گرمیوں کی تعطیلات تھیں سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں تھے عصر کا وقت قریب آرہا تھا لیکن سورج کی کرنیں جیسے اب بھی جسم کو چھلنی کررہی تھیں۔
گرمیوں کی تعطیلات تھیں سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں تھے عصر کا وقت قریب آرہا تھا لیکن سورج کی کرنیں جیسے اب بھی جسم کو چھلنی کررہی تھیں۔ ذیشان بینک میں اکاؤنٹنٹ تھے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ نے اپنے بیٹے ذیشان اور بیٹی ساجدہ کو پڑھا لکھاکر ان کی نہایت عمدہ تعلیم و تربیت کی تھی۔ ساجدہ کی تین سال پہلے شادی کے چند ماہ بعد ہی اس کی والدہ نے اپنا رخت سفر باندھ لیا جیسے وہ اپنی بیٹی کے سسرال جانے کے لیے ہی زندگی کے باقی دن کاٹ رہی تھیں۔ رفتہ رفتہ ذیشان کو پتہ چلا کہ اس کی چہیتی بہن ساجدہ کی سسرال والوں نے زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور والدہ اسی غم کا بوجھ سینے پر لیے اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔ شروع شروع میں ذیشان کی بیوی نے اپنی چھوٹی نند کا خیال رکھا لیکن جب ساجدہ کو دو جڑواں بیٹیاں پیدا ہوئیں اور سسرال والوں نے اس پر ظلم و زیادتی میں اضافہ کردیا تو اسکا رویہ بدلتا چلاگیا۔ جب بھی ساجدہ پریشان ہوکر کچھ دن کے لیے بھائی کے گھر آتی سعیدہ دو چار دن میں ہی طعنے تشنے دے کر اس کا جینا محال کردیتی اور وہ روتی منہ بسورتی پھر اسی جہنم نما سسرال چلی جاتی۔
عفان ابو کے کمرے میں اور نبیلہ امی کے پہلو میں ان سے با تیں کرتے کرتے سو گئی تھی۔ تبھی کال بیل کی آواز پر امی کے اٹھتے ہی وہ بھی اٹھ بیٹھی تب تک امی دروازے تک جا پہنچی تھیں چند لمحوں بعد امی شاذ یہ باجی کو ساتھ لے کر کمرے میں داخل ہوئیں۔ باجی کو دیکھ کر وہ خوشی سے پلنگ سے اتری اور اپنی باجی سے لپٹ گئی ۔باجی نے پیار کرتے ہوئے اس کا ماتھا چوما اور گلے سے لگا لیا۔ ’’کیسی ہے میری گڑیا؟ ‘‘’’بہت اچھی ‘‘ آپ کیسی ہیں باجی؟‘‘ اچھا ہوا آپ آگئیں مجھے آپ کی بہت یاد آرہی تھی۔‘‘ کہتے کہتے اس کا گلا رندھ گیا ۔ تب تک امی پانی لا چکی تھیں۔ امی کو دیکھ کر شاذ یہ نے مسکراتے ہوئے پانی کا گلاس لے کر منہ سے لگا لیا اور تینوں ماں بیٹی وہیں بیٹھ گئیں۔ لیکن شاذ یہ کی آنکھوں میں نمی امی دیکھ چکی تھیں۔ ان کی باتیں سن کر عفان بھی آنکھیں ملتا ہوا امی کے کمرے میں آگیا اور باجی کو دیکھ کر خوشی سے دوڑتا ہوا باجی کے گلے میں جھول گیا ۔
ارے! ارے عفو.... بیٹے اب تم بڑے ہوگئے ہو ۔ذراآرام سے باجی گر پڑیں گی۔ امی نے مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے عفان کا ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا۔ عفان اب ساتویں جماعت میں پڑھتا تھا اور نبیلہ ساتویں کی طالبہ تھی۔ شاذ یہ کی شادی کو تین سال ہوچکے تھے اور وہ اپنے سسرال میں خوش تھی۔ اس کے سسرال جانے تک دونوں چھوٹے بھائی بہن کے ٹفن، اسکول کے لئے تیار کرنا، ہوم ورک کرانا اسی کی ذمہ داری تھی اور تینوں بہن بھائیوں میں بے انتہا محبت تھی۔’’شاذ یہ! تم فریش ہو جاؤ میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں ۔‘‘ تینوں بہن بھائیوں نے گھل مل کر خوب باتیں کیں، ہنسی کے فوارے بھی چھوٹے لیکن سعیدہ کے آتے ہی سب کے چہروں پرسنجیدگی آگئی۔سعیدہ نے دونوں بچوں سے کہا’’جاؤ! اپنے کمرے میں ہوم ورک کرو مجھے شاذ یہ سے کچھ باتیں کرنی ہیں ‘‘،نبیلہ اور عفان نے پہلے تو جانے سے انکار کیا پھر ایک دوسرے کو معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ دونوں ماں بیٹی میں کافی دیر تک اس کے اچانک میکہ آجانے پر ہی باتیں ہوتی رہیں اوراس دوران کئی مرتبہ سعیدہ شاذ یہ کو گلے لگا کر روتی اور اپنے ڈوپٹے سے آنسو پونچھتی رہی۔ شاذ یہ بھی روتی رہی۔ باتوں باتوں میں شاذ یہ نے جب اپنی اکلوتی پھوپھی ساجدہ کا ذکر کیا اس کا حال پوچھا تو تنک کر سعیدہ نے شاذ یہ کو چپ رہنے کے لئے تقریباً ڈانٹتے ہوئے کہا ’’ اپنے سسرال میں اچھی ہی ہوگی تم اپنا خیال رکھو ! اس وقت کہاں اس کا قصہ لے بیٹھی۔وہ جب بھی آتی ہے چار پانچ دن سے پہلے نہیں ٹلتی۔ یہاں ہمارے سینے پر مونگ دلتی ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتی کہ بھائی اکیلا کمانے والا ہے اس کے بچے بڑے ہورہے ہیں منحوس کہیں کی۔ شاذ یہ ماں کا منہ تکتی رہ گئی۔ جو بڑ بڑاتے ہوئے اپنے کمرے میں جاچکی تھی۔
ساجدہ اپنے کمرے میں آرام کی غرض سے لیٹی تو اس کے ذہن میں اپنی ماں کا رویہ اور اپنی اکلوتی پھوپھی ساجدہ کا خیال ستانے لگا۔ اس کی بیچارگی پر ترس آیا جو بچپن سے دکھوں اور مصیبتوں کا سامنا کرتی آرہی تھی۔ شاذ یہ کمسن تھی۔ جب پھوپھی کی شادی ہوئی تھی لیکن وہ جانتی تھی اور یہی سنتی آر ہی تھی کہ دو جڑواں لڑکیوں کی پیدائش کے بعد سے اس کی زندگی اور دشوار ہو گئی ہے۔ اسے اپنی خوش قسمتی،اپنے شوہر کی خوش مزاجی اور سسرال کی خوشحال زندگی پر فخر محسوس ہوتا لیکن بیچاری ساجدہ پھوپھو جو اپنے سسرال میں تکلیف اٹھاتی ہیں اور کچھ دنوں کے لئے ہی سہی بھائی کے گھر آتی ہیں تو سعیدہ کے رویہ کی وجہ سے یہاں بھی انہیں سکون نہیں ملتا تھا۔شاذ یہ دل ہی دل میں کڑھتی رہتی۔ اس کی اس پریشانی کا احساس اس کے شوہر کو بھی ہوچکا تھا۔ اس معاملے میں اسے بھی ساجدہ پھوپھو سے ہمدردی تھی سو اس نے ساجدہ سے کہا کہ وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ہے۔ یہ بات ساجدہ نے صرف اپنے والد کو شوہرکے ساتھ بنائے گئے منصوبے کا ہمراز بنایا تھا۔ اب اس منصوبے پر عمل کا وقت آچکا تھا۔ ان ہی خیالات کے چلتے نہ جانے کب وہ نیندکی آغوش میں چلی گئی۔
ایک ہفتہ گزر گیا، شاذیہ کے سسرال سے کسی کا فون نہیں آیا ، سعیدہ کی تشویش بڑھتی جارہی تھی دو دن پہلے اس نے ذیشان سے کہا کہ داماد سے بات کریں لیکن اس نے صاف منع کردیا اور کہہ دیا کہ دیکھتے ہیں ادھر سے کب تک فون نہیں آتا۔ عصر کی نماز کے بعد سب ساتھ بیٹھے چائے پی رہے تھے ۔ عفان اور نبیلہ بسکٹ اور چائے پر ہی بات کررہے تھے دونوں ماں کا روہانسا چہرہ دیکھ کر ایک پل کے لیے سنجیدہ ہوجاتے پھر اپنی مستی میں مصروف ہوجاتے۔ ذیشان نے اپنی بہن ساجدہ سے گھر کے حالات پوچھے اور اچانک آجانے پرپوچھا کہ اس کی طرف سے کہیں کوئی کوتاہی ہوگئی یا پھر ساس سسر کی ناراضگی تو نہیں ؟
بیٹی کی حمایت کرتی ہوئی سعیدہ نے بیچ میں ہی ٹوکتے ہوئے کہاکہ میری بیٹی کو الزام دینے سے پہلے اس کے معصوم چہرے کی طرف دیکھو ۔ ہاں۔بھئی ! ہاں میں جانتا ہوں میری شاذ یہ بہت معصوم ہے اور سمجھدار بھی میں تو بس یونہی ۔۔۔ ‘‘ذیشان جیسے ہکلا کر رہ گیا
دو تین بعد شاذ یہ نے سسرال جانے کی بات کی اور اپنے شوہر کے فون کا تذکرہ کیا جس پر سعیدہ نے صاف انکار کیا اور کہنے لگی جب تک سسرال سے کوئی لینے نہیں آئےگا میں تمہیں نہیں بھیجوں گی ۔کیا یتیم لاوارث سمجھ رکھا ہے میری پھول سی بچی کو ۔‘‘
دو چار دن سعیدہ زیادہ تر خاموش ہی رہی کیونکہ بیٹی کے اچانک آجانے سے وہ مسلسل پریشان تھی۔اس دوران جب بھی ساجدہ کا فون آتا شاذیہ اپنی پھوپھی کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہتی کہ بیچاری پھوپھو کا دل کیا کہتا ہوگا ان کے تو والدین بھی نہیں ہیں۔لے دے کر ہم ہیں ہمیں ان کاخیال رکھنا چا ہئے۔ سعیدہ ایک لمحہ کے لیے سوچنے پر مجبور ہوجاتی کہ یہ بھی سچ کہہ رہی ہے۔ ایک دن دوپہر میں موقع دیکھ کر ذیشان نے سعیدہ سے اپنی بہن ساجدہ کے ساتھ اس کےسسرال والوں کے رویے اور شوہر کی عدم توجہی کی بات کی اور پہلی مرتبہ اپنی بیوی کی باتوں میں اپنی بہن ساجدہ سے ہمدردی اور اپنائیت محسوس کرتے ہوئے وہ دل ہی دل میں مسرور ہو اٹھا۔
چار دن بعد داماد کا پھر فون آیاکہ وہ شاذیہ کو دو تین روز بعد لینے کے لیے آنا چاہتا ہے ۔ ذیشان نے بھی سعیدہ کو سمجھایا کہ غصہ تھوک دو اور بیٹی کو جانے دو۔ ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ داماد کے سامنے شاذ یہ کے اچانک آجانے کا ذکر مت کرنا اور اپنی ناراضگی کا اظہار بالکل مت کرنا ۔ میں اپنے طور پر بات کروں گا۔ پھر ایک دن سعیدہ نے ذیشان سے کہا ’’ اجی سنیے میں کیا کہتی ہوں۔ شاذ یہ سے ملنے کے لیے ساجدہ کو بھی بلا لیجیے ۔ ایک دو دن بچوں کے پاس رہیں گی تو دل بھی پیچھے پڑ جائے گا۔‘‘ذیشان کو اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھاکہ آخر پتھر پگھل ہی گیا ۔ ذیشان کواپنے بچوں کےساتھ بنایا گیا منصوبہ کامیاب ہوتا دیکھ کر مسرت ہوئی۔فرط جذبات سے اس کی انکھوں میں آنسو آگئے اس نے کسی طرح اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا’’ہاں.... ہاں !کیوں نہیں میں ابھی فون کرتا ہوں۔ شام تک ساجدہ آجائےگی وہ لوگ تو اسے ٹالنے کا بہانہ ہی ڈھونڈتے ہیں۔‘‘ تینوں بہن بھائی خوشی سے جھوم اٹھے۔ ذیشان اور تینوں بچوں کا یہ منصوبہ تھا۔ جس میں اہم رول شاذ یہ اور اس کے شوہر کا بھی تھا ۔بالآخر سعیدہ کو راہ راست پر لانے میں وہ کامیاب ہوگئے تھے۔ تینوں بہن بھائی خوشی سے ایک دوسرے سے لپٹ گئے ذیشان نے آگے بڑھ کر تینوں کو لپٹا لیا۔ سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔رات کے کھانے میں شاذ یہ، نبیلہ اورعفان کے ساتھ اپنی بہن اور اس کی لڑکیوں کو دیکھ کر ذیشان کے چہرے کی چمک دیکھنے لائق تھی۔ سعیدہ ،شاذ یہ کے ساتھ ساتھ اپنی نند ساجدہ سے بڑی اپنائیت سے باتیں کررہی تھی اور بڑے پیار سے کھانا کھلا رہی تھی۔