Inquilab Logo

تھوڑا سا کاغذ

Updated: May 07, 2024, 3:03 PM IST | Zakia Mashhadi | Mumbai

’’کیا بات نہیں مانتے پھپو۔ کہہ کے تو دیکھئے۔‘‘ ’’اُردو کیوں نہیں پڑھتیں؟‘‘ ’’پڑھتے تو تھے!‘‘ ’’پڑھتے تو تھے اپنا سر۔ کچھ مہینوں تک گھنٹہ آدھا گھنٹہ بیٹھ کر مولوی صاحب کے ساتھ ریں ریں کر لیا تھا۔ میرے پاس بیٹھ کے پڑھو۔ دیکھو بیٹا۔ اتنی اچھی اچھی کتابیں اس آنبوس کی الماری میں بھری ہیں۔ تمہارے دادا کی چھوڑی ہوئی اچھی خاصی لائبریری ہے۔‘‘

Photo: INN
تصویر: آئی این این

ممدو کباڑی نے اپنا ٹھیلا لاکر ٹھیک صدر دروازے کے پاس لگایا تو معظم کو معاً خیال آیا کہ آج اتوار تھا کیونکہ ممدو اتوار کو ہی آیا کرتا تھا۔
’’آگئے ممدو؟‘‘ اندر سے معظم کی بیوی تاجور نے ذرا زور سے پکار کر کہا اور پھر خود بھی باہر آگئی۔
’’دیر لگے گی۔‘‘
’’معلوم ہے۔‘‘ ممدو کے لہجے میں سنجیدگی تھی۔ موت کے احترام میں پیدا ہونے والی سنجیدگی۔ وہ معظم کے والدین کے وقت میں ایک نوجوان، مسیں بھیگتا ہوا، لڑکا تھا اور معظم کی سب سے بڑی بہن ریشماں سلطان عرف ریشم کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہوا تھا۔ ہر دو تین ماہ پر کسی اتوار کو اپنا ٹھیلا لے کر آکھڑا ہوتا۔ تاجور ان دو تین مہینوں کی ردی نکالتے وقت اچھی طرح دیکھ لیتی تھیں کہ پھوپی کا کوئی پرچہ اس میں نہ چلا جائے۔ پھر بھی ممدو کی آواز سن کر پھوپی چیل کی طرح وہاں پہنچ جاتیں اور ایک ایک کرکے ساری ردی کنگالتیں کہ کہیں ان کا کوئی رسالہ، کوئی کتاب یا مطلب کی کوئی اور چیز اس میں نہ چلی گئی ہو۔ کبھی کبھی وہ اخبار کے تراشے بھی نکال کر رکھ لیا کرتی تھیں۔ مضمون تراشنے کا موقع نہ ملتا تو اخبار ہی تہہ کرکے الگ رکھ دیتیں۔ ایسے تراشوں کی نہ جانے کتنی فائلیں تھیں ان کے پاس۔ وہ ردی کے پاس پھیل کر بیٹھ جاتیں تو منہ چڑھا ممدو جھنجھلاتا۔ تاجور دبی دبی ناراضگی کا اظہار کرتیں لیکن جب تک پھوپی ساری ردی یکھ کر اطمینان نہ کرلیں تب تک وہ ممدو کی ترازو پر چڑھ نہیں پاتی تھی۔

یہ بھی پڑھئے: افسانہ: قرض

ملازم بازوؤں میں بھر کر ایک بھاری بوجھ لے کر آیا اور ایک زور دار دھپ کی آواز کے ساتھ زمین پر پٹخا۔ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ معظم وہاں آکر کھڑے ہوگئے تھے۔ انہوں نے ایک دو شمار اٹھائے۔ کرم خوردہ، زرد صفحے۔ ہاں کیا کرنا ہے ان کا۔ ذہن میں خاموشی سے دہرایا۔
دوسرا گٹھر۔ آج کل
تیسرا، بیسویں صدی
چوتھا، شب و خون
پانچواں، نقوش
مختلف صوبائی اکادمیوں کے ذریعہ نکالے جانے والے پرچے، خواتین ڈائجسٹ، مذہبی رسالوں کی فائلیں۔ دین دنیا، آستانہ، الحسنات۔
بچوں کے رسالے کھلونا، کی بیس پچیس سال کی مکمل فائلیں، ایک اور بڑا گٹھر۔
’’پھپھو آپ کی ردی بکے تو ہم دونوں کا یہاں سے دلی تک کا ہوائی جہاز کا کرایہ نکل آئے۔‘‘ معظم کی چھوٹی بیٹی عنبریں نے جو پھپو کی لاڈلی تھی، ایک مرتبہ کہا تھا۔
پھپو ناراض نہیں ہوئیں۔ مسکرا کر بولیں، ’’دلی جا کر کیا کرو گی بیٹی؟‘‘
’’کچھ بھی کریں۔ ہوائی جہاز پر مفت میں چڑھ تو لیں گے۔ امی تو کرایہ دینے سے رہیں۔‘‘
’’میری کتابوں کو ردی کہتی ہو؟‘‘ پھوپی کبھی کبھی سنجید بھی ہوجایا کرتی تھیں۔
’’اور نہیں تو کیا۔ باوا آدم کے وقت کی کتابیں۔ سن ۴۵ء تک میں چھپے ہوئے رسالے۔ چلئے سال دو برس پرانے رکھ بھی لئے لیکن سن پینتالیس۔‘‘
’’یہ ابا کے وقت ہیں بیٹا۔ وہ پابندی سے لیا کرتے تھے۔ ہم نے سنبھال کر رکھ لئے۔‘‘
’’اٹھارہ سو پینتالیس کے پھوپی؟‘‘ بڑی بیٹی نوشین نے لقمہ دیا اور دونوںکھلکھلا کر ہنس پڑیں۔
’’اٹھارہ سو پینتالیس میں ہماری پھپھو نے میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ وہ ایشیا کی پہلی عظیم خاتون ہیں جنہوں نے اتنی تعلیم حاصل کی۔‘‘ نوشین نے بالکل کسی نیوز ریڈر کے انداز میں بیان کیا۔
’’اٹھارہ سو پینتالیس۔ ارے میں اتنی پرانی روح ہوں؟ انسان ہوں یا پھوت پلید؟‘‘ وہ زور سے ہنسیں۔
’’آپ ہماری ریشم پھپو ہیں۔‘‘ دونوں ان کے گلے میں جھول گئیں۔ ’’بھوت پلید ہوں آپ کے دشمن۔‘‘
’’چپو کٹنیو! بات تو مانتی نہیں۔ بس جھوٹ موٹ کا کٹناپا۔‘‘
’’کیا بات نہیں مانتے پھپو۔ کہہ کے تو دیکھئے۔‘‘ ’’اُردو کیوں نہیں پڑھتیں؟‘‘
’’پڑھتے تو تھے!‘‘
’’پڑھتے تو تھے اپنا سر۔ کچھ مہینوں تک گھنٹہ آدھا گھنٹہ بیٹھ کر مولوی صاحب کے ساتھ ریں ریں کر لیا تھا۔ میرے پاس بیٹھ کے پڑھو۔ دیکھو بیٹا۔ اتنی اچھی اچھی کتابیں اس آنبوس کی الماری میں بھری ہیں۔ تمہارے دادا کی چھوڑی ہوئی اچھی خاصی لائبریری ہے۔‘‘
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف آنکھوں ہی آنکھوں میں دیکھا، ’’بھاگ لو یہاں سے۔ چالو ہوگئیں پھپو۔‘‘
آنکھوں نے کہا، ’’وہ تو درست ہے لیکن اب یہ سب کون پڑھے گا۔‘‘ ایک مرتبہ معظم نے دبی زبان سے کہا تھا۔ ’’داستان امیر حمزہ، داستان چہار درویش، فسانہ آزاد، سیر کہسار، شریف زادہ، ابن الوقت، امراؤ جان ادا، پھر علامہ راشد الخیری، ایم اسلم، حجاج امتیاز علی، اور تو اور ابن صفی، صاد ق صدیقی سردھنوی کی ہر تصنیف۔ روسی مصنفین کے اُردو ترجمے اور ترجموں پر یاد آئے منشی تیرتھ رام فیروز پوری.... کتنی کتابیں خریدتے تھے ابا۔ ادب، تاریخ، فلسفہ، حکمت، سارا کچھ اُردو میں۔ ابا ملازمت کے سلسلے میں کافی دن پنجاب رہ چکے تھے۔ وہاں ان کے ایک بزرگ دوست تھے منگت رام نیر جو اُردو کے عاشق تھے۔ سیکڑوں کتابیں جمع کر رکھی تھیں۔ ایک بار ابّا سے بولے: خاندان میں میرے بعد ان کتابوں کا کوئی قدر دان نہ ہوگا۔ صدیقی، تم مجھ سے عمر میں چھوٹے ہو، تم انہیں لے جاؤ۔ میرا کیا۔ کب ٹپک جاؤں۔ سوچ کے افسوس ہوتا ہے۔ دیمک لگے گی یا ردی میں بکیں گی۔‘‘
’’آپ سمجھتے ہیں میرے بعد میرے یہاں قدردانی ہوگی؟‘‘
’’امید تو ہے۔‘‘ ’’امید فضول ہے آپ کی۔‘‘
ابا ان سے کچھ چنندہ کتابیں لے آئے تھے بمشکل ایک فیصد۔ پھر بھی ایک بڑا ٹرنک تھیں۔
کاٹھ کباڑ اکٹھا کرنے کی عادت ٹھہری۔ معظم نے دل ہی دل میں کہا تھا۔ اب مکان سکڑ رہے ہیں۔ پہلی جیسی جگہیں کہاں۔ تاہم، معظم کی نسل کی اولادیں برملا گستاخی سے پرہیز رکھتی تھیں۔ اس نے ناک بھوں تو چڑھائی لیکن بولا کچھ نہیں۔
ابا کی کتابوں میں اپنی کتابوں کا اضافہ کرکے وراثت کو سنبھالا تھا ریشم پھوپی نے۔ طب یونانی، فلسفہ، ویدوں اور گیتا کے اُردو و فارسی ترجمے۔ ابا ایسی دقیق تصنیفات پڑھتے رہتے تھے۔
’’آپا کیا پڑھتی رہتی ہیں۔‘‘ معظم اپنی زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ کہتے۔
’’پھپو اگر دیمک چٹی کتابوں والی الماری خالی کر دیں تو اس میں شیشے لگوا کر ڈرائنگ روم میں رکھا جائے۔ ممی نے اتنے سارے ڈیکوریشن پیسز اکٹھا کر رکھے ہیں۔‘‘ معظم کے بیٹے نے کئی بار تجویز پیش کی تھی۔
کتابیں بے شک دیمک چٹی تھیں اور بڑی ہی غیر دلکش جلدوں والی لیکن دادا کی چھوڑی ہوئی الماری تو آنبوس کی لکڑی کی تھی۔ پرانے طرز کی نقاشی والے بھاری فرنیچر کا بے حد دلکش نمونہ۔ وہ تو بذات خود ایک آرائش تھی۔
’’اب کی آموں فصل بک کر میرے حصے کے روپے آئیں تو مَیں ان سب کتابوں پر خوبصورت چمڑے کی جلدیں چڑھوا دوں گی اور الماری کے درمیانی حصے میں شیشے لگوا دوں گی۔ پھر تم اسے ڈرائنگ روم میں رکھ لینا۔‘‘ پھوپی نے پیشکش کی۔ ’’پھپو کی جو بات ہے وہ نرالی۔‘‘ اعظم نے منہ پھلا لیا، ’’بھلا ان کتابوں پر مزید پیسہ پھینکنے کی کیا ضرورت ہے۔ اسے کہتے ہیں گوبر میں گھی سکھانا۔‘‘
پھپو کو اس گوبر میں گھی سکھانے والے محاورے سے قلبی اذیت پہنچی۔ اس بیش قیمت اثاثے کو یہ آج کے نوجوان گوبر سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے گلے میں پھنستے گولے کو نگلا۔
’ایں چہ شوریست کہ در دور قمری می بینم‘
اسی میں تو آگے حافظ نے یہ بھی کہا تھا کہ لڑکیاں ماں کی بات نہیں مانتیں اور لڑکے بزرگوں کے ساتھ بے ادبی سے پیش آتے ہیں۔ پرانی اور نئی نسلوں کا ٹکراؤ تو صدیوں سے چلا آرہا ہے مگر پھوپھی اور ان کی ماں کے بیچ جو ٹکراؤ تھا وہ بادی النظر میں دکھائی نہیں دیتا تھا اس لئے کہ اس وقت کی اقدار سوچ پر پہرے خواہ نہ بٹھا سکیں لیکن دریدہ دہنی کی اجازت نہیں دیتی تھیں اور یہ بھی تھا کہ اماں بالکل جاہل تھیں۔ پھوپی سوچتی تھیں وہ پڑھی لکھی ہیں۔ وہ جب ماں بنیں گی یا بزرگ تو ان کے اور اگلی نسل کے درمیان خیالات و افکار کا یہ بعد نہیں رہے گا۔

یہ بھی پڑھئے: بچوں کے اندازِ گفتگو کو نکھارنے پر آپ کی توجہ ضروری

لیکن خیالات و افکار کا بعد کیا محض تعلیم کے ہونے نہ ہونے سے پیدا ہوتا ہے یا زمانہ اسے خود بخود پیدا کرتا ہے؟ رہی زبان تو اس میں نئے الفاظ آجائیں۔ طرز میں تبدیلی آئے۔ لیکن زبان کہیں مرا کرتی ہے؟ پھپو نے شروع سے ہی معظم کی دلہن تاجور کو تاکید کی تھی کہ بچوں کو اُردو پڑھوائیں۔ وہ ہر بار کنی کاٹ گئیں ’’آپا ریشم، اب آج کل لڑکیوں کو اتنی فرصت کہاں ہے۔ ذرا کورس دیکھئے۔ اب سی بی ایس ای کے دسویں کے کورس میں اتنا سائنس پڑھا رہے ہیں جتنا ہم نے انٹرمیڈیٹ میں بھی نہیں پڑھا تھا پھر یہ کہ تینوں بچے پروفیشنل کورسیز کے امتحانوں کی تیاری میں لگے ہیں۔ دس سے بارہ گھنٹے کی محنت۔ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ۔‘‘
 تاجور نے پورا لیکچر ہی دے ڈالا تھا۔
 ریشم پھوپی نے یہ کہنے کا ارادہ ملتوی کر دیا کہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان کی اہمیت کبھی کم نہ ہوگی اور جس زبان کو بولنا آتا ہے اسے لکھنا اور پڑھنا سیکھنے کے لئے کوئی محض آدھا گھنٹہ روز صرف کر دے.... گھڑی دیکھ کر صرف آدھ گھنٹہ تو اتنا ہی کافی ہوگا۔ آخر یہ تینوں جب کورس کی پڑھائی ختم کر لیتے ہیں تو کوئی انگریزی ناول لےکر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ ناول اُردو کا بھی ہوسکتا ہے۔
 تاجور دل ہی دل میں کتنا بھی جھنجھلائیں لیکن شوہر کی ماں جیسی بزرگ، بڑی بہن سے کبھی بدتمیزی سے بات نہیں کی تھی۔ پھوپھی کو اس کا خیال تھا۔
بدتمیزی تو اپنی بیٹی مرینہ ہی کر لیا کرتی تھی۔ وہ تقریباً معظم کی عمر کی تھی۔ ریشم پھوپی بھری جوانی میں بیوہ ہوگئی تھیں۔ مرینہ اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ ماموں، بھانجی ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے تھے پھر اماں کا جلد ہی انتقال ہوگیا تو ریشم پھوپی نے معظم کو ماں کی کمی کا احساس کبھی نہیں ہونے دیا تھا پھوپی کے شوہر اچھی سرکاری ملازمت میں تھے۔ ان کے بعد فیملی پنشن ملتی رہی۔ آبائی جائیداد میں بھی پھوپی کا حصہ تھا اس لئے جب معظم کا اپنا کنبہ ہوا بچے ہوگئے تب بھی پھوپی کے ساتھ رہنے پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ وہ کسی پر بوجھ نہیں تھیں۔ نہ ہی مرینہ کی شادی میں کوئی مالی دقت پیش آئی۔ مگر جس کا چہرہ دیکھ دیکھ کر انہوں نے جوانی کاٹ دی تھی وہ بچی شادی ہونے کے کچھ ہی سال بعد امریکہ روانہ ہوگئی اور اس میں اس کے شوہر سے زیادہ اس کی اپنی خواہش کا دخل تھا اور وہاں کا چکا چوندھ کا، ایک ڈاکٹر کے بے پناہ پیسہ کمانے کے امکانات کا۔ تب سے وہ بے حد دلگرفتہ اور اداس رہا کرتی تھیں۔
 دل بہلانے کے لئے انہوں نے محلے کی کچھ بچیوں کو مفت اُردو پڑھانی شروع کی تھی۔ وہ کچھ دن آتیں پھر غائب ہوجاتیں۔ ’’ابتدائی ہندی، انگریزی، میتھس وغیرہ پڑھا دیا کیجئے تو آئیں بھی۔‘‘ معظم کی تجویز تھی۔
’’ان مضمونوں کے لئے لوگ پیسہ خرچ کرلیں گے اُردو مفت پڑھاتی ہوں اس لئے دو چار آبھی جاتی ہیں۔ ان کی دلیل تھی، اُردو کے لئے ٹیوشن نہ رکھے گا کوئی۔‘‘
مرینہ نے ان سے کئی بار کہا کہ وہ امریکہ آجائیں۔ ایک بار گئی تھیں۔ ایسا خفقان ہوا کہ ویزا کی مدت پوری ہونے سے پہلے بھاگ آئیں پھر انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ مرینہ کے اصرار میں شدت اس وقت آئی تھی جب اس کے یہاں بچہ ہونے والا تھا۔ پھر اس کی ایک سسرالی عزیز خاتون نے جو عمر دراز کنواری اور بھائیوں پر بھاری تھیں، امریکہ جانا منظور کر لیا اور اس کے ایک کے بعد ایک ہونے والے تینوں بچوں کو سنبھال دیا تب مرینہ نے ان کو امریکہ بلانے کی ضد چھوڑ دی۔دو تین سال میں ایک بار خود ہی پندرہ دن کو آجاتی تھی۔ ہفتہ بھر سسرالی رہتی اور ہفتہ بھر ماں کے پاس۔
’’اتنا ہی بہت ہے۔‘‘ ریشم پھوپی ٹھنڈی سانس لے کر کہتیں۔ وہ چلی جاتی تو اس کا انتظار شروع ہوجاتا۔ ایک ایک دن گنا کرتی تھیں۔ کبھی دو سال کے تیرہ سو تیس دن اور کبھی تین سال کے ایک ہزار پنچانوے جمع تھوڑے سے اور۔ تب مرینہ اور اس کے بچوں کی صورتیں دکھائی دیتیں۔
 ’’مرینہ، انہیں اُردو سے نابلد مت رکھنا۔ اُردو ضرور پڑھانا۔‘‘ انہوں نے ہر مرتبہ کہا تھا۔
’’بڑھاپے میں کیا سبھی لوگ سٹھیا جاتے ہیں؟ مَیں بھی سٹھیاؤں گی کیا؟ مجھے تو سوچ کر گھبراہٹ ہوتی ہے۔‘‘ مرینہ نے جواب دیا تھا، ’’آخر کتنی بار کہیں گی ایک ہی بات۔‘‘
 اس مرتبہ جو مرینہ واپس گئی تو ریشم پھوپی کو پہلا دل کا دورہ پڑا تھا اور اس دن بھی وہ کتابوں کے ڈھیر پر چڑھی بیٹھی کسی نایاب کتاب کے نسخے کو تلاش کر رہی تھیں جو بہزار دقت ابّا میاں نے کہیں سے حاصل کیا تھا۔
معظم کی بیوی تاجور حسب ِ معمول منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی گھوم رہی تھی۔ ’’اب آج پھر انہوں نے یہ کھڑاگ پھیلا رکھا ہے۔ شام کو معظم کے کچھ دوست مع بیویوں کے آنے والے ہیں صفائی میں دیر ہو جائے گی اور کیا تعجب جو آدھی کتابیں وہ یونہی باہر پڑی چھوڑ دیں کہ کل اٹھائی جائیں گی، کوئی چھونا مت۔‘‘
اس دن آدھی کیا ساری کتابیں باہر نکلی رہ گئیں۔ پھوپھی اچانک سینہ پکڑ کر ان پر دہری ہوگئی تھیں۔ تیسرے دن نرسنگ ہوم میں جب ان کی طبیعت بحال ہوئی تو پہلا سوال اپنی کتابوں کے بارے میں کیا، ’’انہیں کسی نے چھیڑا تو نہیں وہ ممدو کمبخت تو نہیں آن نکلا نظر لگانے۔‘‘ ممدو اکثر انہیں چھیڑتا تھا: ’’باجی، آپ کی ردی کیلئے تو ٹرک اور دو چار آدمی لے کر آؤں گا۔ کب آجاؤں؟‘‘
کیوں چھونے لگا تھا کوئی وہ پرانی دھرانی کتابیں، وہ بھی اُردو کی۔ انگریزی کی ہوتیں تو لڑکے لڑکیاں لے لے کے بھاگتے۔ ہندی ہوتیں تو تاجور نے الٹ پلٹ کی ہوتیں۔ تاجور نے بمشکل جھنجھلاہٹ ضبط کی۔ اب ریشم پھوپی پر ترس توسب کو آتا تھا۔ لاکھ بھائی ماں سمجھے، اس کی اولادیں پیار سے پیش آئیں، اپنی اکلوتی بیٹی سے سات سمندر پار کی دوری۔ وہ بھی کسی مجبوری کے تحت نہیں، محض اپنی خواہش کی تکمیل کے لئے۔ دل ٹوٹ پھوٹ کر ریزہ ریزہ ہوچکا تھا، اب احتجاج بھی کر بیٹھا۔ واپس آئیں تو ان کی آرام کرسی پائیں باغ کی طرف کھلنے والی کھڑکی کی طرف ڈال دی گئی۔ سامنے میز پر کتابیں رکھ دی گئیں اور کاغذ قلم....
کاغذ قلم کس لئے؟ اب کوئی خط و کتابت نہیں کرتا۔ لوگ فون کرتے ہیں یا ای میل۔ الفاظ اپنی اہمیت کھو بیٹھے ہیں۔ ای میل کی زبان بھی کیسی ہوگئی ہے۔ کاغذ قلم لے کر پھوپھو نے اپنا روزنامچہ درج کرنا شروع کیا۔ چلو خط نہ سہی کچھ تو لکھیں۔ پہلے دن ہی لکھا: ’’زندگی کے کتنے دن اور باقی ہیں؟ کتنے صفحات پُر ہونگے؟‘‘ ۶۰؍ صفحات پُر ہوسکے۔
 دو مہینے بعد پھوپی کو دوسرا دورہ پڑا جو ان کے لئے مہلک ثابت ہوا۔
 مرینہ کو فون کیا گیا تھا لیکن اس کی فلائٹ ۷؍ گھنٹے لیٹ ہوگئی تھی۔ پھوپی وہ سات گھنٹے نہیں جھیل سکیں۔ ان کا پورا وجود تنے ہوئے اعصاب کا گچھا بن چکا تھا۔ ان کی آنکھیں دروازے پر تھیں اور لب مرینہ کا ورد کر رہے تھے۔
مرینہ پہنچی تو وہ ابدی نیند سوچکی تھیں۔
’’کتنی بار امی سے کہا کہ میرے ساتھ چل کر رہیں، نہیں مانیں۔ نواسے نواسیوں کا سکھ بھی دیکھ لیتیں۔‘‘ مرینہ دل گرفتہ آواز میں دوسری بار کہا تو تاجور برا مان گئیں۔
 ’’یہاں انہیں کوئی تکلیف نہیں تھی مرینہ۔ علاج میں بھی ہم نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘ تاجور نے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے نرمی سے کہا۔
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا ممانی۔ میری صورت نہیں دیکھ سکیں۔ ناشاد گئیں اس کا ملال ہے۔‘‘ تاجور شرمندہ سی ہوگئیں۔
 چالیسویں کے بعد مرینہ نے واپس جانے کی تیاریاں شروع کیں تو تاجور نے واضح الفاظ میں کہا، ’’مرینہ اپنی امی کا سامان دیکھ لو۔ اب نہ جانے کب آؤ گی۔ آگے چل کر کوئی تلخی نہ ہو۔‘‘
’’آپ جیسا چاہیں۔‘‘ مرینہ نے مختصر جواب دیا۔
ریشماں سلطان المعروف بہ ریشم پھوپی نے باقاعدہ وصیت تیار کر رکھی تھی۔ لفافہ ان کے ٹرنک سے نکلا۔ دو چار سچی زری کی بھاری ساڑیاں اب بھی موجود تھیں۔ ان کے حصے کا آموں کا باغ تھا وہ مرینہ کے بچوں کا تھا۔ معظم کے بیٹے کیلئے انہوں نے اپنی پوری نقد رقم چھوڑ دی تھی جو اچھی خاصی تھی باقی چیزوں کیلئے بھی واضح ہدایات موجود تھیں مثلاً ہاتھی دانت کا بیش قیمت فوٹو فریم، جیڈ کا گلدان وغیرہ وغیرہ۔ کتابوں کیلئے انہوں نے لکھا تھا: ’’جو ان کی قدر کرسکے وہ انہیں رکھ لے۔‘‘

’’لے جانا چاہو تو کچھ کتابیں دیکھ لو۔‘‘ تاجور نے یہ رسمی طور پر کہا تھا کہ کتابیں آخر مرینہ کی ماں کی ملکیت تھیں۔ جواب تو انہیں معلوم ہی تھا۔ وہ پھیکی سی ہنسی ہنس پڑی، ’’کیا بات کرتی ہیں ممانی! مَیں کیا کروں گی ان کا؟ اور کیا انہیں لے جانا ممکن ہے؟‘‘
 ’’مرینہ، تمہارے ماموں یہ پرانا مکان بیچ کر کسی اچھے علاقے میں فلیٹ لینے کی بات کر رہے ہیں۔ دراصل پہلے ابو اور پھر ان کے بعد ریشم آپا کے جذبات کا خیال کرکے ہی خاموش تھے۔ تم سمجھ سکتی ہو فلیٹ میں اتنی گنجائش کہاں۔ تمہاری امی کے کئی ٹرنک کتابوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ پھر یہ بڑی سی آنبوس کی الماری ہے، دو اسٹیل کی چھوٹی الماریاں ہیں۔‘‘ وہ بولتے بولتے یکدم خاموش ہوگئیں۔
 ’’اس سلسلے میں آپ جو چاہیں کریں۔ مَیں کبھی کوئی جواب نہیں طلب کروں گی۔‘‘ مرینہ نے اداسی سے کہا اور اگلے ہفتے واپس چلی گئی۔
 معظم نے کوئی دس بیس کتابیں جو نایاب تھیں اور جن پر پھوپی نے خوبصورت جلدیں بندھوا دی تھیں، شیشے کی الماری میں آرائشی سامان کے ساتھ رکھنے کے لئے الگ کر لیں۔ ویسے ان سے ابا کی یادیں بھی وابستہ تھیں۔ ریشم دو انگریزی رسالے بھی لیا کرتی تھیں، نیشنل جیوگرافک، اور ریڈرز ڈائجسٹ، ان کے پانچ سات شمارے تاجور نے رکھ لئے۔ باقی کے لئے انہوں نے ممدو کو بلا بھیجا۔
 آنکھیں پونچھتا ممدو ٹرک تو نہیں ہاں بڑا والا ٹھیلہ ضرور لایا تھا۔ ساتھ میں اس کا بیٹا بھی تھا۔ دونوں باپ بیٹا لنگی چڑھائے صبح سے دوپہر تک ردی چھانٹ کر الگ کرتے رہے۔ مجلد کتابوں کی جلد علاحدہ کرکے تولا گیا۔ ان کتابوں اور پرانے رسالوں کے دام سوا روپے فی کلو لگائے گئے۔ تاجور کے احتجاج پر ممدو نے کہا، ’’پانچ روپے کلو اخبار بکتے ہیں۔‘‘ ’’دلہن بی بی وہ بھی نئے اس لئے کہ ان سے لفافے بن جاتے ہیں۔ ان کتابوں کا کیا مصرف ہے ہاتھ لگاؤ تو کاغذ جھڑیں۔‘‘ تاجور جھینپ مٹانے کو پوچھنے لگیں، ’’اور ان کا کیا ہوگا؟ آخر خرید کر تو تم لے ہی جا رہے ہو؟‘‘
 ’’لو اب ہم آپ کو بتائیں گے۔ ان سب کی لگدی بنا کر سنتے ہیں دوبارہ کاغذ ہی بنتا ہے۔‘‘
 قبر میں ریشم پھوپی نے کروٹ بدلی
 ہاں انہیں ’ری سائیکل‘ کیا جائے گا ان پر لکھے سارے حروف مٹ جائیں گے، لگدی بن کر ان کا کاغذ بنے گا۔ کورا کاغذ، لیکن کیا کوئی تھوڑا سا کاغذ اُردو لکھنے کے لئے بھی مانگے گا؟ کوئی میرؔ، کوئی غالبؔ، کوئی فیضؔ، کوئی عصمتؔ، کوئی قرۃ العینؔ؟
 ان کی بے چین روح چکراتی پھر رہی تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK