Inquilab Logo

افریقی ملک ملاوی کا سفر، قیام ، تالیفی کام کی نیت اور خدمت ِ حدیث کی سعادت (پہلی قسط)

Updated: January 12, 2024, 3:07 PM IST | Maulana Khalid Saifullah Rahmani | Mumbai

افریقی ملک ملاوی کی آبادی دو کروڑ دس لاکھ بتلائی جاتی ہے، رقبہ لمبائی میں ۶۰۰؍ کلو میٹراور چوڑائی میں ۲۰۰؍ سو کلو میٹر ہے، سمندر سے محروم اور خشکی سے گھرے ہوئے اس ملک کی سرحدیں تنزانیہ، زامبیا اور موزمبیق سے ملتی ہیں۔

Islam in Malawi came from Tanzania, the local language is called "Chechua", which is similar to the Kenyan language Sahelia. Photo: INN
ملاوی میں اسلام تنزانیہ سے آیا ہے، یہاں کی مقامی زبان کا نام’’ چیچوا‘‘ ہے، جو کینیا کی زبان سہیلیا سے ملتی جلتی ہے۔ تصویر : آئی این این

افریقی ملک ملاوی کی آبادی دو کروڑ دس لاکھ بتلائی جاتی ہے، رقبہ لمبائی میں ۶۰۰؍ کلو میٹراور چوڑائی میں ۲۰۰؍ سو کلو میٹر ہے، سمندر سے محروم اور خشکی سے گھرے ہوئے اس ملک کی سرحدیں تنزانیہ، زامبیا اور موزمبیق سے ملتی ہیں۔ یہاں کی ۴۵؍ سے ۵۵؍ فیصد مسلم آبادی زیادہ تر یہاں کی وسیع و عریض جھیل کے کنارے آباد ہے؛ لیکن حکومت مسلم آبادی کا تناسب بہت کم کر کے دکھاتی ہے؛ کیوں کہ غربت کی وجہ سے اس کو اپنے بنیادی اخراجات کیلئے بھی یوروپین ممالک اور اسرائیل کی مدد کی ضرورت ہے؛ اس لئے حکومت عیسائیوں کی تعداد کو حقیقی تناسب سے بڑھ کر دکھلاتی ہے؛ تاکہ مغربی ملکوں کی مدد ملتی رہے۔مقامی زبان کا نام ’’چیچوا‘‘ ہے، جو کینیا کی زبان سہیلیا سے ملتی جلتی ہے، سہیلیا میں عربی زبان کی کافی مشابہت ہے۔
  یہاں اسلام تنزانیہ سے آیا ہے، جو اَب بھی مسلم اکثریتی ملک ہے۔ ایشیا و افریقہ کے بہت سے علاقوں کی طرح یہ خطہ بھی برطانوی استعماری طاقت کے زیر تسلط تھا۔۱۹۶۴ء میں آزادی سے پہلے یہ ملک رہوڈوشیا کے نام سے ملاوی، زامبیا اور زمبابوے کا مجموعہ تھا۔ آزاد ہونے کے وقت عوام کی رضامندی سے یہ الگ الگ ملک وجود میں آگئے۔ اسی وقت ملاوی میں سیکولر جمہوری نظام حکومت قائم ہوا۔ معاشی اعتبار سے اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ملکوں میں ہے لیکن اس کی پچاس فیصد سے زیادہ زمینیں زراعت کے لائق ہیں ؛ اکثر خوردنی اشیاء ملک میں ہی پیدا ہو جاتی ہیں ۔
 راقم الحروف اپنے دو رفقاء کے ساتھ ممبئی ہوتے ہوئے ۲۰؍ دسمبر ۲۰۲۳ء کو ملاوی کی راجدھانی لی لونگ وے پہنچا۔ اس سفر کا ایک خاص محرک تھا۔ آسان تفسیر قرآن ( دو جلدیں ، تقریبا دو ہزار صفحات) کی تکمیل کے بعد خیال تھا کہ حدیث پر کچھ کام کرنے کی سعادت حاصل کی جائے؛ لیکن اسلاموفوبیا میں اضافہ کے پیش نظر راقم نے ’’اسلام پر بے جا اعتراضات‘‘ (۸۰۰؍ صفحات) اور غیر مسلم حضرات کو سامنے رکھ کر ’’ پیغمبر عالم ‘‘ (۵۵۰؍ صفحات) مرتب کی۔ پھر ایک زمانہ سے ضرورت کے احساس اور بعض احباب کے تقاضہ کی بنیاد پر ’’ آسان علم کلام ‘‘ (صفحات ۲۴۴) کی تالیف کا موقع ملا؛ مگر ایک دیرینہ خیال بار بار ذہن کو متوجہ کرتا تھا کہ آخرت میں اس غلام سے آقاؐ کے حضور میں پیش کرنے کی کوئی چیز تیار ہو جائے اور شاید یہی بہانۂ مغفرت بن جائے۔ بڑھی ہوئی مصروفیات، صحت کی ناموافقت اور ملاقات کیلئے آنے والوں کی کثرت کی وجہ سے خیال ہوا کہ اپنی قیام گاہ پر رہتے ہوئے اس کام کو انجام دینا مشکل ہے؛ اس لئے چاہ رہا تھا کہ ہندوستان کے ہی کسی شہر میں خاموشی کے ساتھ اپنے ایک دو شاگردوں کو لے کر فروکش ہو جایا جائے۔ مہاراشٹر، مدھیہ پردیش، کرناٹک اور گجرات کے بعض مقامات کی طرف رجحان ہوتا تھا، جہاں ہم سے تعلیم وتعلم کا تعلق رکھنے والے نوجوان موجود ہیں ، اور ان میں سے ہر ایک کی خواہش بھی تھی کہ میں ان کے یہاں اس کام کو کروں ؛ لیکن ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہوتا ہے۔ گجرات کے بعض محبین نے حاجی محمد شمیم صاحب ملاوی سے اس کا ذکر کر دیا جو پہلے سے مجھ سے آشنا ہیں اور بڑی محبت کرتے ہیں ۔انہوں نے بڑے اصرار ، تاکید اور تسلسل کے ساتھ تقاضہ شروع کر دیا کہ یہ کام میں ان کے یہاں کروں ؛ تاکہ ثواب میں ان کی بھی شرکت ہو، میں نے لاکھ سمجھایا منایا کہ اتنا طویل سفر میرے لئے بہت دشوار ہوگا مگر وہ نہیں مانے۔ یہاں تک کہ خاص اسی مقصد کے لئے ایک وفد لے کر ملاوی سے حیدرآباد پہنچ گئے اور مجھ سے اقرار کرا کر ہی چھوڑا ۔
 میں نے بھی یہ سمجھ کر کہ یہ اللہ ہی کی طرف سے ہے، قبول کر لیا اور اس طرح ۲۰؍ دسمبر۲۳ء کو حیدرآباد سے ممبئی اور ممبئی سے ایتھوپیا کی راجدھانی عدیس ابابا اور وہاں سے ملاوی پہنچا، یہ ہوائی سفر ائیرپورٹ کے وقفہ کو لے کر تقریباََ ۲۰؍گھنٹوں کا تھا۔ ہوائی جہاز کا اتنا طویل سفر آسان نہیں ہوتا، میری عمر اور صحت کے لحاظ سے بھی یہ بہت تھکا دینے والا سفر تھا؛ تاہم میزبان نے قدم قدم پر میری سہولت کا لحاظ رکھا، بزنس کلاس کا ٹکٹ بنوایا، میرے دو شاگردوں کو میرا رفیق سفر بنایا، ایک مولوی محمد اکرم رشید لوناواڑا(گجرات) دوسرے مولوی محمد ادریس قاسمی( کشمیر) اس کے علاوہ سفر کی آسانی کیلئے حاجی شمیم صاحب نے اپنے قریبی عزیز مولوی محمد انعم جو گجرات کے رہنے والے ہیں اور ملاوی میں ان ہی کی کمپنی میں کام کرتے ہیں ، کو بھی ساتھ آنے کو کہا؛ کیوں کہ وہ وہاں کی زبان اور وہاں کے لوگوں سے ایک درجہ مانوس ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ سفر کی طولانی کو میزبان کے جذبۂ محبت اور اپنے عزیز شاگردوں کی رفاقت نے آسان بنا دیا۔
  منزل مقصود پر پہنچنے کے بعد بھائی عدنان صاحب، بھائی ذوالکفل صاحب، رضوان صاحب اور مولانا احمد اللہ صاحب نے جس قدردانی کے ساتھ خدمت کی اور بچھے رہے، اس کا شکریہ ادا نہیں کیا جا سکتا۔ ہم ممبئی سے رات کے تین بجے نکلے اور اگلے دن عصر کی نماز وہاں کے وقت کے حساب سے وہیں ادا کی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ میں ممبئی سے فجر کی نماز پڑھ کر چلا اور کم وبیش ۲۰؍ گھنٹے کے سفر کے بعد ملاوی میں عصر کی نماز ادا کی، یقیناً اللہ تعالیٰ جہاں چاہیں وقت کے فاصلے کو کم کر دیں اور جہاں چاہیں بڑھا دیں ۔
 میں جب ملاوی پہنچا تو تھک کر چور ہو چکا تھا، مغرب کی نماز پڑھ کر کچھ کھا کر لیٹ گیا، ایک دو گھنٹہ کی نیند کے بعد آنکھ کھلی تو خیال ہوا کہ جس ارادہ سے آمد ہوئی ہے، اس کو اللہ کا نام لے کر شروع کرنا چاہئے؛ چنانچہ میں نے عشاء کی نماز پڑھ کر آج ہی مجوزہ موضوع پر لکھانا شروع کر دیا۔ میں املاء کراتا، عزیزی مولوی ادریس سلمہ اس کو لکھتے جاتے، پھر مولوی اکرم سلمہ اس کو ساتھ ساتھ کمپوز کرتے جاتے، شاید موضوع کا ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا۔ میں نے پہلے ارادہ کیا تھا کہ علامہ شوق نیمویؒ کی ’’ آثار السنن‘‘ کا تکملہ مرتب کردوں کیوں کہ آثار السنن صرف ’’کتاب الصلاۃ‘‘ تک ہے، اس نقطۂ نظر سے عنوانات بھی قائم کئے اور کچھ حدیثیں نقل کیں ، اہل علم جانتے ہیں کہ آثار السنن فقہ حنفی کے نقطۂ نظر سے حدیث کا بڑا اہم مجموعہ ہے، پھر میں نے دیکھا کہ اس نوعیت کی کئی کتابیں ماضی قریب میں آچکی ہیں ، جن میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانیؒ کی’’ اعلاء السنن‘‘ کی تلخیص بھی کی ہے۔ یہ اس حقیر کی محبوب ترین کتابوں میں سے ایک ہے۔ حدیث کا درس دینے کے زمانہ میں کثرت سے اس کا مطالعہ کیا کرتا تھا؛ اس لئے احساس ہوا کہ اس کام کی اتنی زیادہ ضرورت نہیں ہے، پھر خیال ہوا کہ مولانا مفتی عمیم الاحسان مجددیؒ کی ’’معرفۃ السنن والآثار‘‘ پر تعلیق وتحقیق کا کام کیا جائے، مولانا مجددیؒ بڑے بلند پایہ عالم تھے، قواعد فقہ پر ان کی کتاب مدارس کے شعبۂ افتاء میں داخل نصاب بھی ہے، اس کتاب کا ایک قدیم نسخہ مجھے ایک سفر کے دوران کسی مدرسہ کی لائبریری میں مل گیا تھا، جو مجھے نصابی نقطۂ نظر سے بہت مفید محسوس ہوئی، جس میں ایمانیات، تصوف اور تمام ابواب فقہیہ کا بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے، قدیم کتابت شدہ پانچ چھ سو صفحات پر یہ کتاب مشتمل ہے، اس کے مصنف پیدائش کے اعتبار سے بہار کے رہنے والے تھے۔
 کلکتہ میں سرکار کے زیر انتظام ایک دینی درسگاہ ’’جامعہ عالیہ ‘‘ پہلے سے موجود تھی، اب ان ہی خطوط پر ڈھاکہ میں جامعہ عالیہ کا قیام عمل میں آیا اور ایک مسلمان حکومت کی سرپرستی کی وجہ سے بہت جلد اس نے ترقی کی منزلیں طے کر لیں ، مولانا مجددیؒ سیاست اور فرقہ بندیوں سے دور رہتے تھے اور انہیں بہت مقبولیت حاصل تھی؛ لیکن شیخ مجیب نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد چوں کہ ڈکٹیٹر کا رنگ حاصل کر لیا تھا؛ اس لئے ان کو مولانا کا ایک اہم عہدہ پر رہنا برداشت نہیں ہوا اور اس نے مولانا کو سبکدوش کر دیا۔ 
 اس کتاب کا بھی میں نے اپنے خیال کے مطابق اچھی طرح مطالعہ کیا، اس کے منہج کو سمجھنے کی کوشش کی، اس پر کن کاموں کی ضرورت ہے، اس کو لکھا؛ لیکن بعد میں میرے بعض دوستوں نے جن کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، بتایا کہ بنگلہ دیش میں اس کتاب پر کام ہو چکا ہے اور میرا احساس ہے کہ بہ مقابلہ ہندوستان اور پاکستان کے بنگلہ دیش میں علماء کی نئی پود علمی و تصنیفی کاموں کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے رہی ہے اور بڑے لائق و فائق فضلاء وہاں دین اور علم دین کی خدمت میں مشغول ہیں ؛ اس لئے خیال ہوا کہ یہ کارِ مکرر ہوگا؛ چنانچہ اس کو بھی چھوڑ دیا گیا۔
 اب ایک نیا خیال پیدا ہوا اور وہ یہ کہ ہمارے بعض بے تکلف دوست احباب کہتے ہیں کہ آپ زیادہ تر علماء کے لئے لکھتے ہیں ، عوام کے لئے بھی تو کچھ لکھیں ؛ تاکہ عام مسلمان بھی فائدہ اُٹھا سکیں ، اس پس منظر میں خیال آیا کہ اردو زبان میں حدیث کا ایک مجموعہ مرتب ہو۔ 
 اگرچہ کہ اردو زبان میں حدیث کی بہت سی کتابوں کے ترجمے بھی شائع ہوئے ہیں اور منتخب مجموعے بھی ہیں ، جن میں فکری اعتبار سے مولانا بدر عالم میرٹھیؒ کی ’’ترجمان السنۃ ‘‘اور دعوتی نقطۂ نظر سے مولانا منظور نعمانیؒ کی ’’معارف الحدیث ‘‘ امتیازی شان کی حامل ہے؛ لیکن ایک ایسا مجموعہ مرتب ہو جو موجودہ دور میں پیدا ہونے والے ملکی اور ملی مسائل کو حدیث کی روشنی میں سمجھاتا ہو، جیسے ماحولیات کا تحفظ، انسانی حقوق، اقلیتوں کے حقوق، خواتین کے حقوق، تعلیم بالخصوص جدید تعلیم اور اس کے مختلف شعبے، طریقۂ تعلیم، موجودہ دور میں پیدا ہونے والے اسلام مخالف افکار وغیرہ۔ اس مجموعہ کی زبان عام فہم، حدیثیں معتبر اور حاشیہ پر حدیث سے متعلق محدثین کا کلام بھی اختصار کے ساتھ ذکر کر دیا جائے، حدیث کی شرح اس طرح کی جائے کہ موضوع کے متعلق عصری مواد بھی اس میں شامل ہو جائے۔
 راقم الحروف اکتوبر ۲۰۲۳ء میں عمرہ کیلئے بھی حاضر ہوا تھا اور اس وقت خصوصیت سے اس کام کیلئے دعاء کی تھی کہ اگر اس ارادہ میں خیر ہو تو اس پر دل کو مطمئن فرما دے؛ چنانچہ ’’ مطالعۂ حدیث ، عصر حاضر کے پس منظر میں ‘‘ کے عنوان سے یہ کام حرم شریف میں ہی شروع کر دیا تھا اور اس مناسبت سے اس کے متعلق کچھ کتابیں بھی وہاں کے کتب خانوں سے خریدی تھیں ۔ ہندوستان واپسی کے بعد سست رفتاری کے ساتھ یہ کام گاہے گاہے ہوتا رہا، ملاوی میں ۲۱؍ دسمبر ۲۰۲۳ء سے ۲؍ جنوری ۲۰۲۴ء تک گویا تیرہ چودہ دن قیام رہا، اس میں اس حقیر نے ۳۷۵؍ صفحات املاء کرائے، رفقاء عزیز نے خوش خطی کے ساتھ لکھا، کمپوز کیا اور جہاں میں نے ضرورت محسوس کی نیٹ سے مواد نکال کر دیا، اس طرح بڑ ی حد تک یہ کام مکمل ہوگیا، اللہ تعالیٰ میزبان کو اور ر فقاء سفر کو اجر عظیم عطا فرمائے اور اس حقیر کی اس خدمت کو جو صرف دربار نبویؐ میں سرخروئی کی نیت سے کی گئی، اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے۔
 راقم الحروف نے میزبان سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہاں میری آمد کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہ دی جائے؛ البتہ واپسی سے دو دن پہلے وہاں کے علماء سے ملاقات اور دینی اداروں پر حاضری کا نظم ہو چنانچہ دو اور تین جنوری کا وقت اس میں گزرا، اس سے پہلے ایک دن ملاوی جھیل جو’’ سلیما ‘‘نامی شہر میں واقع ہے، جانے کا اتفاق ہوا، سلیما ایک ضلع ہے جو چودھری سلیما کے نام پر ہے، یہاں مسلمانوں کی غالب اکثریت ہے، ۳۰۰؍ مسجدیں ہیں ، ایک دینی درسگاہ ’’ سلیما اسلامک سینٹر‘‘ بھی ہے، جس کو جنوبی افریقہ کے بعض اصحاب نے قائم کیا ہے، اس میں زیادہ تر سیاہ فام طلبہ ہیں ۔ مقیم طلبہ کی تعداد ۲۳۰؍ ہے اور دورہ تک تعلیم ہوتی ہے۔ مالدیپ کے ایک عالم مولانا محمد ادریس حسین شیخ الحدیث ہیں ، جو جامعہ تعلیم الدین ڈابھیل (گجرات) کے فارغ ہیں ، ان کو عربی زبان پر اچھی قدرت ہے ، ادارہ کے ناظم مولانا بلال جامعہ فلاح دارین ترکیسر کے فارغ ہیں اور خود بھی ترکیسر (گجرات) ہی کے رہنے والے ہیں ،ان ہی کی دعوت پر حاضری ہوئی تھی، اساتذہ بڑی محبت سے ملے، ذریعۂ تعلیم عربی زبان ہے اور چوں کہ یہاں زیادہ تر شوافع ہیں ؛ اس لئے تقریباً تمام ہی مدارس میں فقہ شافعی کے پڑھانے کا معمول ہے، اس ضلع کے ہیڈ کوارٹرز سلیما نامی شہر میں ایک بہت بڑی جھیل ہے، جو ڈھائی تین سو کلو میٹر پر مشتمل ہے، اس کی چوڑائی اور گہرائی بھی بہت ہے اور پانی نہایت صاف و شفاف اور پینے کے لائق ہے۔ اس جھیل کے کنارے زیادہ تر مسلم آبادی ہے۔ عام لوگوں کے مکانات تو بہت معمولی ہیں ؛ لیکن جھیل کے کنارے اچھے ریزارٹ اور فارم ہاؤس بنے ہوئے ہیں جو زیادہ تر ہندوستان اور خاص کر گجراتی مسلمانوں کے ہیں ۔ 
 ایک دن ہم لوگوں کا سفر اس مشہور تاریخی جھیل کی سیر کے لئے ہوا، جو ہماری قیام گاہ سے تقریباََ دو سو کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع تھی، ہم لوگ صبح نکلے اور مغرب بعد واپس ہوئے، یہ بہت ہی حسین، جاذب نظر اور آلودگی سے محفوظ صاف ستھری فضا تھی، وہاں ملاوی کے ہندوستان نژاد کچھ بڑے تجار اور امریکہ سے آئے ہوئے بعض مہما ن جو مجھ سے غائبانہ واقف تھے جمع ہو گئے، میں نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے گزارش کی کہ مسلمان کو اللہ تعالیٰ نے دینے والا ہاتھ دے کر بھیجا ہے نہ کہ لینے والا ہاتھ، اگر آپ تجارت اور کاروبار کے ذریعہ یہاں سے کچھ کما کر اور اسے جمع کر کے لے جائیں تو یہ تو صرف لینے والا ہاتھ ہوگا، ہاں اگر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہاں کی مقامی آبادی کے درمیان اسلام کا تعارف کرایا اور اللہ اور اس کے رسولؐ کا پیغام ان تک پہنچانے کی کوشش کی تو پھر آپ کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہوگا، اور اِس وقت یہاں اس کے وسیع مواقع میسر ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK