Inquilab Logo

ثانیہ مرزا کے نام مودی کے خط میں کئی پیغام پوشیدہ ہیں

Updated: March 23, 2023, 10:23 AM IST | DK Singh | Mumbai

پارٹی لیڈر عام طور پر وزیر اعظم کے تعلق سے کسی بھی مثبت ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں مگر حیرت ہے کہ ثانیہ مرزا کے نام کھلے خط کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔

Prime Minister Narendra Modi and sania Mirza
وزیراعظم نریندر مودی اور ثانیہ مرزا

حکومت کے رابطہ ٔ عامہ کے افسروںکو ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کا شکر گزار ہونا چاہئے ۔ وزیر اعظم کے خط کو اگر انہوں نے سوچ سمجھ کر ٹویٹ کرنے کا فیصلہ نہ کیا ہوتا تو نریندر مودی کا اصل پیغام   ان کی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنان تک نہ پہنچتا۔ ثانیہ مرزا کے ٹینس سے ریٹائرمنٹ کے اعلان کے بعد وزیراعظم نے انہیں   خط لکھ کر ’ فخر ہندوستان‘ قرار دیا۔ ثانیہ مرزا نے اس خط کیلئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ 
  جب ہندوستان کے وزیراعظم کسی کو خط لکھتے ہیں تو وہ صرف اُس کیلئے نہیں ہوتا جس کے نام بھیجا گیا ہے بلکہ اس کےذریعے لاکھوں لوگوں تک یہ پیغام بھیجا جاتا ہے کہ اس شخص کے تعلق سے ان کے کیا خیالات ہیں۔ لہٰذا ثانیہ مرزا کے نام لکھا گیا نریندر مودی کا یہ خط محض ایک خط نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے پیغامات ہیں۔  جب انہوں نے  ہندوستان کیلئے پیش کی گئی خدمات کیلئے ثانیہ مرزا کا شکریہ ادا کیا  اور انہیں ملک کیلئے باعث ِ فخر کہا تو یہ  بی جے پی میں  موجود بعض  لوگوں کیلئے کسی سرزنش سے کم نہیں تھا جنہوں نے پاکستانی کرکٹر شعیب ملک سے شادی کرنے پر ثانیہ کو نشانہ بنایا تھا۔  ۲۰۱۴ء میں تلنگانہ اسمبلی اس وقت بی جے پی کے رکن اسمبلی  کے لکشمن  نے  ریاستی حکومت پریہ کہہ کر لعن طعن کی تھی کہ اس نے ایک ’ پاکستانی بہو ‘ کو ریاست کا برینڈ ایمباسیڈر (سفیر)بنایا تھا۔  اس بیا ن کی وجہ سے ایک سیاسی طوفان کھڑا  ہوگیا تھا۔ اس کے بعد پارٹی کو ان کے بیان سے دوری اختیار کرنی پڑی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ کے لکشمن کے اسی بیان نے ان  کےکریئر کو پر لگا دیئے اور انہیں ۲؍ سال کے اند ر ہی  تلنگانہ بی جے پی کا صدر بنا دیا گیا۔   اس  کے بعد بی جے پی  اعلیٰ کمان  نے انہیں او بی سی مورچے کا صدر بنا دیا اور پھر راجیہ سبھا  کیلئے نامزد کیا۔    انہیں پارٹی کے فیصلے کرنے والی سب اعلیٰ اکائی  ’ بی جے پی پارلیمانی بورڈ‘  میں بھی شامل کیا گیا۔  ثانیہ مرزا کو ’پاکستانی بہو ‘ کہنے کے بعد کسی سیاست داں کی۸؍ سال کے اندر یہ ناقابل یقین ترقی ہے۔  
  کےلکشمن کے اس  آگ اگلتے بیان سے متاثر ہو کر  بی جےپی ( تلنگانہ)کے ایک اور رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے  وزیراعلیٰ کے چندر شیکھر رائو  سے ۲۰۱۹ء میں پلوامہ دہشت گردانہ حملے کے بعد ’پاکستانی بہو‘ سے ریاست کے ایمباسیڈر کا درجہ چھین لینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر بی جے پی خاموش رہی تو   ایک سال بعد ٹی راجا نے ریزرو فاریسٹ میں ایک گائے کے قتل میں ثانیہ مرزا کا ہاتھ ہونے کی جانچ کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ بی جے پی اس پر بھی خاموش رہی اور آخر کار ( ٹی راجا کے حوصلے اتنے بڑھ گئے کہ)  انہوں نے اگست ۲۰۲۲ء  میں حضرت محمد ؐ کے تعلق سے اہانت آمیز کلمات ادا کر دیئے اور پارٹی کو انہیں معطل کرنا پڑا۔  ثانیہ مرزا کے نام نریندر مودی کے خط کو لکشمن اور ٹی راجا جیسے بی جے پی لیڈروں کی سرزنش بھی خیال کیا جا سکتا ہے۔
 پورا ملک اس وقت دنگ رہ گیا جب اولمپک چمپئن سمیت ہندوستان کے اعلیٰ سطحی پہلوانوں نے دہلی کے جنتر منتر پر بی جے پی رکن پارلیمان  اور کشتی فیڈریشن کے سربراہ برج بھوشن شرن سنگھ پر کھلاڑیوں کے جنسی استحصال کا الزام لگاتے ہوئے احتجاج کیا۔ اس وقت  وزیر اعظم مودی اور بی جے پی کی خاموشی ناگوار گزری۔ شاید وزیراعظم نے ثانیہ مرزا کو لکھے گئے خط میںیہ ظاہر کیا ہو کہ انہیں کھلاڑیوں کی فکر ہے۔  اپنے خط میں انہوں نے ہندوستان  میں کھیل کے  شعبے میں موجود صلاحیتوں کا تذکرہ کیا اور یہ بتایا کہ کیسے ثانیہ مرز ا نے ان خواتین کو متاثر کیا جو اس شعبے میں آنا چاہتی تھیں لیکن کسی نہ کسی وجہ سے ہچکچا رہی تھیں ۔  بی جے پی نے بھلے ہی ملزم رکن پارلیمان   کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی ہو لیکن ناراض پہلوان کھیل میں کریئر بنانے والی خواتین کے تعلق سے وزیر اعظم کے خط سے تسلی حاصل کرنا چاہیں گے۔  ای ڈی اور سی بی آئی آئے دن ملزمین کی درخواست ضمانت  پر یہ کہہ کر اعتراض ظاہر کرتی رہتی ہیں کہ وہ ثبوتوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر سکتے ہیں۔ اب ذرا اندازہ لگائیے کہ ایک وزیر جس پر الزام لگا ہو  اورپولیس جس کی تفتیش کر رہی ہو اس کے تعلق سے ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے یہ کہہ دیا کہ وزیر پر لگے الزامات بے تکے ہیں ۔ کھٹر کو   یہ سمجھنے کیلئے کہ خواتین کھیل کو بطور کریئر  منتخب کرنے میں کیوں ہچکچاتی ہیں، وزیر اعظم کا خط پڑھنا چاہئے۔ 
  مودی نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’ ’ مجھے امید ہے کہ  آ  پ اذہان کے ساتھ اب اور بھی زیادہ کوالیٹی ٹائم (بہتر وقت) گزار سکیں گی۔ اذہان ملک، ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کے ۴؍ سال کے بیٹے ہیں۔  یہ سوشل میڈیا پر بوکھلائے ہوئے ’انتہائی قوم پرست ‘ افراد کیلئے بھی ایک پیغام ہے جو  قلمکار اور کالم نگار تولین سنگھ کے  اس لئے دشمن ہوگئے تھے کہ انہوں نے اپنے بیٹے آتش تاثیر کے اووَر سیز سٹیزن  آف انڈیا  کارڈ  منسوخ ہونے کے خلاف لکھ دیاتھا۔  اس وقت وزارت داخلہ نے یہ وضاحت کی تھی کہ آتش نے( ویزا کیلئے) یہ بات چھپائی تھی کہ ان کے والد سلمان تاثیر پاکستانی نژاد ہیں۔  وزارت نے اس بات کی تردید کی تھی کہ ٹائم میگزین میں آتش کے لکھے ہوئے آرٹیکل کے سبب ان کا ویز ہ کارڈ منسوخ کیا گیا ہے۔  آتش اور ان کی ماں نے وزارت داخلہ کے دعوے کی تردید کی لیکن پاکستانی مسلم باپ کے تذکرہ پر بی جے پی  کے حامی ’قوم پرستوں‘ نے پھر سے سوشل  میڈیا پر ہنگامہ شروع کردیا  تھا۔ 
  یہاں پر آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ ’’ کیا آپ بین السطور کچھ زیادہ ہی نہیں پڑھ رہے ہیں؟‘‘ آپ مجھ پر اُن چیزوں کو  دیکھنے کا بھی الزام لگا سکتے ہیں جو سامنے ہیں ہی نہیں۔  میرا جواب یہ ہوگا کہ جب ہندوستان کے وزیر اعظم ایک خط لکھتے ہیں جو عام ہو جاتا ہے تو فطری طور پر تمام ہندوستانی اسے پڑھیں گے۔   اور بار بار پڑھیں گے ۔ ہر کوئی  اپنے اپنے طور پر اس کے معنی اخذ کرے گا۔ میں نے بھی کیا۔   ایک انتخابی ریاست( جہاں الیکشن ہونے والے ہیں) سے تعلق رکھنے والی ممتاز کھلاڑی کو لکھے گئے خط کا اس ریاست اور پورے ملک کیلئے الگ الگ معنی ہو سکتے ہیں۔  میں اس بات سے حیران ہوں کہ ثانیہ مرزا کے اس خط کو عام کر دینے کے بعد بھی مودی کے آئی ٹی سیل نے  اپنے یا وزیراعظم کے ٹویٹر ہینڈل سے  اسے ری ٹویٹ نہیں کیا ہے۔  بی جے پی بھی اس موقع کوگنواتی ہوئی نظر آئی۔ عام طور پر پارٹی کے لیڈر چاہے وہ حکومت میں شامل ہوں یا نہ ہوں  وزیر اعظم  کے تعلق سے کسی بھی مثبت ٹویٹ کو  ری ٹویٹ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن ثانیہ مرزا نے جب   نریندر مودی کے خط کے تعلق سے ٹویٹ کیا تو  انہوں نے وہ عجلت نہیں دکھائی۔ بے شک بی جے پی لیڈر  اپنی سیاست کو مجھ سے اور آپ سے بہتر سمجھتے ہیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK