Inquilab Logo

افسانہ: قرض

Updated: May 06, 2024, 12:02 PM IST | Jannat Mehmood | Mumbai

میری توقع کے خلاف انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ میرے کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ ایک طرف ہاتھوں سے اندر آنے کا اشارہ کرنے لگی۔ جائے نماز پر بیٹھی بوڑھی عورت کے پاس وہ مجھے لے گئی پھر خود سلائی مشین کی طرف بڑھ گئی، بوڑھی عورت سے رسمی علیک کرنے کے بعد میں ان کے پاس بچھی چٹائی پر بیٹھ گئی، انہوں نے میری تعلیم و تربیت کے بارے میں پوچھا۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

صبح کی اذان بھی نہیں ہوئی تھی۔ میرے کمرے کی کھڑکی سے عجیب آتی کھڑکھڑا ہٹ کی آواز سے میری نیند کھل گئی۔ دیوار کی گھڑی پر دیکھا تو ابھی پانچ بج رہے تھے۔ میں نے دوبارہ سونے کی کوشش کی مگر....! ”اوفوہ....! یہ کیسی بلا ہے۔ “
آواز مسلسل آرہی تھی بالآخر میں نے خود سے لحاف ہٹایا اور کھڑکی کے پاس جھانکنے لگی آسمان سیاہی مائل نیلا پڑچکا تھا۔ چاند تارے صاف نظر آرہے تھے۔ میں نے سر نکال کر جھانکا تو ایک درمیانی عمر کی خاتون مشین کو بڑی مہارت سے چلا رہی تھی۔ اس سے تھوڑی دوری پر ایک بوڑھی عورت جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھی۔ 
”اوہ.... اذان ہوگئی ہے۔ ‘‘ میں نے کھڑکی کو بند کیا، اور اسٹڈی ٹیبل پر بکھری کتابوں کو آہستہ آہستہ سمیٹا.... کمرے کی بیشتر چیزیں بکھری ہوئی تھیں۔ چیزوں کو آہستہ آہستہ سمیٹتے ہوئے مجھے خیال آتا گیا کہ ایسی بھی کیا وجہ ہے کہ پانچ بجے ہی سے کوئی اپنا کام شروع کر دے۔ اتنے سویرے تو ڈھونگی فقیر بھی اپنا پیالہ سائیڈ پر رکھے ہاتھی گھوڑا بیچ کر سوتا ہے۔ سورج کی کرنیں تیز ہوئیں۔ اب بے ہوش ہوئی دنیا جاگنے لگی تھی۔ آواز مسلسل آرہی تھی... اب مجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے بھی بیڈ پر پڑے سفید دوپٹے کو اٹھایا، اور اسکارف کے مانند گلے میں گھمایا، پھر باہر آگئی خالہ اور عروس بھی اٹھ چکے تھے۔ 
”ارے تم.... تم اٹھ گئی اتنی سویرے؟“ خالہ نے میری طرف دیکھ کر تعجب سے پوچھا۔ ”ہاں ...! ہاں وہ بس آنکھ کھل گئی۔ خالہ، کیا میں ان کے گھر جاؤں ؟“ مَیں نے بائیں طرف اشارہ کرکے کہا۔ 
”ہاں کیوں نہیں، جاؤ۔ “
لوہے کے سیاہ بڑے گیٹ کو میں نے کھٹکھٹایا اسی عورت نے دروازہ کھولا۔ ”السلام علیکم....“ میں نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ سے سلام کیا۔ ”وعلیکم السلام!“
میری توقع کے خلاف انہوں نے خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ میرے کچھ بھی کہنے سے پہلے وہ ایک طرف ہاتھوں سے اندر آنے کا اشارہ کرنے لگی۔ جائے نماز پر بیٹھی بوڑھی عورت کے پاس وہ مجھے لے گئی پھر خود سلائی مشین کی طرف بڑھ گئی، بوڑھی عورت سے رسمی علیک کرنے کے بعد میں ان کے پاس بچھی چٹائی پر بیٹھ گئی، انہوں نے میری تعلیم و تربیت کے بارے میں پوچھا۔ 
”تم علی گڑھ میں کیا کرتی ہو؟“ انہوں نے بہت محبت سے پوچھا۔ 
”میں ایک لکھاری ہوں۔ یوں تو اردو میں ایم اے کر رہی ہوں اور ساتھ ساتھ کہانیاں مضامین وغیرہ لکھتی ہوں۔ سبق آموز افسانہ لکھ کر لوگوں تک پہنچاتی ہوں ....“
”لوگوں تک یعنی ہماری چیخ ہماری آہ کو لوگوں تک پہنچانے کا کوئی ذریعہ ہے....؟“
”میں کچھ سمجھی نہیں کیسی چیخ کیسی آہ....؟“
انہوں نے اپنے دونوں ہتھیلی میں اپنا چہرہ گرا لیا اور نہایت آہستہ سے سر اٹھا کر اپنے سامنے سے دائیں طرف کچے مکان کے بیٹھک میں کرکٹ کے نیچے سلائی مشین کو مہارت سے چلاتی ہوئی عورت کو دیکھا۔ ”بیٹا......!“ انہوں نے میری کلائی کو اپنی ہتھیلی میں تھاما، ”کیا تم ہماری آواز لوگوں تک پہنچاؤ گی...؟“
”ہاں ضرور لیکن کیسی آواز...؟ کیسی چیخ...؟ کیسی اف...؟ کیا معاملہ ہے؟“ میرے اندر عجیب سی کیفیت، عجیب سا جذبہ پیدا ہو گیا۔ 
”میری بیٹی بے قصور ہے، میری بیٹی پر زمانے نے ظلم ڈھائے ہیں، اس کے دل کو مردہ کر دیا ہے.... اس کی زندگی کو مذاق بنا کر معاشرے نے ہنسی اڑائی ہے۔ میری بیٹی کی شادی کو چھ سال ہوئے ہیں اس کے والد نے اپنی پوری زندگی میں جو کچھ کمایا تھا سب لڑکے والے کی مانگ کے مطابق جتنا ہو سکا انہوں نے دے دیا...!“ وہ جیسے سانس لینے کو رکیں۔ میں بہت غور سے ان کی بات سن رہی تھی۔ 
”شادی کے دوسرے دن یاسر نے سعدیہ کے والد سے اور جہیز کا مطالبہ کیا، انہوں نے جب جہیز دینے کے لئے مزید رقم نہ ہونے کا تذکرہ کیا تو اس بے حس نے میری معصوم بچی کو نشانہ بنایا، باپ کی محبت ان کے دل میں بھڑکی اور انہوں نے اپنا گھر بیچ دیا اور ملنے والے پیسے سے گاڑی اور فرنیچر اسے دیا۔ “ کچھ لمحے کے لئے وہ رکیں۔ میں نے سوچا، ”ماں باپ کا گھر بکا تو بیٹی کا گھر بسا.... کتنی نا مراد ہے یہ رسم جہیز بھی.....“
”کچھ دنوں بعد سعدیہ کے سسرال والوں نے گھر کے سامان کے بارے میں طنز کرنا شروع کر دیا۔ مگر سعدیہ نے کبھی بھی اف تک نہ کہا اور نہ ہی ہم سے کبھی ان کی شکایت کی۔ دن بدن ان کا طنز ظلم میں بدل گیا۔ وہ جہیز کا طعنہ دے کر اس کو کھانے سے روکتے۔ اور مارنے پیٹنے لگے۔ دن بہ دن یاسر کی مردانگی اس کے پیروں تلک آگئی۔ اس نے سعدیہ کو طمانچہ مارنے شروع کر دیئے.... ایک دن جب سعدیہ کے سارے زیور اس نے بیچ ڈالے تو سعدیہ نے پیسے مانگے اور پیسہ نہ ملنے پر اس نے سگریٹ سے اس کا ہاتھ جلا کر ایک زور دار طمانچہ مارکر.... طلاق دے دی....!“
”جب یہ خبر سعدیہ کے والد نے سنی تو اس کے دوسرے دن دل کا دورہ پڑنے سے ان کی موت ہو گئی.... وہ اپنا قرض ادا نہ کرسکے اور اس دنیا سے چل بسے....“ وہ دوبارہ سے اپنا چہرہ ہتھیلی میں لئے رونے لگیں۔ 
”اب وہ سلائی کرتی ہے اور جو پیسے ملتے ہیں اسے آدھے گھر کے کام میں لاتی ہے اور آدھے اپنے باپ کے قرض کو ادا کرنے میں .... کیا تم ہماری آواز لوگوں تک، مالداروں تک، حکمرانوں تک اور جہیز کی مانگ کرنے والوں تک پہنچاؤ گی نا......؟“ وہ دل کی گہرائی سے کہہ رہی تھیں۔ ان کے دل کو تسلی دے کر میں نے بات پلٹ کر لکھنؤ کی تعریف کرنی شروع کر دی۔ 
میں واپس آکر اسٹڈی ٹیبل پر بیٹھی بس اس مجبور، بے کس سعدیہ کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اور ارادہ کیا کہ میں ان کی آواز ضرور بالضرور لوگوں تک پہنچاؤں گی....!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK