• Sun, 21 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

عوامی ادب کے مسائل اور اردو کی ادبی روایت

Updated: December 21, 2025, 9:39 PM IST | Shamim Hanfi | Mumbai

زندہ زبانیں اپنے ادب کی لوک روایت اور اس کی امتیازی روایت کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتی ہیں۔

When language becomes a cultural and aesthetic reference instead of a mere object, its sphere of influence automatically expands. Photo: INN
زبان جب بجائے خود ایک تہذیبی اور جمالیاتی حوالہ بن جاتی ہے تو اس کے اقتدار کا علاقہ اپنے آپ وسیع ہو جاتا ہے۔ تصویر: آئی این این

ادب کی عوامی صنفیں اور روایتیں اردومعاشرے میں اپنے لئے کوئی مستقل جگہ کیوں نہیں بناسکیں ؟ اس سوال کا جواب جتنا واضح ہے اور اتنا ہی افسوسناک بھی۔ اردو کی اشرافیت (Sophistication) اور مدنیت (Urbanity) نے برصغیر کے مجموعی کلچر میں جن عناصر اور جہتوں کا اضافہ کیا ہے، وہ بہت قیمتی ہیں۔ ہمارے علوم، افکار اور فنون کی دنیا ان اضافوں کے بغیر، وہ کچھ ہوہی نہیں سکتی تھی جیسی کہ آج ہے۔ اردو کی اشرافیت اور مدنیت صرف اس زبان کے بولنے والوں کی اجتماعی زندگی اور ذہنی وجدانی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوئی، دوسری زبانوں نے بھی، کسی نہ کسی سطح پر، اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ اسی لئے اردو زبان وادب کا سفر جن خطوط پر ہوا اور اس سفر میں جن منزلوں تک ہماری رسائی ہوئی، مجھے ان کی طرف سے کوئی بے کلی نہیں ہے۔ میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ اردوکی ادبی روایت اور اس روایت سے مالا مال ثقافتی ورثے کے بغیر ہم نہ تو اپنے تجربوں کا مفہوم متعین کر سکتے تھے، نہ اپنی شناخت قائم کر سکتے تھے۔ ہندوستان کی موسیقی، مصوری، رقص، فن تعمیر اور ہماری کئی علاقائی زبانوں کے ادب پر، اردو کی ثقافتی روایت اب تک سایہ فگن ہے۔ زبان جب بجائے خود ایک تہذیبی اور جمالیاتی حوالہ بن جاتی ہے تو اس کے اقتدار کا علاقہ اپنے آپ وسیع ہو جاتا ہے۔ اسی لئے مجھے ان اصحاب سے کچھ کم وحشت نہیں ہوتی جو اردو کلچر کی اشرافیت اور مدنیت کے سلسلے میں اعتذار کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ لیکن مجھے اس واقعے کے اعتراف میں بھی کوئی جھجک نہیں کہ اردو کلچر نے اپنی اشرافیت اور مدنیت کی قیمت ضرورت سے بہت زیادہ چکائی ہے۔ ماناکہ اس کلچر نے جو رخ اپنایا، اس کی منطق گزشتہ ادوار کی تاریخ کے عمل میں موجود ہے۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اس منطق کے سامنے سپر ڈال دی اور اپنی کامرانیوں کے نشے میں یہ بات بھلا دی کہ ہم نے اپنا سفر حصول اور بے حصولی کی سطح پر ساتھ ساتھ طے کیا ہے۔ اپنی بے حصولی اور نارسائی کا حساب کریں تو خیال ہوتا ہے کہ وہ عناصر جو اردو کلچر کی تشکیل میں اساسی حیثیت رکھتے ہیں ان کے محدود تصور اور ان کی ناقص تعبیر ہی دراصل ہمارے المیے کا سبب بنی۔ ان اسباب کی نشاندہی مختصراً اس طرح کی جا سکتی ہے، 
(۱) اشرافیت کے غلط تصور نے ایک طرح کی لسانی تنگ نظری اور صنوبری کو راہ دی ہے۔ 
(۲) مدنیت پر ضرورت سے زیادہ توجہ ہمارے تجربوں کی تحدید اور تخصیص پر منتج ہوئی۔ 
(۳) زبان کی صحت اور لغات کی پابندی پر غیرمتوازن اصرار کی وجہ سے ہماری روایت حکائی Oral لفظ کی طاقت سے محروم اور تحریری لفظ کے تسلط کا شکار ہوتی گئی۔ 
(۴) اردو نے مشرق کی جن زبانوں کو اپنا بنیادی سرچشمہ بنایا ان میں ارضیت کی لے کمزور تھی اسی لئے ہماری ادبی روایت میں ذہنی اور تجریدی تجربوں سے شغف نمایاں ہے۔ 
(۵) ہم نے اشیا سے زیادہ اشیا کے تصور سے سروکار رکھا۔ آج بھی ہمارے یہاں ایسے دانشور موجود ہیں جوعلامت سازی کو بت پرستی سے تعبیر کرتے ہیں اور فکر کی تجسیم کے عمل کو ذہنی پس ماندگی کا نام دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ عمل قدیم انسان کی سادہ فکری کا ترجمان ہے۔ 
اصل میں ترقی پذیری اور پسماندگی کے تصورات کی نوعیت ادب اور فنون کی دنیا میں سماجی سطح پر ترقی اور پسماندگی کے تصورات کا ہوبہو عکس نہیں ہوتی۔ اظہار اور فکر میں بہ ظاہر مراجعت کا زاویہ، تمنا کا دوسرا قدم بھی ہو سکتا ہے۔ اس کی شہادتیں ہمیں سب سے زیادہ مصوری میں اور تھیٹر میں ملتی ہیں جہاں پرانے اسالیب کو ایک نئی معنویت کی دریافت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ میں یہاں وضاحت کے لئے صرف دو مثالیں دوں گا۔ ایک تو رام چندرن کا معروف میورل بیانی اور ان کی تصویروں کی وہ سیریز جو ’’کٹھ پتلیوں کا رنگ منچ‘‘ کے نام سے سامنے آئی تھی۔ ان میں رام چندرن نے بنیادی رنگوں، مصوری کی لوک روایتوں اور قدیم انسان کی سادہ فکری کے استعاروں سے آج کی شخصی اور اجتماعی زندگی کے بعض مسائل کی ترجمانی کا کام لیا تھا۔ متھلا پینٹنگز کے ایک مبصر (رتنا دھرجھا) کا قول ہے کہ یہ تصویریں اپنی عنصری سادگی اور ہر قسم کے حجاب سے عاری بصیرت کی بنیاد پر آج کمرشلائزڈ آرٹ کے متعفن ماحول میں ہوا کے ایک تازہ جھونکے کی طرح ہیں۔ مدھوبنی یا متھلا پینٹنگز کی طرح رام چندرن کی بیانی اور ’’کٹھ پتلیوں کا رنگ منچ‘‘ دونوں میں کہانی کا عنصر نمایاں ہے۔ لوک روایت میں اس عنصر کی حیثیت بنیادی ہے۔ 
دوسری مثال لوک ساہتیہ ہے۔ ناٹک کی عوامی روایت جاترا جو جدید کاری کے سیلاب میں پس پشت جا پڑی تھی اورجس کا حلقہ اثر بنگال کے گاؤں تک محدود رہ گیا تھا، پچھلے کچھ برسوں میں اس کا تماشا اہل شہر کے لئے بھی نئے سرے سے پرکشش بن گیا ہے۔ ا س صنف میں عام انسانی صورت حال سے نہایت شدید اور انہماک آمیز رشتہ چونکہ اساسی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے یہ صنف جدید کاری کے جھٹکوں کو جھیل گئی۔ سیاسی بیداری اور بصیرت میں اضافے کے ساتھ ساتھ جاترا کے واسطے سے سیاسی مفہوم اور معنویت رکھنے والے کھیلوں سے دلچسپی بھی بڑھتی گئی۔ اسی طرح اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان اور ہریانہ میں شہروں کے تھیٹر گروپ شاید اپنے آزمودہ اسالیب کے حدود اور ان اسالیب کے مسدود مستقبل کی وجہ سے لوک روایتوں کی مدد سے نئے راستے ڈھونڈ رہے ہیں۔ نوٹنکی کے اسلوب کی تجدید ہوئی ہے اور اس پرانے اسلوب میں نئے انسان کا قصہ سنایا جا رہا ہے۔ 
اردو کا حال اس معاملے میں سرے سے مختلف ہے۔ لوک روایتوں کی بحالیت تو دور رہی، ہمارے علم نے لوک عناصر سے آراستہ اسالیب اور اصناف کو بھی کبھی سنجیدہ تفہیم اور تجربے کا موضوع نہیں بننے دیا۔ دہے (دیہاتی مرثیے) پوربی بھاشا میں لکھے ہوئے سوز اورنوحے، لوک گیتوں کے اندازمیں منظوم سیاسی واردات اور عوامی تھیٹر سے ایک غیر شعوری لاتعلقی ہمارا عام شیوہ ہے۔ اس کے برعکس ہندی میں لوک گیتوں کے ذریعے سماجی، سیاسی، تہذیبی صورت حال اورواقعات پر تبصروں کی روش روزبروز مستحکم ہوتی جاتی ہے۔ اس موقع پر دوحقائق کی نشاندہی ضروری ہے۔ 
ایک تویہ کہ زندگی کی بنیادی سچائیوں میں یقین عوامی ادب کی فکری اساس ہے۔ دوسرے یہ کہ عوامی تجربے شخصی تجربو ں کی ضدنہیں ہوتے۔ ایسا نہیں کہ ان حقیقتوں کی طرف سے ہم یکسر بے خبر رہے ہیں۔ واقعہ یوں ہے کہ ہماری لسانی عادتوں اور ادب کے اختصاصی تصور کا جبر ہمارے گلے کاطوق بن گیا۔ اس امر کی جانب سے ہم توجہ نہ دے سکے کہ زندہ زبانیں اپنے ادب کی لوک روایت اور اس کی امتیازی یا اشرافی روایت میں کوئی ٹکراؤ پیدا کئے بغیر دونوں کو ساتھ ساتھ آگے بڑھاتی ہیں۔ 
(طویل مضمون سے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK