Inquilab Logo

وِدروہی ساہتیہ سمیلن : فرقہ پرستی کیخلاف توانا آواز

Updated: February 12, 2024, 2:19 PM IST | Mubasshir Akbar | Mumbai

۱۸؍ ویں ودروہی سمیلن میں فرقہ پرستی کی روک تھام ، اظہار رائے کی آزادی ،ذات پر مبنی مردم شماری، مراٹھا ریزرویشن اور دیگر موضوعات پرگفتگو ہوئی۔

A large number of writers and poets participated in Vidrohi Marathi Sahitya Samilan held in Amalnir. Photo: INN
املنیر میں منعقدہ ودروہی مراٹھی ساہتیہ سمیلن میں بڑی تعداد میں ادباء و شعراء نے شرکت کی۔ تصویر : آئی این این

گزشتہ ہفتےہم نے آپ کو اکھل بھارتیہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن کی روداد اور اس میں ہونے والے فیصلوں سے روشناس کروایا۔ اس سمیلن میں مراٹھی کو فروغ دینے کے تعلق سے کئی اہم باتیں ہوئیں لیکن سمیلن کی مخالفت میں یا کہہ لیں کہ اس کا اثر اور اس کی کاٹ کم کرنے کے لئے مراٹھی کے ترقی پسند اور باغی ادیبوں کا بھی ایک اجلاس منعقد کیا گیا تھا جو ’ودروہی سمیلن ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس سمیلن میں مراٹھی کے ساتھ ساتھ دیگر زبانوں کے ادباء و شعراء کو مدعو کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ۱۷؍ سال سے یہ سمیلن مہاراشٹر کے مختلف شہروں میں منعقد کیا جارہا ہے۔ اس سال یہ ۱۸؍ واں سمیلن تھا جو اتفاق سے اسی املنیر شہر میں منعقد کیا گیا جہاں پر مراٹھی ساہتیہ سمیلن جاری تھا۔ 
منتظمین کہتے ہیں کہ یہ اتفاق ہی ہے کہ گزشتہ ۲؍ سے ۳؍ سال سے یہ پروگرام ٹھیک انہی تاریخوں میں منعقد ہو رہا ہے جب مراٹھی ساہتیہ سمیلن منعقد ہوتا ہے۔ اس بارے میں ودروہی سمیلن کے چیف کنوینرپروفیسر لیلا دھر پاٹل نے کہا کہ اکھل بھارتیہ ساہتیہ سمیلن کے رد میں ہم ہر سال یہ پروگرام منعقد کرتے ہیں کیوں کہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن پر سناتن دھرم کو سب کچھ سمجھنے والوں کا قبضہ ہے اور اس کے اسٹیج سے کسان، دلت، آدیواسی خواتین، پسماندہ طبقات اور فی الحال موضوع بحث ریزرویشن جیسے سلگتے ہوئے موضوعات پرکوئی بحث و مباحثہ کا انعقاد نہیں ہوتا ہے جبکہ یہ تمام موضوع اہم مسائل ہیں جن پر گفتگو ہونی چاہئے تاکہ ان کا حل نکالا جاسکے لیکن مراٹھی ساہتیہ سمیلن ان موضوعات کو درکنار کردیتا ہے۔ اسی لئے ہم نے اپنا الگ ودروہی سمیلن منعقد کیا ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: مراٹھی ساہتیہ سمیلن : زبانوں کے فروغ کیلئے اہم تجویز

واضح رہے کہ ودروہی ساہتیہ سمیلن کا سب سے پہلا انعقاد ۱۹۹۹ء میں ممبئی کی شناخت کےاہم حصہ دھاراوی میں کیا گیا تھا۔ یہ انعقاد اس لئے ہوا تھا کیوں کہ بہت سے ادباء و شعراء اکھل بھارتیہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن کی جانب سے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ منوہر جوشی کو مدعو کئے جانے کے خلاف تھے لیکن جب منتظمین نے ان ادباء کی بات نہیں مانی تو انہوں نے احتجاجاً دھاراوی میں ودروہی ساہتیہ سمیلن کا انعقاد کیا جس میں فرقہ پرستی، استعماریت، برہمنی نظام کی بالادستی کو چیلنج اور ایسے ہی دیگر موضوعات پربنیاد بناکر مقالے پڑھے گئے تھے۔ ودروہی ساہتیہ سمیلن کی یہ روایت آج بھی برقرار ہے۔ موجودہ دور میں جبکہ فرقہ پرستی عروج پر ہے، پسماندہ طبقات کو دبایا اور کچلا جارہاہے، ملک پر برہمنی نظام تھوپنے کی کوشش ہو رہی ہے ودروہی سمیلن کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ اس سال املنیر میں ہی منعقد ہونے والے سمیلن میں مراٹھی کے تمام اہم ادباء و شعرا ء موجود تھے۔ اس موقع پر سانے گروجی کو خراج عقیدت پیش کیا گیاجو املنیر سے ہی تعلق رکھتے تھے جبکہ فرقہ پرستی، جمہوریت کو لاحق خطرات، پسماندہ طبقات کے مسائل، مراٹھا ریزرویشن کے اثرات، موجودہ حالات میں مراٹھی ادیبوں کی ذمہ داریاں اور ایسے ہی سلگتے ہوئے لیکن اہم موضوعات پر یہاں اظہار خیال کیا گیا۔ 
اس پروگرام میں اردو کے نمائندہ اور مہمان کے طور پر شرکت کرنے والے مشہور ناول نگار اور ادیب رحمان عباس نے ہمیں بتایا کہ ’’ مراٹھی ساہتیہ سمیلن کے مقابلے میں ودروہی سمیلن میں شعراء و ادباء کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ ان دیبوں نے سب سے پہلے شیواجی مہاراج، سانے گروجی اور ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک مارچ کا اہتمام کیاجس میں فرقہ پرستی کے خلاف بیداری لانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ساتھ یہاں سے بھائی چارہ کا پیغام بھی دیا گیا۔ اس کے علاوہ جمہوریت اور ملک کے آئین کو لاحق خطرات پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ مارچ میں ۳؍ ہزار سے زائد افراد موجود تھے۔ ‘‘رحمان عباس نے کہا کہ اس ودروہی سمیلن میں مراٹھی کے ادیبوں نے جس شدت کے ساتھ فرقہ پرستی کی مذمت کی، آئین کی خلاف ورزیوں پر کھل کر آواز بلند کی اور پسماندہ طبقات کے موضوعات پر جتنی قوت کے ساتھ اظہار خیال کیا میں اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا کیوں کہ ہمیں لگتا ہے کہ فرقہ پرستی پر ہم ہی بولتے ہیں لیکن ہمارے ملک اور ریاست میں ایسے ادباء بھی موجود ہیں جو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے فرقہ پرستی کی مذمت کررہے ہیں بلکہ میں تو کہوں گا کہ ان کی آواز میں جتنی شدت ہے وہ ہماری اپنی آوازوں میں بھی نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس سمیلن کا افتتاح ہندی کے مشہور طنز و مزاح کے شاعرسمپت سرل نے کیا جبکہ رحمان عباس نے یہاں کلیدی خطبہ دیا۔ اس سمیلن کی صدارت مشہور مراٹھی ادیب چندر کانت وانکھیڈے نے کی۔ مہمانان میں ڈاکٹر عبد الکریم سالار، مکند سپکالے، ڈاکٹر انجم قادری، اشفاق قریشی، ڈاکٹر واسو دیو ملاٹے، رنجیت شندے، احمد سرور اور دیگر شامل ہیں۔ اس پروگرام کے دوران راحت اندوری مرحوم کو بھی خصوصی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ واضح رہے کہ اس سمیلن کے دوران جن موضوعات پر گفتگو کی گئی ان میں اظہار رائے کی آزادی، ذات پر مبنی مردم شماری، جل جنگل زمین کا حق، آدیواسیوں کے ریزرویشن اور اس کے مسائل، نئے لیبر قوانین، موجودہ حالات میں اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر منڈلاتے خطرات، ملک کے آئین کو لاحق خطرات، سانے گروجی کا ادب اور ایسے ہی دیگر موضوعات شامل ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK