• Sun, 14 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

جَون ایلیا: بیزاری و بغاوت کا شاعر

Updated: December 14, 2025, 11:36 AM IST | Dr Ali Ahmed Fatemi | Mumbai

۱۴؍دسمبر ۱۹۳۱ء کو امروہہ کے ایک معززگھرانے میں آنکھیں کھولنے والے سید حسین سبط اصغر نقوی کو دنیا جَون ایلیا کے نام سے جانتی ہے۔ انہوں نے اداسی، بیزاری کو مزاحمت کا جو رنگ و آہنگ دیا، فکر و فلسفہ کو جو روپ دیا اور جو شاعری کی، جو زندگی گزاری وہ عام انسانوں، تمام شاعروں کے مقدر میں نہیں ہوا کرتی۔

John Elia`s first collection of poetry was published when he was about 60 years old. Photo: INN
جَون ایلیا کا پہلا شعری مجموعہ اس وقت شائع ہوا تھا جب ان کی عمر تقریباً ۶۰؍ سال تھی۔ تصویر: آئی این این

جَون ایلیا پر لکھنا آسان کام نہیں۔ میں ان سے کبھی ملا نہیں۔ ان کو دور سے دیکھا بھی نہیں، پھر بھی کراچی میں راحت سعید سے لے کر کینیڈا میں اقبالؔ حیدر تک ان کی شخصیت و شاعری کو لے کر عجیب و غریب تذکرے اور چرچے سنے۔ ان کی شاعری کے الجھاوے، تضادات، تصادمات وغیرہ یہ سب کچھ خوفزدہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ کچھ شاعروں کے معاملات عجیب و غریب ہوا کرتے ہیں۔ خاص طور پر ایسا شاعر جس نے ایک مخصوص و مضبوط علمی و تہذیبی پس منظر پایا ہو، طرح طرح کے علم حاصل کئے ہوں، حیات و کائنات کے تعلق سے ایک خوشگوار اور صحتمند تصور قائم کیا ہو، لیکن اگر دنیا اس کے مزاج و معیار کے برعکس غلیظ ہو، تقلیب و تخریب کا شکار ہو تو آبگینوں میں ٹھیس لگ جانا اور بیزاریوں اور پیچیدگیوں کا پیدا ہوجانا عین فطری ہے۔ اسی لئے اکثر جَون کو بیزاریوں اور ناآسودگیوں کا شاعر کہا گیا۔ یاسیت و قنوطیت کے آثار تلاش کئے گئے جو بڑی آسانی سے ان کی شاعری میں مل بھی جاتے ہیں۔ بقول کمال احمد صدیقی: ’’جَون ایلیا کی شاعری قنوطیت اور رجائیت کا ایک عجیب سنگم ہے اور یہ سنگم ایک Paradox ہے۔‘‘ جَون کا یہ ایک فطری تخلیقی عمل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ان رنگوں کے درمیان غالب رنگ کیا ہے۔ اس تلاش میں ان کی غزلوں سے زیادہ نظمیں معاونت کرتی ہیں۔ مجموعے کی ابتداء ہی نظم ’’شاید‘‘ سے ہوتی ہے:
میں شاید تم کو یکسر بھولنے والا ہوں 
شاید جانِ جاں شاید…
ان دو مصرعوں میں شاید کا لفظ تین بار آیا ہے جو مصرعوں کے بہاؤ اور اسلوب کے لئے ضروری تو ہے ہی، محبت اور نفسیات کی تشکیلی امیج بھی ابھرتی ہے۔ چونکہ نظم خالص رومانی ہے اس لئے اس کا لب و لہجہ یادوں سے پُر ایک ایسا عشقیہ لہجہ ہے جہاں بقول حسرت موہانی ’’بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں ‘‘ والی کیفیت و روایت سے وابستہ ہوجاتا ہے، لیکن نظم کے مصرعے:
متاعِ دل، متاعِ جاں تو پھر تم کم ہی یاد آؤ
بہت کچھ بہہ گیا ہے سیلِ ماہ و سال میں اب تک
سبھی کچھ تو نہ بہہ جائے
کہ میرے پاس رہ بھی کیا گیا ہے
کچھ تو رہ جائے
رومانی نظم ایک سنجیدہ تاثر کے ساتھ اختتام پزیر ہوتی ہے جہاں وہ حیات و کائنات کے زیر و بم اور کیف و کم سے جوڑ کر اس کی معنویت کے دائرے کو وسیع کرتے ہیں۔ لیکن نظم میں بظاہر ہلکی سی ڈری ڈری سی فضا اسے نفی اور ناآسودگی کی پٹری پر ڈالے رکھتی ہے۔ 
 اس کے فوراً بعد دوسری نظم ’’رمز‘‘ میں ان کی پیچیدگی اور الجھی ہوئی پریشان شخصیت کے بھید کھلتے نظر آتے ہیں کہ جہاں افکار اور ہجوم ایمان و ایقان کبھی کبھی تصور و تخیل کی ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جہاں شاعر کا ذہن مثالی دنیا اور مثالی معاشرے کی ایسی تصویر قائم کرتا ہے جو عملی اور حقیقی دنیا سے کافی دور اور ناممکن سی لگتی ہے جس کی وجہ سے فکری ہجوم، کثرتِ موہوم کا شکار ہوکر کبھی کبھی Nihilisim کا شکار ہوجاتا ہے۔ تبھی تو شاعر کہتا ہے:
میرے کمروں میں کتابوں کے سوا کچھ نہیں 
ان کتابو ں نے بڑا ظلم کیا ہے مجھ پر
ان میں اک رمز ہے
جس رمز کا مارا ہوا ذہن
مژدۂ عشرت ِ انجام نہیں پا سکتا
زندگی میں کبھی آرام نہیں پاسکتا
شاید جَون کو کبھی آرام نہیں ملا۔ امروہہ ان کے سینے میں اور قدم کراچی کے زمینے پر جہاں آدمیت، شرافت سب ڈسٹرب کرتے ہیں۔ چنانچہ مثالیت کا محل ریت کی طرح بکھر جائے تو حساس شاعر کو چین کہاں سے آئے، تو اسی بے چینی کی زمین سے خیالات کے نئے نئے گل بوٹے نمودار ہوئے جسے عام و خاص نے طرح طرح کے نام دیئے لیکن روح کی گہرائی اور خیال کی مقدس بے چینی اور پاکیزہ اضطراب کو کوئی چھو‘ نہ سکا جو جَون ایلیا کے مذہب ِ دل، تاریخ ِ انسانیت، تہذیب ِ نفس اور حسنِ معاشرت کے حوالے سے اس کو حیران و پریشان کئے ہوئے تھے، جس کے آڑے ترچھے عکس ان کی نظموں میں جلوہ گر ہیں۔ 
کم لوگوں کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں کبھی آرام نہ پانے کا احساس دعوت ِ عمل ہے اور دعوت ِ فکر بھی اور حیات کے اس تسلسل و ارتقا کا اشاریہ بھی ہے جس سے زندگی نموپزیر ہوتی ہے، ہچکولے کھاتی ہے، تصادمات کا شکار ہوتی ہے اور اپنی بوقلمونی و رنگارنگی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے۔ اسے سودو زیاں اور روز و شبانہ سے اوپر اٹھ کر کس طرح محسوس کیا جاسکتا ہے یہ ایک احساس، سنجیدہ فلسفی و شاعر کے دل سے پوچھئے جو حیات و کائنات کو خارجی مظاہر میں کم باطن کی لہروں میں زیادہ دیکھتا ہے اور باطن کی صدا اسے خارج کی تمام صداؤں سے بہتر لگتی ہے۔ تبھی تو وہ کہتا ہے:
جو تنفس سے خموشی کے سنا ہے میں نے
ایسا نغمہ کسی آواز کے جنگل میں نہیں 
یہ سچ ہے کہ شاعری باطن کی نرم و نازک اور بے چین صدا ہوا کرتی ہے لیکن عموماً اس کے دباؤ خارجی ہوا کرتے ہیں۔ اسی لئے نظمیہ لہجہ اکثر خارجیت سے فرار حاصل نہیں کرسکتا۔ فکر، بیان اور مزاحمت کا لہجہ اختیار کرکے ایک مخصوص فکری اور جمالیاتی پیکر اختیار کرلیتا ہے لیکن لہجہ مزاحمت کا ہو یا محبت کا، جَون جیسا پختہ اور قادر الکلام شاعر اسی فطری رجحان اور وجدان کو ایک مخصوص تخلیقی و جمالیاتی پیکر میں ڈھال کر وہ ہیئت اور روپ عطا کرتا ہے جہاں صرف مزاحمت ہی نہیں بلکہ انسانی اور احتجاجی شاعری کے نئے نئے در وَا ہوتے ہیں :
غرورِ جبہ و دستار کا زمانہ ہے
نشاطِ فکر و بساطِ ہنر ہوئی برباد
فقیہ و مفتی و واعظ پہ حرف گیر ہو کون
یہ ہیں ملائکہ اور شہر جنت ِ شداد
اسی ہوس میں ہیں ہر دم یہ دشمنانِ جمال
جو سوئے رنگ اٹھے اُس نظر کو گل کردیں 
جو بس چلے کہیں ان کا تو یہ قضا بیزار
شفق کا رنگ بجھا دیں سحر کو گل کردیں 
دس بندوں کی معیاری نظم ’’شہر آشوب‘‘ مزاحمت اور عہد حاضر کی کربناک اور عبرتناک صورتوں کا فکر انگیز اعلامیہ ہے جو نہ صرف روایتی شہر آشوب نگاری سے مختلف ہے بلکہ ایک نئے شعری ذہن اور وژن کی غماز بھی۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس نظم میں ترقی پسند شاعری جیسی نشاطیہ کیفیت نہیں ہے۔ امید و آرزو کی کمی بھی کھٹکتی ہے لیکن بے چینی و بے قراری کو نظمیت و شعریت کا روپ دینا بڑی اور بامقصد شاعری کو جنم دینا اور تخلیق کی زیریں سطح سے انسانیت کا پیغام دینا اپنے آپ میں غیرمعمولی شاعرانہ و فنکارانہ عمل ہے جس سے جَون ایلیا بحسن و خوبی گزرے ہیں۔ 
 ان کی ایک نظم ہے ’’سلسلہ تمنا کا‘‘ جو ان کی عمدہ نظموں میں سے ایک ہے۔ آرزو، تمنا، خواب یہ سب وہ انسانی و جذباتی اوصاف و عناصر ہیں جن پر انسان اور کائنات کی ترقی و تبدیلی کا انحصار رہتا ہے نیز انسان دوستی اور دردمندی کے عناصر بھی اسی راہ سے ہموار ہوتے ہیں اسی لئے اربابِ اقتدار آرزوؤں ، تمناؤں پر پہلے ضرب لگاتے ہیں کیونکہ نہ ہوگا خواب اور نہ ہوں گی اس کی تعبیریں ، کیونکہ خواب کی عدم تعبیر و تکمیل ہی انسان کو بے چین کرتی ہے اور اضطراب و احتجاج کے راستے پر لے جاتی ہے۔ نظم کی شروعات اچھے ڈھنگ سے ہوتی ہے:
خیال و خواب کو اب مل نہیں رہی ہے اماں 
نہ اب وہ مستیٔ دل ہے نہ اب وہ نشہ ٔ جاں 
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تمنا کا
دردمند شاعر، آرزوؤں کا فنکار اس تمنا کو جگائے رکھتا ہے خواہ وہ خون سے جاگے یا شراب سے:
نہیں ہے گردشِ ساغر تو گردشِ خوں ہے
سو اپنی گردشِ خوں سے ہی کچھ سوال کرو
اور نظم کئی سوالوں کی طرف مڑ جاتی ہے۔ لیکن شاعر نےسوال و جواب اور اس کے پیچ و خم کے مقابلے کیف و کم پر زیادہ توجہ دی ہے۔ فلسفیانہ طور پر الجھنے کے بجائے شعرانہ طور پر ترغیب دی ہے جس سے فن اور جمال، حرکت و جلال کے ملے جلے عناصر کے ذریعے یہ نظم اقبالؔ اور فیضؔ کے رنگ میں ڈھل کر امید و نشاط اور جستجوئے حیات کا جامہ پہن لیتی ہے:
کوئی امید دلاؤ کہ آرزو تو رہے
نظر اٹھے نہ اٹھے دل ہی کچھ ٹھہر جائے
قدم اٹھیں نہ اٹھیں کوئی جستجو تو رہے
ہو چارۂ غمِ جاں کیا یہ گفتگو تو رہے
چارۂ غم کی اصطلاح سے نظم انفرادیت و محدودیت کا شکار سی لگتی ہے لیکن یہاں شاعر نے اس کو وسیع تناظر میں استعمال کرکے نظم کو بلندی اور وسعت عطا کی ہے۔ آخری حصے میں عاشقانہ جذبات کے ساتھ نظم ختم ہوتی ہے لیکن یہ آخری شعر:
سو زخمِ شوق کو جلتا ہوا تو رکھنا ہے
نہ ٹوٹ جائے کہیں سلسلہ تو رکھنا ہے
ترقی پسند احساس پر ختم ہوتا ہے جس کے جلال و جمال سے کہیں اقبال، کہیں فیض اور اکثر جَون کا اپنا یاسیتی تحرک اور فلسفیانہ صحت کا برملا اظہار ملتا ہے۔ واضح تصورات میں ڈوبی یہ نظم اپنے مخصوص و منفرد اسلوب و آہنگ کے اعتبار سے اتنی ہی پاکیزہ اور متاثر کن ہے جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ عمدہ تخلیق کے لئے اور تنظیم کے لئے خیال کا واضح ہونا اور بڑا ہونا ضروری ہوا کرتا ہے۔ 
مزاحمت اور بغاوت کے بڑے روپ ہوا کرتے ہیں جتنے کے ظلم و جبر کے روپ خارجی طور پر دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن ادب میں مزاحمت کے روپ اکثر باطنی لہروں میں ڈوب کر سر اٹھاتے ہیں۔ اظہار کے کئی وسائل اندرون میں جذب ہوکر تحلیل ہوکر تخلیقی کرب کا حصہ بن کر ظاہر ہوتے ہیں۔ جَون ایلیا کی شاعری کچھ ایسی ہی ناآسودگیوں، بیزاریوں اور بغاوتوں کی شاعری ہے جسے انقلاب کے خارجی مظاہر سے کم باطنی بے چینیوں سے آنکنے اور تخلیق کے بطن میں جھانکنے کے بعد ہی سمجھا جاسکتا ہے۔ پابلونرودا نے غالباً ایسے ہی شاعروں کے بارے میں دل لگتی بات کہی ہے:’’ادب تخلیق کرنا بذات ِ خود ایک مزاحمتی عمل ہے کیونکہ ادیب اپنے گردوپیش سے کنفرم نہیں کرپاتا اور اس کشمکش کی بنیاد پر وہ ادب تخلیق کرتا ہے۔ ایک طرح سے تو سارا ادب مزاحمتی ہے اور ہر ادیب باغی۔ ‘‘
جَون ایلیا نے اسی اداسی، بیزاری کو مزاحمت کا جو رنگ و آہنگ دیا، فکر و فلسفہ کو جو روپ دیا اور جو شاعری کی، جو زندگی گزاری وہ عام انسانوں، تمام شاعروں کے مقدر میں نہیں ہوا کرتی۔ اس کے لئے آمریت کو ٹھوکر مارنا، عیش و آرام کو ازخود آزار میں بدلنا اور دربدر ہونا پڑتا ہے اور پھر اعلانیہ کہنا پڑتا ہے:
سہولت سے گزرجاؤ مری جاں 
کہیں جینے کی خاطر مر نہ رہیو

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK