Inquilab Logo

بلقیس بانو معاملے میں عدالت عظمیٰ کا گجرات حکومت کو زوردار طمانچہ

Updated: January 14, 2024, 1:08 PM IST | Ejaz Abdul Gani | Mumbai

۲۰۲۲ ء میں یوم آزادی کے موقع پر گجرات حکومت نے انسانیت سوز درندگی کےحامل مجرمین کی سزا کو معاف کرکے ایک غلط نظیر قائم کی تھی۔ ملک کے انصاف پسند حلقے نے قتل اور آبرو ریزی جیسے گھناونے فعل کے مجرمین کی رہائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کا قتل قرار دیا تھا۔

Demonstrations were held across the country by justice advocates to bring justice to Bilquis Bano. Photo: INN
بلقیس بانو کوانصاف دلانے کیلئے انصاف پسندوں کی جانب سے ملک بھر میں مظاہرے کئے گئے تھے۔ تصویر : آئی این این

۲۰۲۲ ء میں یوم آزادی کے موقع پر گجرات حکومت نے انسانیت سوز درندگی کےحامل مجرمین کی سزا کو معاف کرکے ایک غلط نظیر قائم کی تھی۔ ملک کے انصاف پسند حلقے نے قتل اور آبرو ریزی جیسے گھناونے فعل کے مجرمین کی رہائی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے انصاف کا قتل قرار دیا تھا۔ ملک کی کئی نامور خواتین نے بلقیس کے حق میں آواز اٹھاتے ہوئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا۔رواں ہفتے عدالت عظمیٰ نے بلقیس بانو کیس کے مجرمین کی سزا معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔آیئے دیکھتے ہیں مراٹھی اخبارات نے اس معاملے پر کیا کچھ لکھا ہے۔
لوک مت(۹؍جنوری)
 اخبار نے اداریہ لکھا ہے کہ’’گجرات میں نسل کشی کے دوران ظلم، جارحیت اور تشدد کی علامت بلقیس بانو کو بالآخر سپریم کورٹ سے انصاف مل گیا۔ بلقیس بانو کے ساتھ حیوانیت کا مظاہرہ کرنے والے ۱۱؍ درندوں کی عمر قید کی سزا معاف کرنے کے گجرات حکومت کے فیصلے کو سپریم کورٹ نے منسوخ کردیا ہے۔عدلیہ پر اعتماد بحال کرنے والے اس نتیجے کا ملک بھر میں خیر مقدم کیا جارہا ہے۔اسی کے ساتھ گجرات حکومت کو ہزیمت اٹھانی پڑ رہی ہے۔اسی ریاست میں فساد متاثرین اور ظلم کا شکار ہونے والوں کو انصاف نہیں ملنے کی وجہ سے یہ معاملہ مہاراشٹر منتقل کیا گیا تھا۔بلقیس بانو کی ساڑھے تین سالہ بچی سمیت ۷؍ افراد کو موت کے گھاٹ اتارنےاور اجتماعی آبروریزی کرنے کے الزام میں ۱۱ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔۱۴؍ سال کے دوران متعدد مجرم جیل میں رہنے کے بجائے پرول پر باہر رہے اور اچانک اگست ۲۰۲۲ء میں آزادی کے موقع پر سبھی مجرمین کو گجرات حکومت نے رہائی کا پروانہ جاری کردیا۔اس غیرمتوقع فیصلے کے خلاف پورے ملک میں غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔لیکن گجرات حکومت آبروریزی کے مجرمین کے ساتھ کھڑی رہی۔اتنا ہی نہیں بی جے پی کے پلیٹ فارم سے مجرموں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور ان کا استقبال بھی کیا گیا۔ گجرات حکومت نے اپنے فیصلے کو جائز ٹھہرانے کیلئے مئی ۲۰۲۲ء میں دیئے گئے سپریم کورٹ کے حکم نامے کو بنیاد بنایا۔اس فیصلے کے ساتھ چھیڑ خانی اور غلط طریقے سے وضاحت کرنے کے عمل پر سپریم کورٹ نے گجرات حکومت کی سخت الفاظ میں سرزنش کی اور اسے اقتدار کا غلط استعمال کرنے سے تعبیر کیا۔چونکہ پورے معاملے کی شنوائی اور سزا مہاراشٹر میں سنائی گئی تھی، اسلئے مجرموں کو معافی دینا گجرات حکومت کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔قتل،آبروریزی اور فسادات جیسے سنگین جرائم میں عام معافی دینے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا ، اس کے باوجود گجرات حکومت نے ’سنسکاری برہمن مجرمین‘ کے جیل میں اچھے سلوک کا حوالہ دے کر انہیں رہا کردیا تو دوسری جانب مشکل سے حاصل انصاف کے ہاتھ سے نکل جانے سے بلقیس مایوس ہوگئیں تاہم سماجی کارکنوں نےان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے ڈیڑھ سال تک سپریم کورٹ میں لڑائی لڑی اور کامیابی حاصل کی۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: بی ایچ یو میں اجتماعی آبروریزی کا معاملہ،بیٹیوں کا تحفظ صرف نعرہ بن کررہ گیا ہے

لوک ستہ (۹؍جنوری)
 اخبار اپنے اداریئے میں لکھتا ہے کہ ’’بلقیس بانو کیس کے حالیہ فیصلے پر سپریم کورٹ کا شکریہ ادا کرنا اسلئے ضروری ہے کہ کم از کم اس نے اپنا فریضہ انجام دیا۔یہ فیصلہ صرف ان لوگوں کے خلاف نہیں ہے جنہوں نے ۲۱؍ سالہ اور ۵؍ ماہ کی حاملہ بلقیس کو جنسی زیادتی کا شکار بنایا اور اس کی تین سالہ بیٹی کو اس کی آنکھوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتار دیا بلکہ اُس ذہنیت کے خلاف ہے جو قاتلوں کے بری ہوجانے کی خوشی میں جشن مناتی ہے۔یہ فیصلہ ان لوگوں کے خلاف ہے جو عورت پر ہونے والے مظالم کو صرف اسلئے نظر انداز کرتے ہیں کیونکہ وہ `بلقیس بانو `ہے۔یہ فیصلہ ان کے خلاف ہے جو ظلم اور جارحیت کا ارتکاب کرنے کے بعد سوچتے ہیں کہ ان کا کچھ نہیں بگڑے گا۔یہ فیصلہ بلقیس اور منی پور میں خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر خاموش رہنے والوں کے خلاف ہے۔ یہ فیصلہ جانب دار حکومت کے خلاف ہے جس نے گھناونی حرکت کرنے والوں کو فریب دہی سے آزاد کرنے کی جرأت کی۔یہ فیصلہ ان کے خلاف ہے جو مذہبی معاملات میں اپنے ضمیر کو گروی رکھ دیتے ہیں ۔سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کا جنسی استحصال کرنے والوں کی رہائی کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے ملک کی لاکھوں امن پسند خواتین کے دلی جذبات کی ترجمانی کی ہے۔جسٹس ناگرتنا نے محض ۱۱؍ مجرموں کو دوبارہ جیل بھیجنے کا فیصلہ نہیں سنایا بلکہ گجرات سرکار کو دھوکہ باز اور مجرموں کا حامی بتاتے ہوئے سچ کو چھپانے کا الزام بھی عائد کیا۔گجرات سرکار نےاس معاملے میں مجرموں کی معافی کیلئے جو راستہ اپنایا وہ انتہائی جانبدارانہ تھا۔‘‘
آپلے مہانگر(۱۰ ؍جنوری)
 اخبار لکھتا ہے کہ’’ سپریم کورٹ نے بلقیس بانو کیس میں تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے گجرات حکومت کو زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے۔ پیر کو جیسے ہی عدالت کا فیصلہ آیا پورے ملک میں اس کا استقبال کیا گیا۔ گجرات حکومت نے ۱۵؍ اگست کے موقع پر مجرموں کی سزا تخفیف کر کے ایک غلط نظیر قائم کی تھی۔اس فیصلے کے خلاف مختلف جگہوں پر مفاد عامہ کے تحت عرضیاں دائر کی گئیں ۔ جس وقت مجرم آزادانہ طور پر گھوم رہے تھے اس وقت بلقیس بانو اور ان کے متعدد حامی قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔بالآخر جسٹس ناگرتنا اور جسٹس اجل بھوئیاں نےگجرات حکومت کے فیصلے کو نہ صرف کالعدم قرار دیا بلکہ ریاستی حکومت کی سخت الفاظ میں سرزنش بھی کی۔سپریم کورٹ کے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے بلقیس نے کہا کہ آخر کار سچ کی جیت ہوئی اور انصاف پر اُن کا اعتماد بحال ہوا تاہم اس نے یہ بھی واضح کیا کہ ابھی قانونی جنگ ختم نہیں ہوئی کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ مجرمین قانون میں خامیاں تلاش کرکے دوبارہ فرار ہونے کی کوشش کریں گے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس فیصلے سے گجرات حکومت کی ناک کٹ گئی ہے۔جب ایک خاتون کے ساتھ ظلم و جارحیت کی انتہا کردی گئی ہو تو اس کا ساتھ دینے کے بجائے قاتلوں کے ساتھ کھڑے ہوکر گجرات سرکار نے کم ظرفی کا مظاہرہ کیا تھا۔اس فیصلے نے بالواسطہ طور پر یہ پیغام دیا ہے کہ عدالتی عمل میں من مانی اور چھیڑ خانی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK