Inquilab Logo

ہر زبان میں بڑی شاعری ایک منزل پر پہنچ کر صوفیانہ ہو جاتی ہے

Updated: March 17, 2024, 11:02 AM IST | Al Ahmed Sarwar | Mumbai

شاعری کی زبان دو اور دوچار کی زبان نہیں ہوتی۔ شاعر کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ یہاں جو بات کہی جاتی ہے اس میں ماورائے سخن بات بھی ہوتی ہے۔

Some Iranian poets are among the most prominent Sufis. Attar, Rumi, Nizami, Sana`i, Jami, Iraqi, Saadi and Hafiz etc. are very high in terms of both poetry and Sufism. Photo: INN
بعض ایرانی شعراء کا شمار بڑے برگزیدہ صوفیوں میں ہوتا ہے۔ عطار، رومی، نظامی، سنائی، جامی، عراقی، سعدی اور حافظ وغیرہ شاعری اور تصوف دونوں کے لحاظ سے بہت بلند ہیں۔ تصویر : آئی این این

اردو ادب کے کلاسیکل سرمائے پر نظر ڈالئے تو چند مضامین سامنے آتے ہیں۔ اردو ادب کے ارتقا میں تین تہذیبی اداروں کا رول مرکزی ہے۔ بازار، خانقاہ اور دربار۔ اردو زبان کی بنیاد ہندوستانی ہے اور اس کے ادب میں اولین سرمایہ صوفیوں کی دین ہے جن کے یہاں ہندی روایت سے پہلے کام لیا گیا اور عجمی روایت سے بعد میں۔ چھٹی صدی ہجری سے لے کر دسویں صدی ہجری تک ہندی روایت غالب رہی، وہ ہندی تصوف جو ناتھ پنتھیوں، بھکتی کال اور نرگن واد کی شکل میں رائج تھا، ہمارے یہاں خواجہ مسعود سلمان، امیر خسرو، بابا فرید، بوعلی قلندر، شرف الدین یحییٰ منیری، کبیر، شیخ عبد القدوس گنگوہی، شاہ باجن، قاضی محمود دریائی، علی جیوکام دھنی، گرونانک، میراں جی، شمس العشاق برہان الدین جانم کے یہاں اسلامی تصوف کے ساتھ اپنی بہار دکھاتا ہے اور جب ولی کے وقت سے عجمی اثرات نمایاں ہونے لگتے ہیں تو یہی تصوف فارسی کے رمز و ایما، اشارات اور علامات سے کام لیتا ہے۔ 
دربار کی وجہ سے شاعری میں شائستگی اور نازک خیالی، صناعی اور ہمواری آتی ہے۔ عیش امروز اور جسم کا احساس ابھرتا ہے۔ مگر اس دور میں فکری روایت وہی ہے جو صوفیوں کی دین ہے۔ یعنی ہم اپنی کلاسیکی شاعری میں جو سب سے بڑا فلسفہ ٔ زندگی پاتے ہیں وہ ہندی اور اسلامی تصوف کا مرکب ہے۔ آج تصوف کو ماورائیت، زندگی سے فرار، خانقاہیت اور ترک دنیا کہہ کر اسکے گوناگوں اخلاقی، سماجی اور تہذیبی کارناموں سے انکار کرنا یکے رخے پن کے مترادف ہے۔ بلاشبہ، دوسرے اداروں کی طرح تصوف میں بھی بہت سی خرابیاں راہ پاگئی تھیں مگر ہماری کلاسیکل شاعری میں اس کے اثر سے جو اخلاقی سماجی آدرش آئے اور جو قدریں اس شاعری کے رنگ محل میں صداقت خیز اور حسن کی علم برداری کرتی رہیں، ان کا ایمان داری سے تجزیہ، نہ صرف آج ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ اس کے بغیر ہم اپنے ماضی کا عرفان حاصل ہی نہیں کر سکتے۔ 
 مصحفی نے کہا ہے، ’’والحق کہ درویشی و شاعری دوش بدوش راہ می رود۔ ‘‘ ایک صوفی شاعر کے تذکرے میں لکھتے ہیں : ’’درویشے است صوفی کہ اکثر مسائل صوفیا را کہ مراداز وحدت وجود باشد بدلائلی و براہین چناں کہ شیوۂ صوفیان بافضل و کمال ست از روئے نص و حدیث بہ اثبات رسانیدہ و در ریختہ موزوں ساختہ (تذکرہ مصحفی ص ۷۲) یہ بات از راہ تفنن کہی گئی ہوگی کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است، مگر اس نکتے کو لوگ فراموش کر جاتے ہیں کہ ہر زبان میں بڑی شاعری ایک منزل پر پہنچ کر صوفیانہ ہو جاتی ہے۔ میکش اکبرآبادی نے مسائل تصوف میں لکھا ہے کہ ’’تصوف رسم پرستی، ظاہر بینی اور دین کے دعویداروں اور ان کے زیر اثر حکومتوں کے استبداد و استحصال کے خلاف ایک باغیانہ تحریک ہے۔ ‘‘ 
تصوف کی اساس، تزکیہ ٔنفس، عشق و محبت اور اطاعت الٰہی پر ہے۔ صرف اطاعت الٰہی کا دوسرا نام شریعت اور عشق و محبت کا دوسرا نام طریقت ہے۔ اسلامی تصوف میں احسان پر خاص زور ہے اور شریعت اور طریقت کے راستے علاحدہ نہیں ہیں مگر یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عشق و محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر صوفیوں نے طریقت پر زیادہ زور دیا جس میں خدا اور اس کی مخلوق سے ہر رنگ میں محبت کو فضیلت حاصل تھی۔ شہنشاہیت کے دور میں فقہا کی موشگافیوں کے ہجوم میں، جنگوں کی تباہ کاری میں، رنگ و نسل اور طبقے اور درجے کے امتیازات میں، دولت کی فرعونیت کے مظاہروں میں، انسان دوستی، مساوات، اخلاق، عدل، نیکی، فرض شناسی اور دلداری کی روایات صوفیوں سے زندہ رہیں۔ 
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب کچھ صوفی اپنے عشق کے نشے میں سرشار ہوکر دنیا اور اس کے معاملات کو نظر انداز کرنے لگے تو ابوصفیہ بن ابوالمنیر نے کہا کہ سچا صوفی لوگوں کے درمیان رہتا ہے۔ ان کے ساتھ کھاتا پیتا اور سوتا ہے۔ بازار میں خرید و فروخت کرتا ہے، شادی کرتا ہے اور سماجی لین دین میں شریک رہتا ہے اور خدا کو ایک لمحے کیلئے فراموش نہیں کرتا۔ (بحوالہ مقالات نکلسن) ازمنہ وسطیٰ میں علوم کے سلسلے میں عام طریقہ یہ تھا کہ ’’سیکھو، تسلیم کرو، اور دہراؤ۔ ‘‘ صوفیوں نے اس معاملے میں حریت فکر کا ثبوت دیا۔ یعنی انہوں نے سوال کرنے اور مسلم نظریات کی نکتہ چینی کرنے کی بھی ہدایت کی۔ علماء ذہن پر زور دیتے تھے اور اس سے ایک طور پر سماجی مساوات کی بھی نفی ہوتی تھی۔ اس سے صوفیوں نے عشق کی عقل پر، فضیلت پر زور دیا اور معرفت کو علم سے بڑا درجہ دیا مگر اس کا یہ معنی ہرگز نہیں لینا چاہئے کہ صوفیوں نے علم کو نظرانداز کیا۔ اسلامی تاریخ میں صوفیوں کا علمی کارنامہ دوسرے علما سے کم نہیں ہے، ہاں انہوں نے بعض علماء کی طرح علم کو حجاب الاکبر نہیں بنایا بلکہ اس سے صداقت، خیر اور حسن کی قدروں کی ترویج کا کام لیا اور یہ ناقابل انکار ہے۔ 
شاعری کی زبان دو اور دوچار کی زبان نہیں ہوتی۔ شاعر کا ہر لفظ گنجینہ معنی کا طلسم ہوتا ہے۔ یہاں جو بات کہی جاتی ہے اس میں ماورائے سخن بات بھی ہوتی ہے۔ شاعر اپنے دل کا مطلب استعاروں میں بیان کرتا ہے۔ اشارہ، رمز و ایما اور علامت سے کام لیتا ہے۔ فارسی شاعری میں جو رموز و علامات استعمال ہوئے ان سے اردو شاعری نے بھی فائدہ اٹھایا۔ کچھ تنگ نظر حضرات نے اس پر اعتراض بھی کیا مگرعجمی روایت ایک شاندار شعری روایت ہے اور اس شعری روایت کو حقیقت نگاری اور واقعاتی حس کے پیمانے سے نہیں ناپنا چاہئے۔ 
ایرانی شعراء کے یہاں تصوف کا گہرا اثر سبھی تسلیم کرتے ہیں۔ بعض ایرانی شعراء کا شمار بڑے برگزیدہ صوفیوں میں ہوتا ہے۔ عطار، رومی، نظامی، سنائی، جامی، عراقی، سعدی اور حافظ وغیرہ شاعری اور تصوف دونوں کے لحاظ سے بہت بلند ہیں۔ اردو میں بھی ایک قابل لحاظ حصہ صاحب سلسلہ و خانقاہ صوفیوں کا ہے۔ مگر یہ بھی واقعہ ہے کہ محض تصوف کے مسائل بیان کرنا شاعری نہیں ہے جس طرح فلسفہ نظم کرنا یا سیاسی موضوعات پر طبع آزمائی کرنا شاعری نہیں ہے۔ حضرت شاہ نیاز بریلوی، شاہ تراب علی قلندر، شاہ رکن الدین عاشق اور حضرت جی غمگین گوالیاری تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعرانہ اہمیت کم ہے۔ 
دردؔ، مظہر جان جاناں بلند پایہ صوفی تھے مگر درد کے یہاں تصوف ایک رنگ ہے، پوری شاعری نہیں ہے اور مظہر کی شاعری بھی زیادہ بلندی تک نہیں پہنچی مگر ہمارے بعض شعرا مثلاً میرؔ، نظیرؔ، آتشؔ، غالبؔ، اکبرؔ، حسرتؔ، اصغرؔ، اقبال اور فانیؔ کے یہاں تصوف کی مرکزی حیثیت ہے۔ بقول حسرت موہانی ان کے یہاں فاسقانہ، عاشقانہ اور عارفانہ تینوں رنگ ملتے ہیں۔ 
مسائل تصوف میں میکش اکبرآبادی نے صوفی شعراء کی ان اصطلاحات کی وضاحت کی ہے جو وہ اپنے اشعار میں استعمال کرتے تھے۔ بت کدہ، شراب خانہ، دیر، عارف کامل کے باطن کو کہتے ہیں۔ پیر مغاں، مرشد کو ترسا اس سالک کو جس نے نفس امارہ سے نجات حاصل کرلی ہے۔ ترسا بچہ واردات غیبی کو، گبرو کافر وہ شخص ہے جو وحدت میں یک رنگ ہو جائے اور ماسوا سے منہ پھیر لے، ’نے‘ وہ ذوق ہے جو سالک کے دل سے پیدا ہوتا ہے اور اسے خوش وقت کر دیتا ہے، ساغر و پیمانہ مشاہدۂ انوار غیبی اور ادراک مقامات کو کہتے ہیں۔ زنار یک رنگ اور یک جہت ہو جانے کی علامت ہے۔ یار، دلبر، محبوب، صنم، دوست، تجلی صفاتی کو کہتے ہیں۔ لب ودہاں صفت حیات ہے، خال سیاہ، عالم غیب ہے، ساقی و مطرب، باطنی فیض پہنچانے والے ہیں، شراب و بادہ محبت کے معنی میں آتا ہے۔ مستی عشق کے تمام صفات کے ساتھ حاوی ہو جانے کا نام ہے۔ شمع خدا کا نور ہے۔ دیر عالم انسانی گیسو طالب کے ظاہر کو بھی کہتے ہیں۔ قلندر، ارباب صفا اور اہل فنا کو بھی کہا جاتا ہے۔ اس لئے بقول غالب:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو 
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر 
اس لئے ان اصطلاحات سے واقف ہوئے بغیر اور ان کیفیات تک پہنچے بغیر صوفیانہ شاعری کو مطعون کرنا سراسر نادانی ہے۔ 
(’’اردو شاعری میں تصوف کی روایت ‘‘ کا ایک باب)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK