Inquilab Logo

کہانی دو فلموں کی : پٹھان اور دستاویزی فلم

Updated: February 09, 2023, 10:42 AM IST | Khalid Shaikh | Mumbai

مودی کے وہم وگمان میں نہ رہا ہوگا کہ جن مسلم فسادات کو وہ برسوں پہلے پیچھے چھوڑ آئے تھے، ۲۱؍ سال بعد بھی ان کے تعاقب میں ہوں گے۔ دستاویزی فلم نے ایک طرف فسادات کو منصوبہ بند بتایا تو دوسری طرف اس کیلئے راست طورپر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

On the one hand, the documentary has described the riots as planned, on the other hand, it has held Modi directly responsible for it
دستاویزی فلم نے ایک طرف فسادات کو منصوبہ بند بتایا تو دوسری طرف اس کیلئے راست طورپر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے

 گزشتہ مہینے دو ایسی فلمیں چرچا میں رہیں جن کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نہیں تھا لیکن جنہوںنے سیاسی وسماجی سطح پرہلچل مچادی تھی۔ ان میں سے ایک گجرات فسادات پر مبنی بی بی سی کی ڈاکیو منٹری فلم تھی تو دوسری ’سپراسٹارشاہ رخ خان کی فلم پٹھان‘ تھی جس کے ذریعے وہ پردۂ سیمیں پر چار سال بعد واپسی کررہے تھے۔ ان کے چاہنے والے اس فلم کا بڑی بے چینی سے انتظار کررہے تھے کیونکہ فلم کے ٹریلر نے اس بے چینی میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ شاہ رخ کی شبیہ ایک رومانٹک ہیرو کی رہی ہے جبکہ پٹھان میں وہ ایک ایکشن ہیرو کے اوتار میں نظر آتے ہیں۔ بہرحال فلم کے ٹریلر نے جہاں ان کے چاہنے والوں میں تجس پیدا کیا، وہیں ہر ایشو کو ہندو۔ مسلم رنگ دینے والوں کو ایک ایسا موقع فراہم کیا جس کی انہیں تلاش تھی ۔ فلم کے ایک گانے ’بے شرم رنگ‘ میں دیپکا پڈو کون مختلف رنگوں کے مختصر لباس (بِکنی )میں تھرکتی نظرآتی ہیں جن میں ایک لباس کا رنگ بھگوا تھا اس پر سب سے پہلے اس شخص کی نظر پڑی جو مسلم دشمنی اور اشتعال انگیزی کے لئے بدنام ہے۔ چنگاری لگانے والا یہ شخص مدھیہ پردیش کا وزیر داخلہ نروتم مشرا تھا۔ اس نے بھگوا بِکنی پر اعتراض کرتے ہوئے اسے ہندو مذہب کی توہین قراردیا اور دھمکی دی کہ اگر اس منظر کو فلم سے نہیں ہٹایا گیا تو اسے مدھیہ پردیش میں ریلیز ہونے نہیں دیاجائے گا۔پھر کیا تھا، ہندوتوا وادیوں نے اسے اُچک لیا اور فلم کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔ ان کے حوصلے اس لئےبلند تھے کہ انہوںنے عامر خان کی فلم لال سنگھ چڈا کا بائیکاٹ کرکے اسے دھول چٹادی تھی اوراس زعم میں تھے کہ ’پٹھان‘ کا بھی یہی حشر ہوگا۔ ایسا نہیں ہوا کیونکہ فلم اچھی ہوتو بائیکاٹ کے باوجود لوگ اسے دیکھنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں۔
 ’پٹھان‘ کے بائیکاٹ کا مقصد شاہ رخ اور دیپکا سے پرانا حساب چکانا تھا۔ موخرالذکر سے وہ اس لئے خفاتھے کہ انہوںنے سی اے اے کے خلاف جے این یو کے طلباء سے یکجہتی کااظہار کیا تھا جبکہ شاہ رخ سے ان کی رنجش کی کئی وجوہات تھیں۔ شاہ رخ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ عالمی سطح پربھی بلا تفریقِ مذہب وملت ہرطبقے میں مقبول ہیں یہ اور بات ہے کہ جونہی انہوںنے عامر خان کی طرح ملک میں بڑھتی عدم رواداری کے خلاف زبان کھولی تو ہندوتوا وادیوں کی زَد پر آگئے۔ دوسری وجہ منشیات کے کیس میں گرفتار ان کے بیٹے آرین کی باعزت رہائی تھی جبکہ تیسری وجہ فلم انڈسٹری پر خان صاحبان ( جس میں سلمان خان بھی شامل ہیں) کے دبدبے کو ختم کرنا تھا۔ عامرخان کی فلم کے بائیکاٹ کے معاملے میں وہ کامیاب رہے لیکن شاہ رخ کی، ہردلعزیزی اور مقبولیت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے۔ جس طرح رنگوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی طرح آرٹ اور فن میں مذہب تلاش کرنا تنگ نظری اورشدت پسندی کہلاتی ہے اور چونکہ برادران وطن کی اکثریت سیکولر مزاج رکھتی ہےاس لئے فلم کے بائیکاٹ کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی غالب اکثریت ان ہی پر مشتمل تھی ۔
  پٹھان کے بائیکاٹ کے اعلان پر شاہ رُخ نے جس رجائیت پسندی اور مستقل مزاجی کا ثبوت دیا وہ اپنی مثال آپ ہے انہوں نے اپنے چاہنے والوں کو بھی مثبت رویہ اختیار کرنے کی نصیحت کی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انہیں پورا یقین تھا کہ فلم عوام کی پسند پر پوری اترے گی۔بہر حال فلم کی نمائش پر لوگوں میں جو دیوانگی دیکھی گئی وہ کسی دوسرے ہیرو کے حصے میں نہیں آئی۔ اس سے دوباتیں واضح ہوئیں۔ ایک، ہندوتوا وادیوں کی شرانگیزی کے باوجود ملک کی غالب اکثریت سیکولر ہے اور شاہ رخ سے ہر مذہب کے لوگ جنون کی حد تک پسندکرتے ہیں۔ باکس آفس کے معاملے میں بھی ’پٹھان‘ نے قومی وبین الاقوامی سطح پر کئی ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ یہ وہ پہلی فلم ہے جودنیا کے ۱۰۰؍ سے زیادہ ممالک میں دیکھی گئی ۔ ہم نے فلم نہیں دیکھی ہے لیکن دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ وہ منورنجن سے بھرپورایسی مسالہ فلم ہے جسے لوگ بار بار دیکھنا پسند کریں گے۔ فلم کی بے مثال کامیابی نے ڈھونگی نیشنلزم اور نفرت کا پرچار کرنے والی گینگ کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا کہ بائیکاٹ کا نعرہ نہ دیا ہوتا تو فلم کو وہ پبلسٹی اورکامیابی نہ ملتی جو اسے حاصل ہوئی۔یہاں فلم کے اضافی فائددوں کا ذکر بھی ضروری ہے۔لاک ڈاؤن کے بعد فلم انڈسٹری ایک نازک دور سے گزر رہی تھی۔ بڑے بڑے ناموں کو چھوڑ کر اس سے تعلق رکھنے والے چھوٹے فنکار اور ورکرس بیروزگاری کا شکار ہوگئے تھے باکس آفس سوکھا پڑا تھا اور سنگل اسکرین تھیٹر بند ہونے کی کگار پر آگئے تھے۔ پٹھان نے فلم انڈسٹری کے کمزور پھیپھڑوں کو آکسیجن پہنچانے کا کام کیا ہے۔ سنگل اسکرین تھیٹر پھر سے کھل گئے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں فلم میں پٹھان کی کامیابی نےفلم انڈسٹری کے تنِ مردہ میں جان ڈال دی ہے۔
  اب آیئے بی بی سی کی گجرات فسادات پر مبنی دستاویزی فلم کی طرف ۔ یوٹیوب پر جاری ہوتے ہی مودی اور ان کی حکومت بوکھلا گئی۔ مودی نے وزیراعظم بننے اور فسادات کا داغ دھونے کیلئے کیا کیا جتن نہیں کئے۔ گجرات کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے سدبھاؤنا یاترا نکالی، ریلیاں کیں لیکن ایک مسلمان کے ہاتھوں ٹوپی پہننے سے انکار کردیا،ہندو ہردے سمراٹ کی شبیہ بدلنے کیلئے  وکاس پُتر کا چولا پہنا ، ’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘ کا نعرہ دیا لیکن وزیراعظم بننے کے بعداس پر عمل نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ مودی اوران کی  پارٹی کے لوگ آج بھی ہرایشو میں ہندو۔مسلم اینگل ڈھونڈ لیتے ہیں لیکن جس طرح سچ ظاہر ہوکر رہتا ہے، اسی طرح مظلومین کی آہیں ظالموں اور قاتلوں کا پیچھا نہیں چھوڑتی ہیں۔ مودی کے وہم وگمان میں نہ رہا ہوگا کہ جن مسلم فسادات کو وہ برسوں پہلے پیچھے چھوڑ آئے تھے، ۲۱؍ سال بعد بھی ان کے تعاقب میں ہوں گے۔ دستاویزی فلم نے ایک طرف فسادات کو منصوبہ بند بتایا  تو دوسری طرف اس کے لئے راست طورپر مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ حالات کو قابو میں کرنے کیلئے  حکومت نے پہلے فلم کو یوٹیوب سے ہٹایا اور اس کے بعد ٹوئٹر پر بلاک کردیا لیکن اس سے جو نقصان ہونا تھا ہوگیا۔ فسادات کا سچ ایک بار پھر سامنے آگیا اور ہمیشہ مودی کے تعاقب میں رہے گا۔n

film Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK