Inquilab Logo

جس کا ایمان جتنا قوی ہوگا، اس میںاسلامی اخوت کا جذبہ اُتنا ہی موجزن ہوگا

Updated: October 01, 2021, 1:16 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani

رسول اللہ ﷺ نے اسلامی رشتہ کو ایک مثال سے سمجھایا، آپؐ نے فرمایا: یہ پوری امت ایک عمارت کے درجہ میں ہے، جیسے عمارت کا ایک حصہ ددوسرے کو مضبوط کرتا ہے، اسی طرح اس قصر اسلامی کی ہر اینٹ دوسرے کے لئے تقویت کا سامان ہے۔ (مسلم، حدیث نمبر:۲۵۸۵)

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو اخوت اور بھائی چارہ کے رشتہ سے باندھ دیا ہے، مسلمان دنیا کے کسی بھی گوشہ میں ہو، مغرب میں یا مشرق میں شمال میں یا جنوب میں، گورا ہو یا کالا، مالدار ہو یا غریب، پڑھا لکھا ہو یا اَن پڑھ، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو یا معمولی مزدور، اور بڑا ہو یا چھوٹا، وہ ایک دوسرے کا بھائی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ تمام اہلِ ایمان بھائی بھائی ہیں۔ (الحجرات:۱۰) یہ ایمانی رشتہ رنگ و نسل، علاقہ و وطن ، زبان اور خون کے رشتوں سے بڑھ کر ہے، یہ رشتہ ہمیں ایک آفاقی اور عالمگیر خاندان کا رکن بنادیتا ہے، یہ ہمیں رشتہ و تعلق کے محدود دائرہ سے نکال کر عالمگیر وسعت میں لے آتا ہے۔
 اسی رشتہ نے حبش کے بلال اور روم کے صہیبؓ، فارس کے سلمانؓ، اسرائیلی نسل کے عبداللہ بن سلامؓ، بنو ہاشم کے علیؓ و عباسؓ اور دوسرے، عرب کے ابوبکرؓ و عمرؓ وغیرہ کو ایک ہی صف میں کھڑا کردیا تھا۔ یہ ایک دوسرے پر جان  چھڑکنے والے، اور باہم خود مٹ کر دوسروں کو بچانے والے لوگ تھے۔ یہ اسلامی اخوت ان کے ذہن و فکر اور دل و دماغ پر اس قدر حاوی تھی کہ یہ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے اور خود پھٹے پرانے کپڑے پہن کر دوسروں کو اچھے کپڑے پہنانے میں خوشی محسوس کرتے تھے۔ (الحشر:۹)
 مسلمانوں کے لئے ایمان کے بعد اس اخوت ایمانی کو قائم رکھنا سب سے اہم ضرورت ہے، اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ اس رشتہ کو تازہ فرمانے کی سعی کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ تو ایک مسلمان دوسرے پر ظلم کرسکتا ہے ، نہ اسے چھوڑ سکتا ہے،جو شخص اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آتا ہے ، اللہ اس کی ضرورت میں کام آتے ہیں، جو کسی مسلمان سے مصیبت کو دور کرتا ہے، اللہ قیامت کے دن اس کی مصیبت کو دور فرمائیں گے اور جو کسی مسلمان کی عیب پوشی کرتا ہے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو چھپائیں گے۔(مسلم، حدیث نمبر:۲۵۸۰) اس ارشاد میں آپ ﷺ نے اسلامی اخوت کے پانچ تقاضوں کو بیان فرمایا ہے، اول یہ کہ وہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرے، دوسرے یہ کہ ایک دوسرے کے ناصر و مددگار ہوں  اور اپنے بھائی کو حالات کے رحم و کرم پر نہ چھوڑ دے، تیسرے اپنے بھائی کی ضرورت میں کام آئے، چوتھے اس پر کوئی مصیبت آئی ہو تو اسے دور کرنے معاون و مددگار بنے، پانچویں اگر کسی مسلمان سے غلطی یا گناہ ہوجائے تو اس پر پردہ رکھنے کی سعی کرے اور اسے رسوائی سے بچائے۔ 
 آپ ﷺ نے اس امت کے باہمی تعلق کو بڑی مؤثراور معنی خیز مثالوں سے سمجھایا ہے، آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ باہمی محبت اور تعلق میں اہلِ ایمان کی مثال ایک جسم کی سی ہے،کہ اگر ایک عضو بیمار ہوجائے  تو پورا جسم بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ (بخاری،حدیث نمبر:۶۰۱۱، مسلم، حدیث نمبر: ۲۵۸۶)۔
  اس تمثیل کی معنویت پر غور کیجئے،جسم کے تمام اعضا ء یکساں اہمیت اور حیثیت کے حامل نہیں ہوتے، دماغ پورے جسم کا بادشاہ ہے، اس کے چشم و ابرو کے اشارہ پر جسم کا ہر ہر انگ کام کرتا ہے،اور ہر صلاحیت متحرک ہوتی ہے، قلب پورے بدن کے لئے پاور ہاؤس ہے، اگر یہ کسی حصے کو خون کی سپلائی ترک کر دے، تو لمحوں میں اس حصہ کی موت واقع ہوجائے گی، پھر دوسرے اعضاء میں بھی کچھ زیادہ اہم ہیں، اور کچھ کم ، لیکن ایسا  نہیں ہوتا کہ اگر انگلی کو تکلیف ہو تو دل و دماغ یہ سوچے کہ ایک حقیر عضو کے لئے ہم کیوں مبتلائے رنج و محن ہوں، اور پائوںیہ نہیں سوچتا کہ تکلیف انگلی کی ہے، ہم کیوں دواخانہ کا چکر لگائیں؟ یہاں تک کہ اگر ناخن بھی ضرورت سے زیادہ کٹ جائے تو پورا جسم اس کی کسک کومحسوس کرتا ہے۔  حد یہ ہے کہ بال جو ہیں ہی کاٹنے کے لئے، جن کے کٹنے سے جسم کو کوئی گزند نہیں پہنچتا، وہ بھی انسان کو محبوب ہوتے ہیں، تو جیسے جسم کا ہر عضو، دوسرے کے غم میں شریک ہے، نہ اس میں رنگ کا فرق مانع ہے، نہ کسی عضو کا کم اہم ہونا رکاوٹ ہے،اس طرح پورا ’’اسلامی خاندان‘‘ ایک دوسرے کے لئے لائق محبت ہے، کوئی مسلمان غریب ہو، ان پڑھ ہو، کسی اور مسلک کا حامل ہو، کسی دوسری جماعت اور تنظیم سے تعلق رکھتا ہو، کسی اور علاقہ یا کسی اور ملک کا رہنے والا ہو، محض اس فرق کی وجہ سے اخوتِ اسلامی کی آگ بجھ جائے، یہ یقیناً ایمان کی کمزوری کی بات ہے، جس شخص کا ایمان جس قدر قوی ہوگا، اسلامی اخوت کا جذبہ اسی قدر اس میں موجزن ہوگا، اور حمیت ایمانی جتنی کم ہوگی، مختلف قسم کے تعصّبات اور تنگ نظریاں اسی قدر اس کے سینہ کو اپنے لئے پناہ گاہ بنائیں گی۔
 رسول اللہ ﷺ نے اسلامی رشتہ کو ایک مثال سے سمجھایا، آپؐ نے فرمایا: یہ پوری امت ایک عمارت کے درجہ میں ہے، جیسے عمارت کا ایک حصہ ددوسرے کو مضبوط کرتا ہے، اسی طرح اس قصر اسلامی کی ہر اینٹ دوسرے کے لئے تقویت کا سامان ہے۔ (مسلم، حدیث نمبر:۲۵۸۵) یہ مثال بھی بڑی ہی معنی خیز اور چشم کشاہے، عمارت کے تمام اجزاء  قوت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک درجہ کے نہیں ہوتے، بنیاد کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، پھر ستون ہیں، اس کے بعد چھت ہے، دیواریں اور فرش بھی عمارت کا حصہ ہیں، عمارت کا ایک حصہ وہ ہے جو لوگوں کے سر پہ سایہ فگن ہے، اورایک حصہ وہ ہے  جو اس کے قدموں کے نیچے روندا جاتا ہے، بنیاد کے پتھر نظر نہیں آتے، اور زیبائش کے لئے کھڑے کئے گئےگنبد اور مینار دور سے دعوتِ نظارہ دیتے ہیں، بنیاد اپنے آپ کو نیچے دباکر دوسروں کو سر بلند کرتی ہے، یہی حال اس امت کے افراد کا ہے، کوئی زیادہ اہم ہے اور کوئی کم اہم،کسی نے ایک کام کو سنبھال رکھا ہے، کسی نے دوسرے کام کو، کسی نے خود کو گمنامی کے غار میںدفن کر کے دوسروں کو سر بلند کر رکھا ہے، لیکن سب ایک دوسرے کے لئے معاون و مددگار بھی ہیں، اور ضروری بھی، اگر دیوار کی ایک اینٹ نکال دی جائے، تو پوری دیوار کمزور ہوجاتی ہے، اسی طرح امت کے کسی فرد یا گروہ کو حقیر نہ سمجھنا چاہئے، کہ یہ سب ایک دوسرے کے لئے تقویت کا سامان ہیں  اور  ایک دوسرے کی مدد کرنے میں ہی پوری امت کا بقاء  اور اس کا تحفظ ہے۔
 اسلام نے اس رشتہ اخوت کو اتنا مضبوط اور مستحکم کیا کہ نازک سے نازک وقت میں بھی مسلمان نے اسے یاد رکھا، اور انہوں نے دوسروں کو کسی مسلمان گروہ پر ان سے اختلاف کے باوجود دست درازی کی اجازت نہیں دی۔ عباسیوں کے عہدِ خلافت میں اندلس پر بنو امیہ کی حکومت قائم ہوئی، اس وقت بھی عیسائیوں نے بنو امیہ سے تعاون کی پیشکش کی ، لیکن اموی بادشاہ نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔
 صلیبی جنگوں میں شکست کے بعد سے ہی یہود و نصاریٰ نے محسوس کیا کہ جب تک اسلامی اخوت کے اس جذبہ بیکراں پر تیشہ نہ چلایا جائے، مسلمانوں کو زیر کرنا ممکن نہیں ہوگا، چنانچہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اس مقصد کے تحت ترکی ٔ مرحوم کے ٹکڑے بخرے کئے گئے، اور خلافتِ عثمانیہ کے سقوط کا عظیم سانحہ پیش آیا، اس حقیر کے خیال میں سیاسی اعتبار سے رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد مسلمانوں کو سب سے بڑا نقصان دو واقعات سے ہوا، ایک عراق اور شام میں دو الگ الگ مسلم مملکت کا وجود، کیونکہ اس وقت تک عالمِ اسلام کی تقسیم کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، اس تقسیم نے بعد کو چل کر الگ الگ مسلم مملکتوں کے تصور کو تقویت پہنچائی اور دنیا کے مختلف حصوں میں خلافت ِ اسلامی سے آزاد مسلمان مملکتیں قائم ہونے لگیں۔
 دوسرا حادثہ خلافتِ عثمانیہ کا سقوط ہے، خلافتِ عثمانیہ جیسی کچھ بھی ہو، لیکن بہر حال وہ مسلمانوں کی وحدت، اجتماعیت اور مرکزیت کا ایک نشان تھی، اور دینا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر کوئی افتاد آئے، مسلمانوں کی نگاہ مر کزِ خلافت کی طرف اٹھتی تھی، اور یہیں سے اس کی ترجمانی ہوتی تھی، یہ ایک ایسی بنیاد تھی، کہ جس کو وسیلہ بناکر پوری دنیا کے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع کیا جاسکتا تھا، اس حقیقت کو اُس دور کے نا سمجھ عرب اور ترک قائدین نے نہیں سمجھا، اور مغرب کے اشارہ پر خلافت ختم کردی گئی، پھر اس اسلامی اخوت کے جذبہ کو سرد کرنے اور ان کے شیرازہ کو منتشر کرنے کے لئے مغرب نے وطن پرستی کی کاشت لگائی، اور اسے خوب آبیار کیا، کیوں کہ یہی وطنی قومیت کا جذبہ اسلامی اخوت کا بدل بن سکتا تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ شام ، مصر، حجاز، یمن، ترکی، عراق اور پورا عالمِ سلامی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر رہ گیا، اور آج وہ مغرب کے لئے بازیچۂ اطفال ہے، اسرائیل قتل عام کرے، اور مسلمانوں کی زمین پر غاصبانہ قابض ہو، بوسنیا میں نسل کشی کی جائے، انڈونیشیا اور سوڈان میں مسلمان حکومتوں کے خلاف مرتد عیسائیوں کو ورغلایا جائے…لیکن اللہ رے سناٹا! کیا مجال کہ کوئی زبان بھی اس کے خلاف جنبش کرے!!
 یہ محض اخوت اسلامی سے محرومی اور حمیت ایمانی سے مہجوری کا نتیجہ ہے، اس سے زیادہ بد قسمتی کی کوئی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ لوگ مسلمانوں کے مسائل کو ملکوں اور علاقوں کی اصطلاحات میں سوچنے لگیں،کہ یہ جغرافیائی تقسیم ہم انسانوں کی تقسیم ہے، نہ کہ خالقِ انسان کی، یہ جغرافیائی لکیریں کیا ایمانی رشتوں کو    بدل دیں گی؟ افسوس کہ مسلمانوں میں بین الاقوامی سطح سے لے کر ملک،  ریاست ، ضلع، اور شہر کی سطح تک علاقہ پرستی کا مزاج پیدا ہوتا جارہا ہے، جو قومیں دریا کے کناروں کی طرح ایک دوسرےسے نہیں مل سکتی تھیں، وہ تو آج ایک دوسرے سے ہم آغوش ہیں اور جو امت جسد ِ واحد بنائی گئی تھی، اس کا عضو عضو ایک دوسرے سے اس طرح روٹھا ہوا ہے کہ  ایک کی مصیبت دوسرے کو اشکبار نہیں کرتی۔
ؕ فیا اسفاہ و یا عجباہ!  n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK