یہاں سے پھر نبی اسرائیل کا ذکر ہے کہ وہ اللہ کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی ناحق قتل کرتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں۔
EPAPER
Updated: April 04, 2022, 12:11 PM IST | Maulana Nadeem Alwajidi | Mumbai
یہاں سے پھر نبی اسرائیل کا ذکر ہے کہ وہ اللہ کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی ناحق قتل کرتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں۔
یہاں سے پھر نبی اسرائیل کا ذکر ہے کہ وہ اللہ کے احکام کا انکار کرتے ہیں اور پیغمبروں کو ناحق قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی ناحق قتل کرتے ہیں جو انصاف کا حکم دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی خبر سنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کچھ آیتوں تک بنی اسرائیل کے جرائم کا، اللہ کی کتاب سے اعراض کا اور ان کے من گھڑت عقائد کا ذکر ہے۔ ان آیات کے بعد اللہ کی عظمت وجلال کا بیان ہے کہ اے اللہ تو جس کو چاہے سلطنت عطا کرتا ہے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لیتا ہے ، جس کو چاہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہے ذلت دیتا ہے، تیرے ہی ہاتھ میں خیر ہے، بلا شبہ تو ہی ہر چیز پر قادر ہے ،تو ہی رات کو دن اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے، توہی زندہ کو مردہ سے اور مردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور تو ہی بے حساب رزق عطا کرتا ہے ۔ آگے کچھ انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر خیر ہے، پھر حضرت مریم علیہاالسلام کا ذکر شروع ہوتا ہے کہ ان کی والدہ نے منت مانی تھی کہ جو کچھ میرے پیٹ میں ہے اس کو تو مجھ سے قبول کر، جب وضع حمل ہوا تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ! میرے تو بیٹی ہوئی ہے۔ میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ منت قبول کرلی اور حضرت مریم علیہا السلام کو حضرت زکریا علیہ السلام کی کفالت میں دے دیا، جب بھی حضرت زکریا علیہ السلام حجرے میں جاتے تو حضرت مریم کے پاس رزق دیکھتے اور پوچھتے کہ اے مریم یہ رزق تیرے پاس کہاں سے آیا، وہ کہتیں یہ میرے اللہ کے پاس سے ہے، بلاشبہ اللہ بلا حساب رزق دیتا ہے، وہیں حضرت زکریا علیہ السلام نے بھی اپنے لئے اولاد کی دُعا کی اور دعا کے نتیجے میں حضرت یحییٰ ؑ کی پیدائش عمل میں آئی، آگے پھر حضرت مریم علیہا السلام کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس میں یہ بھی ہے کہ فرشتوں نے ان سے کہا کہ اللہ تمہیں اپنے ایک حکم کی بشارت دیتا ہے جس کا نام مسیح ابن مریمؑ ہے۔
آگے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کچھ اوصاف بیان کئے گئے ہیں اور بتلایا گیا ہے کہ اللہ ان کو بنی اسرائیل کی طرف پیغمبر بنا کر بھیجے گا اور وہ جاکر یہ کہیں گے کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے کچھ نشانیاں لے کر آیا ہوں، پھر وہ ان کو کچھ نشانیاںدکھلائیں گے، پھر جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کے کفر کا حال معلوم ہوگا تو وہ پوچھیں گے کہ اللہ کی راہ میں میری مدد کرنے والے کون ہیں، حواری کہیں گے کہ ہم ہیں مدد کرنے والے، مگر ان کی قوم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خلاف سازشیں کیں اور اپنی دانست میں انہیں سولی پر چڑھا دیا لیکن اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ یہ قصہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرمایا کہ ہم آپ کو یہ آیتیں اور حکمت کی باتیں سنا رہے ہیں، اس کے بعد نجران کے عیسائیوں کا ذکر ہے کہ اگر وہ اتنا سمجھانے پر بھی نہیں سمجھ رہے ہیں تو ان کو دعوت مباہلہ دو۔ اس کے بعد اہل کتاب کو نرمی سے نصیحت کی گئی کہ ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک کریں گے اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا رب نہیں ٹھہرائے گا۔ اگر وہ قبول نہ کریں تو کہہ دو کہ ہم تو حکم الٰہی کے تابع ہیں۔ اگلی آیتوں میں اہلِ کتاب سے کہا گیا ہے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کیوں جھگڑتے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام تو پہلے کے ہیں، تورات وانجیل تو بعد میں نازل ہوئی ہیں نہ وہ یہودی تھے اور نہ نصرانی بلکہ وہ تو خالص مسلمان تھے۔
یہاں سے تقریباً چوبیس آیات تک اہل کتاب کی خیانتوں، ریشہ دوانیوں اور کٹ حجتیوں کا ذکر ہے، آخر میں خدا کی طرف سے یہ دو ٹوک اعلان ہے کہ جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین قبول کرنا چاہے گا تو ہرگز اس کا دین قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔
چوتھا پارہ جس آیت سے شروع ہوتا ہے اس کا مفہوم یہ ہے کہ تم کمالِ نیکی تک نہیں پہنچ سکتے جب تک وہ چیزیں خرچ نہ کرو جو تمہیں عزیز ہوں اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کو خوب معلوم ہے، دو آیتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ کہہ دیجئے اللہ نے سچ فرمایا ہے، آپ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے کی پیروی کیجئے جو دین حنیف پر تھے اور مشرکین میں سے نہیں تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کا ذکر آیا تو یہ ارشاد فرمایا کہ سب سے پہلی عبادت گاہ جو لوگوں کے لئے تعمیر ہوئی وہی ہے جو مکہ میں ہے جو مقام برکت اور مرکز ہدایت ہے تمام دنیا والوں کے لئے ، دو تین آیتوں میں خانۂ کعبہ اور حج وغیرہ کے ذکر کے بعد پھر اہل کتاب کے کفر وعناد کے متعلق ارشاد فرمایا گیا، اس کے بعد اہل ایمان سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں مسلمان ہوکر ہی مرنا چاہئے اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو اور تفرقہ مت ڈالو۔ اللہ کے اس احسان کی یاددہانی کرائی گئی جو اس نے اہل ایمان پر کیا ہے، کہ ایک دوسرے کے دل جوڑ دیئے ، اور اب اللہ کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔
اس کے بعد فرمایا گیا کہ تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، اچھی بات کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں اور وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ تمہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہونا چاہئے جو بکھر گئے اور جنہوں نے کھلی نشانیوں کے بعد بھی اختلاف کیا، ایسے لوگوں کیلئے درد ناک عذاب ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ تم بہترین امت ہو جسے انسانوں کیلئے لایا گیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
چند آیات کے بعد غزوۂ اُحد کا قصہ ہے ، جنگ بدر کا انتقام لینے کیلئے کفار مکہ بے چین تھے اور اشتعال انگیز کاروائیاں کررہے تھے، شوال ۳؍ھ میں احد کے مقام پر زبردست معرکۂ جنگ پیش آیا، اس میں تین ہزار کفار اور سات سو مسلمان شریک تھے، شروع میں مسلمانوں کا پلڑا بھاری رہا۔ کفار شکست کھا کر بھاگنے لگے مگر یہ ابتدائی کامیابی تھی، فتح کامل نہیں تھی، کچھ مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے اور جن تیر اندازوں کو عقبی گھاٹی کی حفاظت کیلئے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور فرمایا تھا وہ بھی یہ دیکھ کر کہ دشمن بھاگ رہا ہے اپنی جگہ چھوڑ کر غنیمت کی طرف لپکے،انہوں مورچہ خالی چھوڑ دیا، کفار نے فوج کے عقب سے حملہ کردیا، لڑائی کا پانسہ پلٹ گیا۔ اس سورہ میں اس غزوے کا تفصیلی ذکر ہے جس میں مسلمانوں کے دوگروہوں نے بزدلی دکھلائی ،حالانکہ اللہ ان کا مدد گار تھا۔ اسی ضمن میں غزوۂ بدر کا بھی ذکر فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ جنگ بدر میں تمہاری مدد کرچکا ہے ،حالانکہ تم نہایت کمزور تھے ۔غزوۂ بدر ۱۷؍ رمضان المبارک ۲؍ھ کو پیش آیا تھا، غزوۂ بدر کے ضمنی ذکر کے بعد پھر غزوۂ احد کا ذکر ہے جس میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کے نچلے دانت کا کنارا شہید ہوگیا اور چہرۂ انور لہو لہان ہوگیا۔
چوتھے رکوع سے اہل ایمان کو خصوصی خطاب ہے ، اے ایمان والو! سود کھانا چھوڑ دو جو بڑھتا چڑھتا رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ تم فلاح پاؤگے اور اس آگ سے بچو جو کافروں کیلئے تیار کی گئی ہے، اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی مغفرت کی طرف اور اس جنت کی طرف سبقت کرو جس کی وسعت آسمانوں اور زمین جیسی ہے ۔یہ پرہیز گاروں کیلئے تیار کی گئی ہے جو فراخی اور تنگی دونوں حالتوں میں مال خرچ کرتے ہیں، غصہ پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں، اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو پسند کرتے ہیں اور یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجاتا ہے یا اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو انہیں اللہ یاد آتا ہے اور وہ اللہ سے اپنے گناہوں کی مغفرت چاہتے ہیں۔ اس رکوع میں غزوۂ احد میں شکست سے دل برداشتہ مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی ہے کہ دل شکستہ نہ ہو ںاور غم نہ کریں،تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔
آگے متعدد آیات میں غزوۂ اُحد ہی کے مختلف واقعات کا ذکر ہے، آخر میں فرمایا کہ اے مسلمانو! تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جنہوں نے کفر کیا اور جو اپنے بھائیوں سے جب وہ سفر میں جاتے ہیں یا جہاد میں شریک ہوتے ہیں یہ کہا کرتے ہیں کہ اگریہ ہمارے پاس رہتے تو مارے نہ جاتے اور نہ قتل کئے جاتے، اللہ تعالیٰ اس گمان کو ان کے دل میں حسرت کا سبب بنا دیتا ہے، اللہ ہی زندگی بخشنے اور موت دینے والا ہے، دو آیتوں کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ آپ نرم دل ہیں اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب لوگ آپ کے گرد وپیش سے چھَٹ جاتے لہٰذا آپ ان کو معاف کردیجئے، انکیلئے مغفرت کی دعا کیجئے اوران سے خاص خاص معاملات میں مشورہ لیتے رہا کیجئے ،جب آپ پختہ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسہ رکھیں اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اس پر بھروسہ کرتے ہیں، کچھ آیات کے بعد فرمایا کہ زمین وآسمان کی تخلیق میں اور دن رات کے اختلاف میں عقل والوں کیلئے بہت سی نشانیاں ہیں جو اٹھتے ،بیٹھتے ، لیٹتے اللہ کا ذکر کرتے ہیں اور آسمان وزمین کی تخلیق میں غور فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے اللہ آپ نے یہ سب کچھ فضول نہیں بنایا اس سورت کا اختتام اس آیت پر ہوا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اے ایمان والو صبر سے کام لو اور پامردی سے رہو اور کمر بستہ رہو اور اللہ سے ڈرو امید ہے فلاح پاؤ گے۔
کل یہ کالم چوتھی تراویح کی مناسبت سے ہوگا