Inquilab Logo

افسانہ: ایک انمول تحفہ

Updated: March 20, 2024, 11:20 AM IST | Saba Jamali | Mumbai

آج صبح ہی سے نوشین کتابوں کی الماریوں کی صفائی میں لگی ہوئی تھی مگر پرانی کتابوں کو ہٹانے اور نئی کتابوں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

آج صبح ہی سے نوشین کتابوں کی الماریوں کی صفائی میں لگی ہوئی تھی مگر پرانی کتابوں کو ہٹانے اور نئی کتابوں کے لئے جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ پرانی کتابوں کو نکال کر الگ رکھ رہی تھی کہ اس کی نگاہ ایک پرانی ڈائری پر رک گئی۔ یہ ڈائری تو امی کی ہے۔
 ’’امی.... امی.... آپ آیئے....‘‘ نوشین نے آواز لگائی، ’’امی! یہ ڈائری تو آپ کی ہے نا؟‘‘ مَیں نے جلدی سے ڈائری اس کے ہاتھوں سے لے لی۔
 ’’امی! اس ڈائری میں خطوط ہیں۔ یہ بہت پرانی ڈائری ہے۔ اسے ردی میں ڈال دیجئے۔‘‘
 ’’نہیں نوشین، ہرگز نہیں۔ یہ بہت قیمتی ہیں، انمول ہیں۔‘‘ مَیں نے کہا۔
 ’’امی ان پرانے خطوط کا کیا کریں گی؟ اب تو سارے کام موبائل اور انٹرنیٹ سے ہوجاتے ہیں۔ ان کون کس کو خط لکھتا ہے؟‘‘
 ’’نوش! تمہارے سارے کام موبائل اور انٹرنیٹ سے ہو جاتے ہوں گے۔‘‘ مَیں نے خفا ہو کر کہا، ’’جو خلوص و محبت خط لکھنے اور پڑھنے کی دنیا میں تھا وہ اس انٹرنیٹ کی دنیا میں نہیں۔‘‘
 ’’امی ایسا کیا ہوتا ہے تھا خط میں، جو آج بھی ان خطوط کو اتنا سنبھال کر رکھتی ہیں؟ خط کیا ہے؟ یا یوں کہئے کہ خط و کتابت کسے کہتے ہیں؟ کچھ تو بتایئے؟‘‘ نوشین بضد تھی۔ اس کا یہ اشتیاق دیکھ کر مجھ سے بھی رہا نہ گیا۔ مَیں نے اُسے نایاب ہوتے خطوط کے بارے میں بتانے لگی:
 خط عربی زبان کا لفظ ہے۔ خط کے لغوی معنی نامہ۔ چٹھی یا انداز تحریر کے ہیں۔ اصطلاحی معنوں میں خط دو افراد کے باہمی مکالمے، ترسیل اور خیالات کے اظہار کا ایک وسیلہ ہے۔ ڈکشنری آف ورلڈ لٹریچر میں خط کی تعریف اس طرح کی گئی ہے: خط عام طور سے مکتوب نگاہ یعنی پہلا آدمی اور مکتوب الیہ یعنی دوسرے آدمی کے درمیان تبادلہ خیال کا ذریعہ ہے ا س لئے خط کو آدھی ملاقات کا درجہ بھی دیا جاتا رہا ہے۔
 اب تم یہ جاننا چاہو گی کہ اُردو کا پہلا خط کب اور کس نے لکھا؟ یہ بتانا ذرا مشکل ہے اتنا ضرور کہہ سکتی ہوں کہ خطوط کے ابتدائی نمونے دکن میں ملتے ہیں، یہ ضرور ہے کہ جب تحریر وجود میں آئی ہوگی اور دور دراز کے علاقوں میں بسنے والے انسانوں کو اپنے خیالات ایک دوسرے تک پہنچانے کی ضرورت پیش آئی ہوگی تو خطوط نویسی کا آغاز ہوا ہوگا۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جوں جوں زندگی کے تقاضے بڑھتے گئے خطوط نویسی کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اسی بنا پر آج خطوط کو ادب میں ممتاز صنف کی حیثیت حاصل ہے۔
 خطوط ایک شخصی اور ذاتی تحریر ہوتی ہے اسی لئے اس میں انسان کی ساری شخصیت جلوہ گر ہوتی ہیں۔ زندگی کے ہر پہلو یعنی ملک و تاریخ، تہذیب و معاشرت کو جاننے کے لئے خطوط انتہائی کارآمد اور مفید ذریعہ ثابت ہوتے رہے ہیں۔
 خطوط نویسی میں القاب و آداب کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ مثلاً عزیز دوست، برخوردار، بھائی جان، جانِ من، بھائی میاں وغیرہ وغیرہ۔ لمبے لمبے القاب و آداب کا بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ خط کے آخر میں مکتوب نگار اپنا نام لکھتا ہے۔ نام سے پہلے بعض اختتامی کلمات مثلاً فقط و السلام آپ کا بیٹا، خادم، خاکسار، دعاؤں کا طالب، جواب کا طلبگار وغیرہ وغیرہ۔ خط کے آغاز میں سلام و آخر میں دعا کی روایت ہے۔
 آج سے ۲۵؍ سے ۳۰؍ سال پہلے تک لوگوں کی خیریت دینے اور لینے کا ذریعہ صرف خط و کتابت ہی تھی۔ ڈاکیہ جو لوگوں کے خطوط کو گھر گھر پہنچاتے تھے۔ ہم مزید گہرائی میں جائیں تو خط پہنچانے کا کام انسانوں کے علاوہ پرندوں سے بھی لیا جاتا تھا۔ لوگ خطوط کے منتظر ہوتے تھے۔
 گھر میں ایک خط بھی آجائے تو اس کو باری باری پڑھتے اور سناتے تھے۔ پڑھنے کے بعد سنبھال کر رکھا جاتا تھا۔ خط رکھنے کی ایک جگہ مقرر ہوتی تھی۔ خطوط میں طرح طرح کی ہدایتوں کے ساتھ ساتھ خط جلدی لکھنے کی تاکید کی جاتی تھی۔ابو اور امی کی نصیحتوں بھرے خطوط بار بار پڑھے جاتے تھے۔ اچھے برے موقع پر اپنوں کے خطوط پڑھ کر بڑی تسلی ملتی تھی۔
 خیر یہ تو رہی خطوط کے بارے میں مختصر باتیں جن کی اس دور میں یعنی آج کے دور کوئی اہمیت نہیں رہی۔ قلم اور کاغذ کا بھی دور نہیں رہا۔ دنیا نے بہت ترقی کر لی ہے۔ انٹرنیٹ کا بول بالا ہے۔ کمپیوٹر اور موبائل فون نے ہر گھر میں جگہ لے لی ہے۔ آج بچے بچے انٹرنیٹ سے پوری طرح واقفیت رکھتے ہیں۔ ملک اور بیرون ملکوں کی خبریں پل بھر میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہیں۔ جدید اور قدیم ہر چیز نیٹ پر موجود ہے کسی کو کہیں نہ جانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی کو وقت دینے کی، لوگ اپنے دائرے میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ رشتہ داری نبھانے کا جو قدیم طریقے فن تھا وہ دھیرے دھیرے ختم ہوتا جا رہا ہے۔
 رہی بات ان پرانے خطوط کی تو مَیں کبھی کبھار ان پرانے خطوط کو ہی پڑھ کر ان پرانے لمحوں کو جی لیتی ہوں۔ لوگوں کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں اور یہ غزل گنگنانے لگتی ہوں:
 ’’چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس جہاں تم چلے گئے....‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK