’’اردو کی مہک ،محبت ،مسائل و حل‘‘ پر منعقدہ سمینار میں شرکاء کا اظہار خیال ۔معروف صحافی مشتاق کریمی پر کتاب کا اجراء بھی عمل میں آیا۔
’’موج افکار:مشتاق کریمی‘‘ کی رونمائی کے موقع پر صاحب اعزاز اور سمینار کے معزز مہمانان۔ تصویر: آئی این این
گزشتہ دنوں جلگائوں میں ایک شاندار اردو محفل کا انعقاد ہوا جس میں خطہ خاندیش کے ساتھ ساتھ پورے ملک سے اہم اردو داں افراد نے شرکت کی ۔ یہ تقریب اردو کو درپیش مسائل اور ان کے حل کی تجاویز کیلئے منعقدہ سمینار کے ساتھ ساتھ معروف صحافی اور افسانہ نگار مشتاق کریمی کی خدمات پر مرتب کردہ کتاب کے اجراء سے عبارت تھی ۔سامعین سے کھچاکھچ بھرے ہال میں کتاب کی رو نمائی عمل میں آئی اور قومی سمینار کا انعقاد بھی کیا۔ سینئر صحافی اور شعبہ صحافت (جاگرن لیک سٹی یونیورسٹی بھوپال) کے پروفیسر ڈاکٹر مہتاب عالم نے اقرا ء ایچ جے تھیم کالج اوراُردو ریسرچ سینٹر کے زیر اہتمام منعقدہ قومی سمینار میں اپنے کلیدی خطاب میںکہا کہ ’’ہم اردو سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں مگر عملی اقدامات نہیں کرتے۔فروغ اردو کیلئے قائم کردہ اکادمیاں نام نہاد قلمکاروں کی تشہیر کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ کیا کوئی اردو اکیڈمی یہ اعداد و شمار پیش کر سکتی ہے کہ اس نے کتنے افراد کو اردو سکھائی ؟ کتنوں کو اردو ڈی ٹی پی سے واقف کروایا ؟ اگر ہم واقعی اردو کی ترقی چاہتےہیں تو سنجیدگی سے اردو کو سائنسی علوم سے جوڑنا ہوگا۔ اردو پرچوں کی خریداری کا سلسلہ شروع کرنا ہو گا اور تعطیلات میں بچوں کو موثر نصاب فراہم کرنا ہو گا تب کہیں جاکر اردو کی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں ۔‘‘ سمینار کے دوران ایس پی ڈی ایم کالج شیر پور کے صدر شعبہ اردو ڈاکٹر ساجد علی قادری کی، صحافی و افسانہ نگار مشتاق کریمی کے فن و شخصیت پر مرتب کردہ کتاب ’موج افکار: مشتاق کریمی‘ کی رونمائی عمل میں آئی۔ کتاب کے سر ورق کی رونمائی تعلیمی میدان میں برسوں سے خدمات انجام دینے والے صنعتکارعبدالمجید زکریا کے ہاتھوںہوئی جبکہ کتاب کا اجراء ڈاکٹر مہتاب عالم کے ہاتھوں عمل میں آیا ۔شمع فروزی ڈائمنڈ انگلش میڈیم اسکول (سائودہ) کے صدر ڈاکٹر شیخ ہارون اقبال نے کی جبکہ صدارت اور میزبانی کے فرائض ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے انجام دیے ۔
اس موقع پر پروفیسر عتیق احمد قریشی نے کہا کہ ’’اردو زبان میرا اور آپ کا تعارف ہے ۔یہ ہماری تہذیب کا حوالہ ہے اور تہذیب تعصب کی زد پر ہے ۔یاد رکھیں تہذیب ختم ہو گئی تو ہمارا تعارف بھی ختم ہو جائے گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ پتھر کا جگر چیرنے کا وقت ہے ۔ تہذیب اور اردو رسم الخط کی بقاء کیلئے ہمیں جنگ لڑنی پڑے گی۔
ڈاکٹر انصاری مسعود اختر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’اردو زبان در اصل پانی کی طرح ہے ۔ جیسے پانی ہر جگہ اور ہر ماحول میں اپنی جگہ بنالیتا ہے ویسے ہی اردو جس ماحول میں جاتی ہے وہاں ایڈجسٹ کرلیتی ہے بلکہ اپنے خزانے سے دوسروں کو سیراب بھی کرتی ہےاور اپنے اثرات دلوں پر ثبت کرتی دیتی ہے ۔اسکا دل بڑا وسیع ہے بالکل ہندوستان کی طرح۔ہمیں اس زبان اور اس کے ورثے کی حفاظت کرنی ہے۔
کتاب کے مرتب ڈاکٹر ساجد علی قادری نے کہا کہ’’ مردہ پرستی کے اس دور میں ہم نے نئی شمع روشن کی ہے۔مشتاق کریمی ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں اور اردو کی ایک بلند آواز ہیں ۔بس ان کے جذبات کو محسوس کیا جانا چاہئے ۔ اسے محسوس کرتے ہوئے ہم نے یہ کتاب ترتیب دی ہے جو ایک قلمکار کی خدمات کا اس کی زندگی میں ہی اعتراف ہے۔‘‘
خطے کے سینئر افسانہ نگار رشید قاسمی نے کہاکہ اردو کو قول کی نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے ۔اردو اخبارات اور رسائل کی خریداری کیلئے ہمیں مل جل کر کوششیں کرنی ہوں گی ۔ اس زبان کا ادب اور اس کے رسائل زندہ رہیں گے تو اس کی اشاعت ہوتی رہے گی۔
دھار ( ایم پی ) سے تشریف لائے شفیع نقشبند ی نے اپنے خطاب میں بتایا کہ ہمارے یہاں صرف مدارس میں اردو زندہ ہے جبکہ مہاراشٹر میں اردو کے تئیں ماحول دیکھ کر میرا جی چاہ رہا ہے کہ ایم پی چھوڑ کر مہاراشٹر میں بس جائوں کیوں کہ یہ اردو کی زندہ بستی ہے۔ خطہ خاندیش تو اردو کے زرخیز ترین علاقوں میںسے ایک ہے۔
معروف ماہر تعلیم حاجی انصار احمد نے کہا کہ مورخ اس دن کو فخر سے لکھے گا کہ مردہ پرستی کے زمانے میں جیتے جاگتے ،اردو دوست ، آوازِاردو مشتاق کریمی کے فن و شخصیت کو کتابی شکل میں ڈھالا گیا اور انہیں سچا خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس پروگرام سے خطاب کرنے والوں میں آکاش وانی جلگاؤں کے سابق پروگرام آفیسر جاوید انصاری نےخاندیش کے اردو پرچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ سیاستداں اردو کے تعلق سے جملے تو بڑے خوبصورت ادا کرتے ہیں مگر اردو کی ترقی کیلئے کوئی قدم نہیں اُٹھاتے۔ڈاکٹر آفاق انجم نے اردو کو درپیش مسائل پر گفتگو کی اور حل پر بھی روشنی ڈالی ۔ ڈاکٹر ایس ایم شکیل نے کہاکہ یہ کتاب مشتاق کریمی کی ہمہ گیرصلاحیتوں کا اعتراف نامہ ہے ۔انہوں نے اپنے علاقے کے قلم کاروں پر تحقیق کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیا۔سپریم کورٹ میں اردو کامقدمہ جیتنے والے شاہ بابو ایجوکیشن سوسائٹی( پاتور) کے صدر سید برہان الدین نے اس مقدمے کی تفصیلات بیان کیںجس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا ۔
صاحب اعزاز مشتاق کریمی نے ڈی ایڈ اور بی ایڈ کے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ’’ آپ لوگوں کے ہاتھوںمیں اردو کا مستقبل ہے۔بچوں کو بچپن سے ہی اردو کی گھٹی پلائیے۔اردو اِملا اور تلفظ درست ہوگا تو یقینی طور پر بچوں پر بھی اُس کے بہترین اثرات پڑیں گے ۔یہ مت سوچئے کہ سی سی ٹی وی ہمیں دیکھ رہا ہے بلکہ ہر لمحہ یہ ذہن میں رکھیے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی تاریخ خاندیش کے تذکرہ کے بغیر ادھوری ہی رہے گی ۔
اپنے صدارتی خطبہ میں ڈاکٹر عبدالکریم سالار نے کہا کہ اردو سب کی جان ہے۔ یہ دلوں تک پہنچنے والی زبان ہے۔ اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس کا پورا پورا حق ادا کریں۔روز محشر اس کا بھی سوال ہوگا۔اس سے قبل سمینار کا آغاز قاضی مزمل ندوی کی تلاوت قرآن پاک سے عمل میں آیا ۔اردو ریسرچ سینٹر کی انچارج پروفیسر کہکشاں نے افتتاحی کلمات ادا کئے ۔اس موقع پر ڈاکٹر مہتاب عالم ، ایس ایم شکیل ،ڈاکٹر ساجد علی قادری اور سید برہا ن الدین کو نشانِ اقراء ایوارڈ سے نوازا گیا۔ محمد عاصم راوی کو ’’مخلص معلم‘‘ ایوارڈ دیا گیا۔ ابتدائی جلسے کی نظامت پروفیسر مبشرنے کی جبکہ سمینار کی نظامت صابر مصطفیٰ آباد ی نے اپنی پاٹ دار آواز میں کی۔ پروفیسر وقار شیخ نے شکریہ ادا کیا۔ تقریب میں قیوم راز مارولوی، بلال حسین کاکر ،عبدالعزیز سالار ، خالد بابا باغبان اور زاہد شاہ بطور مہمان خصوصی موجود تھے۔