Inquilab Logo

اِس بار چار سو پار یا اِس بار آگے منجدھار؟

Updated: April 19, 2024, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

آج لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کیلئے پولنگ ہونی ہے اور کل ہی ایک ویڈیو تیزی سے گشت کرتا رہا نیز کئی یوٹیوب چینلوں اور اخبارات نیز ٹی وی چینلوں کی ویب سائٹس نے بھی یہ خبر شائع کی کہ دوسہ، راجستھان کے ایک حلقۂ انتخاب میں مرکزی وزیر کروڑی لال مینا جب خطاب کرنے پہنچے تو وہاں بہت کم بھیڑ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے

Photo: INN
تصویر:آئی این این

 آج لوک سبھا انتخابات کے پہلے مرحلے کیلئے پولنگ ہونی ہے اور کل ہی ایک ویڈیو تیزی سے گشت کرتا رہا نیز کئی یوٹیوب چینلوں  اور اخبارات نیز ٹی وی چینلوں  کی ویب سائٹس نے بھی یہ خبر شائع کی کہ دوسہ، راجستھان کے ایک حلقۂ انتخاب میں  مرکزی وزیر کروڑی لال مینا جب خطاب کرنے پہنچے تو وہاں  بہت کم بھیڑ دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے اور بہت سی دیگر باتوں  کے علاوہ یہ کہتے ہوئے اسٹیج سے اُتر گئے کہ ’’آپ میری بے عزتی کررہے ہیں ، آپ کو بالکل بھی شرم نہیں  آتی ؟ مجھے شرم آرہی ہے ایسی سبھا کرنے میں ۔‘‘ ہم اس خبر کی توثیق تو نہیں  کرسکے مگر بیک وقت کئی ذرائع سے اس کے جاری ہونے کے سبب اس سے انکار بھی نہیں  کرسکتے۔ سوچا بھی نہیں  جاسکتا کہ جس الیکشن کے نتائج کے حوالے سے بی جے پی اس حد تک خود اعتمادی کا مظاہرہ کررہی ہو کہ اسے چار سو سے زیادہ سیٹیں  ملیں  گی، اُس کی تیاری کے دوران ایسا منظر بھی دیکھنے کو ملے گا۔ تسلیم کہ ایک حلقے کی صورت حال کو ملک بھر کے انتخابی حلقوں  پر منطبق نہیں  کیا جاسکتا مگر اس حقیقت کو فراموش بھی نہیں  کیا جاسکتا کہ جب عوام ٹھان لیتے ہیں  تو کر گزرتے ہیں ۔ کیا وہ وقت آگیا ہے؟
  کہا نہیں  جاسکتا مگر ’’اِس بار چار سو پار‘‘ کے نعرے کی گونج، وزیر اعظم کی گیارنٹی کی بازگشت، وزیر اعظم کی تصویر والے پوسٹر بینرس کی بھرمار، بظاہر غیر معمولی خود اعتمادی اور پری پول سرویز کے نتائج کی دھوم سے ہٹ کر کچھ اور سننے اور سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اسے بی جے پی کے قافیہ آرائی کے انداز میں  بیان کیا جائے تو کہا جاسکتا  ہے کہ ’’اس بار،آگے منجدھار‘‘۔ ممکن ہے کروڑی لال میناپر عوام نے اپنی برہمی کا اظہار کردیا ہو، دوسری جگہوں  پر نہ کررہے ہوں ، ووٹ کے ذریعہ ہی کرینگے! چند دیگر باتیں  بھی بہت کچھ بیاں  کررہی ہیں  مثلاً یوپی میں  راجپوت ناراض ہیں ، گجرات میں  پارٹی میں  سرپھٹول ہے اور ریاست کی کم از کم آدھ درجن سیٹیں  بُری طرح متاثر ہیں ، ’’ہندوتوا‘‘کا مارکیٹ ٹھنڈا ہے اور بے روزگاری نیز مہنگائی جیسے مسائل عوام کے ذہنوں  سے محو نہیں  کئے جاسکے ہیں ۔ بی جے پی کو یہ دکھ بھی ہے کہ اپوزیشن کے اتحاد کو بڑی حد تک توڑا نہیں  جاسکا جس کا نتیجہ ہے کہ دہلی میں  عام آدمی پارٹی اور یوپی میں  سماج وادی پارٹی کانگریس سے ہاتھ ملا چکے ہیں ۔ دیگر ریاستوں  میں  جو اتحاد پہلے سے چلے آرہے ہیں  وہ اپنی جگہ پر موجود اور مضبوط ہیں ، ان کا اثر نہ ہو یہ ممکن ہی نہیں  ہے۔ ان تمام معاملات و مسائل ہی کے سبب ’’اس بار،آگے منجدھار‘‘ دکھائی دے رہی ہے چنانچہ بی جے پی کامنجدھار سے نکلنامشکل اور اس کے بعد ۲۰۱۹ء کی حاصل شدہ سیٹوں  تک پہنچنا مشکل ہے اور جب یہی مشکل ہے تو چار سو پار کا خواب پورا کرنا کیسے آسان ہوجائیگا۔
 ہم نہیں  جانتے کہ انڈیا اتحاد کی حکمت عملی کیا ہے اور اس کے لیڈران کچھ زیادہ ہی محتاط کیوں  ہیں  مگر اس کا نتیجہ ہے کہ نہ تو کسانوں  کی زبوں  حالی کا مسئلہ گونج رہا ہے نہ ہی خاتون پہلوانوں  کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کا تذکرہ ہورہا ہے۔ نہ تو کووڈ کے دور کی عوامی بے بسی پر گفتگو ہورہی ہےنہ ہی اُس سے قبل کے دورِ نوٹ بندی کے مصائب کو یاد کیا جارہا ہے، الیکٹورل بَونڈ بھی عوامی ایشو نہیں  بنایا جاسکا ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کے لوگ کوئی بھی خطرہ مول نہیں  لینا چاہتے کہ وہ لب کشائی کریں  اور بی جے پی کوئی نیا سیاسی بیانیہ تیار کرلے۔ احتیاط اچھی چیز ہے مگر اس قدر بھی نہ ہو کہ اس پر بزدلی کاشبہ ہو۔ بزدلی سے جنگ نہیں  جیتی جاتی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK