Inquilab Logo Happiest Places to Work

جب تک اَدیب بے ساختگی اور آزادی سے نہیں لکھتا ادبی تخلیق ناممکن ہے

Updated: June 15, 2025, 1:08 PM IST | Mumtaz Sheerin | Mumbai

ادبی تخلیق کو ذہنی ایمانداری سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ’’تخیل‘‘ قید میں بارآور نہیں ہوسکتا۔ جب ذہنی آزادی فنا ہوجاتی ہے، ادب مر جاتا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

اس دور میں ذہنی آزادی پر حملے دو طرف سے ہورہے ہیں۔ حکومت کے احتساب کا خوف تو ہے ہی، وہ جس خیال پر چاہے پابندی لگادے۔ اس کے ساتھ ہی ذرائع اظہار پر مکمل تملیک اور اجارہ داری بھی قائم ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس خیال کو، جسے ان کی خوشنودی حاصل نہیں، اظہار کا موقع نہیں ملتا۔ بالفرض محال اگر کسی طریقے سے ایک دبی سی آواز اٹھائی بھی جائے تو یہ ان کے ڈھنڈورے کے شور میں سنائی نہ دےسکے گی اور دَب کر رہ جائے گی۔ یہ لوگ انسانی فکر پر پہرہ بٹھا کر انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکنا چاہتے ہیں ۔ بحث و تمحیص کے یہ قائل نہیں، دلیلیں ان کے کام کی نہیں، دشنام طرازی ان کا شیوہ ہے لیکن آزادیٔ تحریر و تقریر کے لئے سب سے زیادہ شور و غوغا انہیں کی طرف سے بلند ہوتا ہے۔ یہ آزادی اپنے لئے مانگتے ہیں، دوسروں کے لئے نہیں، اور اپنے لئے بھی یہ آزادی صرف جھوٹ اور افترا پھیلانے کی آزادی ہے۔ 
مصیبت تو یہ ہے کہ ایک خاص قسم کے احتساب کے حق میں اور ذہنی آزادی کے خلاف جو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں ان میں سرے سے یہ سمجھا ہی نہیں جاتا کہ ادب کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ وہ ادیب کو ایک طرف یا تو تفریح نگار سمجھتے ہیں یا دوسری طرف محض پرچارک… جو کسی سیاسی پارٹی کی ہر آن بدلتی ہوئی پالیسی کے مطابق اپنی تحریریں بدل سکے۔ 
’’جبر‘‘ ادب پیدا نہیں کرسکتا۔ جب تک ادیب بے ساختگی اور آزادی سے نہیں لکھتا ادبی تخلیق ناممکن ہے۔ ادبی تخلیق کو ذہنی ایمانداری سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ ’’تخیل‘‘ قید میں بارآور نہیں ہوسکتا۔ جب ذہنی آزادی فنا ہوجاتی ہے تب ادب مر جاتا ہے۔ 
اب جہاں ذہنی آزادی کی بات آئی، تنگ نظری میں فوراً یہ تصور کرلیا جائے گا کہ اینگلو امریکن بلاک کے پلڑے میں وزن ڈالا جارہا ہے۔ اس لئے میں یہ واضح کردوں کہ یہاں ادب کی بات ہورہی ہے، خواہ وہ پرولتاری ادب کے علمبردار ہوں یا دوسری طرف وہ جو یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ ادب ڈیموکریسی کے نام پر سیاسی بنایا جائے۔ دونوں میں وہی بات مشترک ہے اور ان سب پر یہ منطبق ہوسکتا ہے جو ادب کو ایک خاص ڈگر پر چلانا چاہتے ہیں کہ ان کی ضابطہ پرستی سے ادب محض سیاست یا کسی خاص نظریے یا اس سے بھی تنگ حدود میں ایک پارٹی لائن کا محکوم بن کر رہ جائے۔ ادیب کو مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ اس پر سیاسی قوانین نافذ کرنا سیاسی مقصد کے لئے اس کی تخلیق کا گلا گھونٹنا ہے۔ 
جو ادیب ادب کو بالکل سیاست سے ہم آہنگ کرنے کے اصول کو مانتا ہے اور اپنی تحریروں میں اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے گویا سیاسی پروگراموں سے زندگی کو لینا پڑتا ہے۔ پہلے سیاست کو دیکھنا پڑتا ہے زندگی کو بعد میں، یہاں تک کہ اس کے لئے انسانوں کے درمیان معاشرتی اور انسانی تعلقات بھی ایک بنے بنائے نظریے کے مقابلے میں ثانوی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔ 
ادب کا تعلق زندگی سے ہے۔ سیاست زندگی کا صرف ایک جزو ہے۔ زندگی کے ایک شعبے کی حیثیت سے ادب میں سیاست کا بھی گزر ضرور ہے۔ یہاں ادب کو سیاسی نہ بنانے سے میرا مطلب صرف یہ ہے کہ ادب محض کسی آئیڈیولوجی کا آئینہ یا کسی سیاسی پارٹی کا آلۂ کار بن کر نہ رہ جائے۔ یہ بھی نہیں کہ ادب کا سیاست سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ یہ عجیب و غریب اور احمقانہ سی بات ہوگی اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ موجودہ دور میں ، جب دنیا تہ و بالا ہورہی ہے، ادب کسی گوشے میں چھپ کر پناہ لے سکے گا۔ آج ادب گوشۂ فراغت میں پناہ نہیں لے سکتا۔ اہم معاشرتی اور سیاسی مسئلوں سے گریز ناممکن ہے۔ ایک ادیب کے لئے سماجی اور سیاسی شعور لازمی ہے۔ موجودہ دور میں ایک بڑا اہم مسئلہ ادیب کے سامنے یہ ہے کہ اس کا اپنے معاشرے سے کیا رشتہ ہے؟ ادیب کا سماجی اور سیاسی شعور اس وقت بیدار ہے اس کے باوجود وہ ایک ادیب اور ایک دانشور کی حیثیت سے اپنے آپ کو سیاست میں اس طرح ضم نہیں کرسکتا جیسے کہ خالص سیاسی پارٹیوں کے ممبر کرسکتے ہیں۔ فنکار کی آزادیٔ اظہار کی خواہش اور سیاسی پارٹیوں کا محکوم بنادینے والا جبر اور احتساب! ٹریجڈی اسی تضاد کی ہے۔ 
 فنونِ لطیفہ کی ہر صنف میں فنی کارناموں کی تخلیق کرنے والے عموماً غیرمعمولی قابلیت کے افراد ہی ہوتے ہیں۔ ان کی تخلیقات پر اپنے معاشرتی اور سیاسی ماحول کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ پھر یہ بھی ایک انفرادی ذہن کی پیداوار ہوتی ہیں اور اصل تخلیق ایک فرد کے ذہن میں نازک نفسیاتی عمل کا نتیجہ ہوتی ہے۔ آپ ایک ادیب کو قید میں ڈال دیجئے، جسمانی طور پر قید میں ہونے پر بھی وہ لکھ سکے گا (بلکہ کئی ادیبوں اور بڑے آدمیوں نے کتابیں نظربندی کے دوران میں لکھی ہیں ) لیکن اس کی فکر پر پہرہ بٹھا دیجئے، اس کے ذہن کو ایک بیرونی احتساب کے ماتحت کردیجئے اور اسے مقررہ حدبندیوں میں جکڑ دیجئے کہ ’’یہ لکھنا چاہئے، اس پر لکھنا چاہئے، یوں لکھنا چاہئے‘‘ تو وہ یا تو ایک لفظ بھی لکھ نہیں سکے گا یا مجبوراً ہدایت کے مطابق لکھے گا بھی تو بے روح چیزیں لکھے گا، کسی جاندار فنی کارنامے کی تخلیق نہیں کرسکے گا۔ یہی وجہ ہے Totalitarian ملکوں میں اور جہاں ڈکٹیٹر اور حکومتیں فنکار اور ادیب کو ایک سیاسی سنسرشپ کے ماتحت رکھنا چاہتی ہیں، وہاں فن پنپ نہیں سکتا یا اس میں انحطاط اور پستی آجاتی ہے۔ 
نپولین نے اپنے دورِ حکومت میں فرانس میں سرکاری ادب نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس نے لکھا ’’میرا ارادہ فن اور ادب کی راہ ایسے موضوعات کی طرف موڑنا ہے جو ان پچھلے پندرہ برسوں (یعنی اپنے دور) کے واقعات کی یادگار ہمیشہ کے لئے قائم رکھ سکیں۔ ‘‘ اور اس دور میں بہت پست درجے کے ’’اوپرا‘‘ بنے۔ ادب کا بھی یہی حال تھا کیونکہ ادیب اور فنکار کو کچھ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اور اسے احکام کے مطابق کام کرنا پڑتا تھا۔ ایک ہی سال بعد نپولین نے خود اعتراف کیا کہ اس کے سرکاری ’’اوپرا‘‘ نے ادب اور فن کے معیار کو نیچے گرا دیا ہے۔ آخر نپولین اچھا ادبی ذوق رکھتا تھا، وہ خود ہی اپنے اس آفیشیل یعنی سرکاری ادب کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے پر مجبور ہوگیا۔ سینٹ ہیلینا میں اپنے آخری دنوں میں اس نے پھر راسین اور ہومر کی طرف رجوع کیا لیکن اس ادب کی ایک چیز بھی نہیں پڑھی جو اس کے اپنے عہد کی یادگار قائم رکھنے کے لئے اس نے خود ہی لکھوائی تھی۔ ادب کے متعلق اس رویے کی ناکامی کی اس سے زیادہ واضح مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟
ہٹلر نے ادب اور فن کے لئے ایک قومی معیار بنایا اور اس Dogma کی تبلیغ کی : ’’ ادب کی جڑیں قوم میں پیوست ہوتی ہیں۔ آرٹ تہذیب و تمدن کا زیور نہیں آرٹ قومیت کا امتحان اور ثبوت ہے۔ فنکار کو کسی زمانے یا وقت کی یادگار قائم نہیں کرنا چاہئے بلکہ اپنی قوم کی یادگار۔ ہم ایسے فن کاروں کو ڈھونڈ نکالیں گے اور ان کی حوصلہ افزائی کریں گے جو جرمن ریاست پر جرمن نسل کی کلچری مہر ثبت کریں گے۔ ‘‘ ہٹلر نے سارے ملک میں ادیبوں اور ہر قسم کے فنکاروں کی نگرانی کرنے کے لئے ایک منظم جماعت قائم کردی تاکہ اس پر نظر رکھیں کہ سارے فنکار اسی قومی معیار کے مدنظر انہیں اصولوں کے مطابق تخلیق کریں۔ اس نگرانی میں گسٹاپو کی بھی مدد لی جاتی تھی۔ اس رویے اور اس سلوک کا نتیجہ جتنا تباہ کن ہوسکتا تھا، ہوا۔ نازی فن اگر سستا اور بھونڈا پروپیگنڈا نہیں بنا تب بھی پھیکا، بے روح، بے جان اور مردہ رہا۔ 
نازی فن کی طرح اطالوی ’’فسطائی فن‘‘ کی بھی وہی حالت تھی۔ آمریت یعنی Totalitarian ریاستوں میں سارے عناصر پر ایک مرکزی تسلط ہوتا ہے، یہاں تک کہ جمالیاتی قدریں اور فن اور ادب بھی اسی تسلط اور سرکاری محاسبے میں جکڑے جاتے ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK