کلام مجید کے اعجاز بیان کے سامنے اہل عرب نے آغاز بعثت ہی میں سپرڈال دی تھی، جب آپؐ نے قریش کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی تو انہیں اندازہ ہو گیا اور وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں
EPAPER
Updated: December 09, 2022, 11:31 AM IST | Mufti Taqi Usmani | MUMBAI
کلام مجید کے اعجاز بیان کے سامنے اہل عرب نے آغاز بعثت ہی میں سپرڈال دی تھی، جب آپؐ نے قریش کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی تو انہیں اندازہ ہو گیا اور وہ یہ تسلیم کیے بغیر نہیں رہ سکے کہ یہ کسی انسان کا کلام نہیں
قرآن کریم کی حقانیت کی ایک واضح دلیل اس کا اعجاز ہے ، یعنی ایک ایسا کلام ہے جس کی نظیر پیش کرنا انسانی قدرت سے باہر ہے۔ اسی وجہ سے اس کو سرورکونین صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ کہا جاتا ہے۔ یہاں ہم مختصراً قرآن کریم کی اُن وجوہِ اعجاز کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں جن پر غور کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ یقیناً اللہ تعالیٰ ہی کا کلام ہے اور کسی بشری ذہن کا اس میں کوئی دخل نہیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے بنیادی طور پر دو باتیں سامنے رکھنی ضروری ہیں۔ ایک تو یہ کہ فصاحت و بلاغت اور کلام کی سحرانگیزی ایک ایسی صفت ہے جس کا تعلق سمجھنے اور محسوس کرنے سے ہے ، اور پوری حقیقت و ماہیت کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ آپ تلاش و جستجو اور استقراء کے ذریعہ فصاحت و بلاغت کے اصول و قواعد مقرر فرما سکتے ہیں لیکن درحقیقت ان اصول و قواعد کی حیثیت فیصلہ کن نہیں ہوتی ۔ کسی کلام کے حسن و قبح کا آخری فیصلہ ذوق اور وجدان ہی کرتا ہے ۔ جس طرح ایک حسین چہرے کی کوئی جامع و مانع تعریف نہیں کی جاسکتی، جس طرح ایک خوش رنگ پھول کی رعنائیوں کو الفاظ میں محدود نہیں کیا جاسکتا، جس طرح مہکتی ہوئی مشک کی پوری کیفیت بیان کرنا ممکن نہیں اورجس طرح ایک خوش ذائقہ پھل کی لذت و حلاوت الفاظ میں نہیں سما سکتی اسی طرح کسی کلام کی فصاحت و بلاغت کو تمام و کمال بیان کردینا بھی ممکن نہیں، لیکن جب کوئی صاحب ِ ذوق انسان اسے سنے گا تو اس کے محاسن و اوصاف کا خود بخود پتہ چل جائے گا۔
دوسرے یہ کہ فصاحت و بلاغت کے معاملے میں ذوق بھی صرف اہلِ زبان کا معتبر ہے۔ کوئی شخص کسی غیرزبان میں خواہ کتنی مہارت حاصل کرلے، لیکن ذوق سلیم کے معاملے میں وہ اہلِ زبان کا کبھی ہمسر نہیں ہوسکتا۔
اب ذرا زمانۂ جاہلیت کے اہل عرب کا تصور کیجئے، خطابت اور شاعری اُن کے معاشرے کی روح رواں تھی، عرب شعر و ادب کا فطری ذوق اُن کے بچے بچے میں سمایا ہوا تھا، فصاحت و بلاغت اُن کی رگوں میں خونِ حیات بن کر دوڑتی تھی، ان کی مجلسوں کی رونق، اُن کے میلوں کی رنگینی، اُن کے فخر و ناز کا سرمایہ اور ان کی نشر و اشاعت کا ذریعہ سب کچھ شعر و ادب تھا، اور انہیں اس پر اتنا غرور تھا کہ وہ اپنے سوا تمام قوموں کو ’’عجم‘‘ یعنی گونگا کہا کرتے تھے۔
ایسے ماحول میں ایک اُمّی (جناب محمد رسول اللہ ﷺ) نے ایک کلام پیش کیا اور اعلان فرمایا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ، کیونکہ:
’’ اگر تمام انسان اور جنات مل کر اس قرآن جیسا (کلام) پیش کرنا چاہیں تو پیش نہیں کرسکیں گے ، خواہ وہ ایک دوسرے کی کتنی ہی مدد کیوں نہ کریں۔‘‘ (الاسراء:۸۸)
یہ اعلان کوئی معمولی بات نہ تھی، یہ دعویٰ اُس ذاتؐ کی طرف سے تھا جس نے کبھی وقت کے مشہور ادباء اور شعراء سے کوئی علم حاصل نہ کیا تھا، کبھی مشاعرے کی محفلوں میں کوئی ایک شعر بھی نہیں پڑھا تھا، اور کبھی کاہنوں کی صحبت بھی نہ اٹھائی تھی، خود شعر کہنا تو درکنار، آپؐ کو دوسرے شعراء کے اشعار تک یاد نہیں تھے، پھر یہی وہ ذات تھی جسے میدانِ فصاحت کے یہ سورما ایک نئے دین کا بانی کہا کرتے تھے، اگر یہ اعلان سچا ثابت ہوجائے تو ان کے آبائی دین کی ساری عمارت منہ کے بل گر پڑتی اور اُن کی صدیوں پرانی رسوم و روایات کا سارا پلندہ پیوند ِ زمین ہوجاتا تھا، اس لئے یہ اعلان درحقیقت اُن کی ادبی صلاحیتوں کو ایک زبردست چیلنج تھا، یہ اُن کے دین و مذہب پر ایک کاری وار تھا ، یہ اُن کی قومی حمیت کے نام مبازرت کا ایک پیغام تھا ، یہ اُن کی غیرت کو ایک للکار تھی جس کا جواب دیئے بغیر کسی غیور عرب کے لئے چین سے بیٹھنا ممکن نہیں تھا۔
لیکن ہوا کیا؟… اس اعلان کے بعد اُن آتش بیان خطیبوں اور شعلہ نوا شاعروں کی محفلوں میں سناٹا چھا گیا ۔ کوئی شخص اس چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آگے نہ بڑھا۔ کچھ عرصہ کے بعد قرآن کریم نے پھر اعلان فرمایا کہ:
’’اور اگر تم کو اس کتاب کے بارے میں ذرا بھی شک و شبہ ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے تو اس جیسی ایک (ہی)سورت بنالاؤ، اگر سچے ہو، اور اللہ کے سوا تمہارے جتنے حمایتی ہیں اُن سب کو بلالو، پھر بھی اگر تم ایسا نہ کرسکے، اور یقین ہے کہ ہرگز نہ کرسکوگے، تو پھر اس آگ سے ڈرو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے، وہ کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۳)
ا س پر بھی بدستور سکوت طاری رہا، اور کوئی شخص اس کلام کے مقابلے میں چند جملے بھی بنا کر نہ لاسکا۔ سوچنے کی بات ہے کہ جس قوم کی کیفیت بقول جُرجانی ؒ، یہ ہوکہ اگر اسے یہ معلوم ہوجائے کہ دنیا کے آخری سرے پر کوئی شخص اپنی فصاحیت و بلاغت پر غیرمعمولی گھمنڈ رکھتا ہے، تو وہ اس پر تنقید کرنے اور اپنے اشعار میں اس پر چوٹیں کسنے سے باز نہ رہ سکتی تھی، اس بات کا کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ قرآن کے ان مکر ّر سکر ّر اعلانات کے بعد بھی چپکی بیٹھی رہے اور اُسے دَم مارنے کی جرأت نہ ہو؟ اس بات کی کوئی تاویل اس کے سوا نہیں ہوسکتی کہ فصاحت و بلاغت کے سورما قرآن کریم کا مقابلہ کرنے سے عاجز آچکے تھے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کو زک پہنچانے کے لئے ظلم و ستم کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا، آپؐ کو ستایا، مجنوں کہا، جادوگر کہا، شاعر اور کاہن کہا، لیکن ان سے اتنا نہیں ہوسکا کہ قرآن کے مقابلے میں چند جملے پیش کردیتے۔
پھر صرف یہی نہیں کہ یہ شعلہ بیان خطیب اور آتش نوا شاعر قرآن کریم کا مقابلہ نہیں کرسکے، بلکہ ان میں سے بہت سے لوگوں نے اس کلام کی حیرت انگیز تاثیر کا کھل کر اعتراف کیا ۔ امام حاکمؒ اور بیہقیؒ نے قرآن کریم کے بارے میں ولید بن مغیرہ کے یہ الفاظ نقل کئے ہیں:
واللّٰہ ان لقولہ الذی یقول حَلاوۃً وان علیہ لطلاوۃ … وانہ لیعلوا وما یٰعلیٰ۔
’’خدا کی قسم ، جو یہ کلام بولتے ہیں اس میں بلا کی شیرینی اور رونق ہے۔ یہ کلام غالب ہی رہتا ہے، مغلوب نہیں ہوتا۔‘‘
(الخصائص الکبریٰ للسیوطی)
یہ ولید بن مغیرہ ابوجہل کا بھتیجا تھا۔ ابوجہل کو جب یہ پتہ چلا کہ میرا بھتیجا اس کلام سے متاثر ہو رہا ہے تو وہ اسے تنبیہ کرنے کے لئے اس کے پاس آیا۔ اس پر ولید نے جواب دیا کہ خدا کی قسم ! تم میں کوئی شخص شعر کے حسن و قبح کو مجھ سے زیادہ جاننے والا نہیں، خدا کی قسم ! محمدؐ جو کہتے ہیں، شعر کو اس کے ساتھ کوئی مناسبت اور مشابہت نہیں ہے۔ (اخرجہ الحاکمؒ والبیہقیؒ عن ابن عباسؓ)
اسی ولید بن مغیرہ کا واقعہ حضرت ابن عباسؓ نقل فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ کی بعثت کے بعد جب موسم حج آیا تو اس نے قریش کو جمع کرکے کہا کہ موسم حج میں عرب کے مختلف قبائل یہاں آئیں گے ۔ اس لئے محمدؐ کے بارے میں کوئی ایسی بات طے کرلو کہ پھر باہم کوئی اختلاف نہ ہو۔ قریش نے کہا کہ ہم لوگوں سے یہ کہیں گے کہ محمدؐ کاہن ہیں۔ ولید نے کہا: خدا کی قسم! ان کا کلام کاہنوں جیسا نہیں ہے۔ قریش نے کہا کہ پھر ہم انہیں مجنوں کہیں گے۔ ولید بولا کہ ان میں جنون کا شائبہ تک نہیں۔ قریش کہنے لگے کہ پھر ہم کہیں گے کہ وہ شاعر ہیں۔ ولید نے کہا کہ شعر کی تمام اصناف سے میں واقف ہوں۔ یہ کلام شعر ہرگز نہیں ہے۔ قریش نے کہا کہ پھر ہم انہیں جادوگر کہہ دیں؟ ولید نے پہلے اس کا بھی انکار کیا، مگر عاجز آکر اسی پر فیصلہ ہوا کہ جادوگر کہا جائے، کیونکہ یہ ایسا جادو ہے جو باپ بیٹے اور بھائی بھائی میں تفریق کرادیتا ہے۔ (اخرجہ البیہقیؒ و ابن اسحاقؒ)
اسی طرح عتبہ بن ربیعہ قریش کے سربرآوردہ لوگوں میں سے تھا۔ وہ آپﷺ کے پاس مصالحت کی گفتگو کرنے آیا۔ آپؐ نے سورہ حمٓ السجدہ کی ابتدائی آیات اس کے سامنے تلاوت فرمائیں۔ وہ ہمہ تن گوش سنتا رہا، یہاں تک کہ آپؐ نے آیت ِ سجدہ پر سجدہ کیا، تو وہ بدحواسی کے عالم میں اٹھ کر سیدھا گھر چلا گیا۔ لوگ اس کے پاس گفتگو کا نتیجہ معلوم کرنے آئے تو اس نے کہا ’’خدا کی قسم! محمدؐ نے مجھ کو ایسا کلام سنایا کہ میرے کانوں نے تمام عمر ایسا کلام نہیں سنا۔ میری سمجھ میں نہ آسکا کہ میں کیا جواب دوں؟‘‘(اخرجہ البیہقیؒ و ابن اسحاقؒ عن محمد بن کعبؒ)
اس قسم کے اور بھی بہت سے واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عرب کے بڑے بڑے فصیح و بلیغ ادباء و شعراء نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کا معارضہ نہیں کرسکے بلکہ قرآن کریم کی اثرانگیزی کا قولی یا عملی طور سے اعتراف کرنے پر مجبور ہوئے۔
بعض غیرمسلم مصنفین یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کسی نے قرآن کریم کے مقابلے پر کوئی کلام پیش کیا ہو لیکن ہم تک اس کا کلام نہ پہنچ سکا ہو۔ علامہ ابوسلیمان خطابیؒ (متوفی ۳۸۸ھ) نے جو بڑے پایہ کے محدث ہونے کے علاوہ لغت اور ادب کے بھی امام ہیں، اس خیال پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑی اچھی بات لکھی ہے۔ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ خیال بالکل غلط ہے، اس لئے کہ ابتداء سے عام اور خاص لوگوں کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ وہ اہم واقعات کو ضرور نقل کرکے آئندہ نسلوں کےلئے بیان کرجاتے ہیں، بالخصوص وہ واقعات جن کی طرف لوگوں کی نظریں لگی ہوئی ہوں۔ یہ معاملہ (قرآن کریم کا چیلنج) تو اس وقت چاردانگ عالم میں شہرت پا چکا تھا، اگر اس کا کوئی مقابلہ کیا گیا ہوتا تو اس کا ہم تک نہ پہنچنا ممکن نہ تھا۔ اگر یہ بات ممکن ہوسکتی ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہے کہ اس زمانے میں کوئی اور نبی یا بے شمار انبیاء مبعوث ہوئے ہوں، اُن پر کتابیں اتری ہوں اور ان میں شریعت ِ محمدیؐ کے علاوہ کوئی اور شریعت بیان کی گئی ہو، اور یہ واقعات ہم تک نہ پہنچے ہوں… اگر یہ بات ناقابل ِ تصور ہے تو قرآن کریم کے معارضہ کا بھی تصور نہیں کیا جاسکتا۔