Inquilab Logo

افسانہ: کہاں سے کہاں تک

Updated: April 29, 2024, 12:04 PM IST | Abdul Haq Qazi | Mumbai

میں نے محسوس کیا کہ میرے پیروں کو ایک انجانی قوت آگے اور آگے کھینچے چلے جاتی ہے۔ مجھے ان درختوں اور کھیتوں کی یاد آئی جہاں بچپن میں میں دوسرے بچوں کے ساتھ گاؤں سے باہر جاتاتھا۔ میں ایک نہر سے گزرا۔ تب ہی یہ یاد آیا کہ میں یہاں تیرا بھی کرتا تھا۔ یادوں کی وادی سے بہت دور گزرے ہوئے وہ دن حقیقتاً بڑے خوشگوار تھے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

گزشتہ پندرہ دنوں سے مسلسل جنگ جاری تھی۔ ہمارے لئے آرام حرام تھا۔ ہم چند ہی لوگ ایک پہاڑی کی چوٹی پر تھے اور ہمارا یہ فیصلہ تھا کہ دشمن کو ہماری مقدس زمین پر قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ ہمارے اطراف بہت سی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ آسمان اندھیروں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ فضا میں دھول کی دبیز چادر پھیلی ہوئی تھی اوریہ جاننا اور سمجھنا دشوار تھاکہ یہ دن ہے یا رات۔ 
اچانک ہی بگل کی آواز گونج اٹھی۔ لڑائی بند ہوچکی تھی۔ میں نے اپنے آپ کو زمین پر ڈال دیا۔ اچانک میں جاگ گیا۔ دھوئیں کے بادل چھٹ چکے تھے۔ دھوپ اپنی پوری چمک دمک کے ساتھ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں اٹھ بیٹھا اور جب سامنے نظر ڈالی تو بہت دور مجھے ایک سڑک بل کھاتی ہوئی دکھائی دی اور میں اس سڑک پر انجانے جذبے کے تحت ٹہلنے لگا۔ 
میں نے محسوس کیا کہ میرے پیروں کو ایک انجانی قوت آگے اور آگے کھینچے چلے جاتی ہے۔ مجھے ان درختوں اور کھیتوں کی یاد آئی جہاں بچپن میں میں دوسرے بچوں کے ساتھ گاؤں سے باہر جاتاتھا۔ میں ایک نہر سے گزرا۔ تب ہی یہ یاد آیا کہ میں یہاں تیرا بھی کرتا تھا۔ یادوں کی وادی سے بہت دور گزرے ہوئے وہ دن حقیقتاً بڑے خوشگوار تھے۔ کچھ دنوں بعد جب میں اپنے گاؤں آیا تھا، گھر میں داخل ہونے سے پہلے میری بیوی باہر آئی اور میرے قدموں میں جھک گئی۔ دوننھے بچے خوشی میں بھرے میرے چاروں طرف چکر لگانے لگے۔ ان کی آنکھوں میں خوشی اور مسرت کے آنسو تھے۔ میں اور میری بیوی اندر گئے۔ گھر کی چہاردیواری خوشی اور مسرت کے قہقہوں سے ایک بار پھر گونج اٹھی۔ میرے دوست احباب مجھ سے ملنے آئے۔ و ہ سب کتنے بدل گئے تھے اورمیری بیوی بھی پہلے کی بہ نسبت کافی عمر کی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی جوانی اس درمیان بیت گئی تھی جب میں ملک کی خدمت کے لئے گیا ہوا تھا۔ 
میرے احباب مجھے اس لئے روکنا چاہتے تھے تاکہ میں اپنے بیوی بچوں کی دیکھ بھال کرسکوں۔ میں نے انہیں یاد دلایا کہ میں نے اپنی زندگی کی آخری سانسوں تک وطن کی خدمت کرنے کی قسم کھائی ہے۔ میری بیوی کی آنکھوں کے چھلکتے ہوئے آنسو بھی میرے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہ کرسکے۔ 
تین دن کے بعد میں واپس فوج میں جانے کیلئے تیارتھا۔ اس دن ہر کوئی مجھے الوداع کرنے کیلئے گاؤں کی آخری سرحد تک آیا۔ میں نے اپنا کِٹ بیگ اپنے شانوں پر رکھا۔ لوگوں سے اجازت لے کر میں نے ایک قدم آگے بڑھادیئے۔ اچانک ہی میں نے محسوس کیا کہ کوئی پیچھے سے میرا یونیفارم پکڑ کر کھینچ رہا ہے۔ میں نے مڑ کر دیکھا، میرے دونوں بچے آنکھوں میں آنسو لئے کھڑے تھے۔ دونوں نے بیک آواز کہا۔ ’’پاپا ہمارے ساتھ رہو۔ مت جاؤ۔ ‘‘
میرے لئے اتنا ہی کافی تھا۔ میں نے اپنا بیگ نیچے ڈال دیا اور دونوں بچوں کو گود میں اٹھالیا اور ان سے متفق ہوگیا۔ سامنے موجود میری بیوی نے بھی اپنے آنسوؤں کو پونچھ ڈالا۔ بگل پھر بج اٹھا۔ گاؤں کی یاد بیوی بچوں کے ساتھ جاچکی تھی۔ سورج کی چمک ختم ہوچکی تھی۔ آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ خواب تھا۔ جنگ شروع ہوچکی تھی۔ میں نے اپنی جگہ سے اٹھتے ہوئے ایک ٹھنڈی سانس لی اور مورچے پرپہنچتے ہی دشمنوں پر گولیاں برسانی شروع کردیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK