولؐ عرض کریں گے: اے میرے ربّ، میری قوم کے لوگوں نے اس قرآن کو نشانۂ تضحیک بنالیا تھا۔ ‘‘ (الفرقان:۳۰)
شعب بنوہاشم میں مقاطعے کے تین برس گزارنے کےبعد، جب بنو ہاشم نبوت کے دسویں برس کے اوائل میں واپس شہر میں آئے تو ابو طالب مرض الموت میں تھے، دیگر سردارانِ قریش نے چاہا کہ ابوطالب اپنے انتقال سے قبل محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ بقائے باہمی کا کوئی معاہدہ کروا دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ یہ لوگ توحید کی گواہی دیں تو عرب و عجم کی بادشاہی اِن کی ہو گی۔ یہ سُن کر تمام سردار مایوس ہو کر یہ بڑبڑاتے ہوئے پلٹ گئے کہ یہ تو وہی اپنی پرانی رٹ لگائے ہوئے ہیں ۔ سورئہ صٓ اِس اجلاس کی رُوداد بیان کرتی ہے اور اس سورہ کا آغاز قرآن مجید کے سراسر نصیحت ہونے کے اعلان سے ہوتا ہے:
’’ صٓ، ذکر والے قرآن کی قسم۔ ‘‘(صٓ:۱)
(تیسرا اور آخری حصہ کل پڑھئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK