مختلف زبانوں کے فن پاروں کے تراجم مراٹھی میں کرنے اور مراٹھی کے شہ پاروں کو دیگر زبانوں میں ڈھالنے کا کام بڑے پیمانے پر کرنے پر گفتگو ہوئی، اردو میں یہ کام طویل عرصے سے جاری ہے اور ہمارے کئی اہم ادباء و شعرا ء مراٹھی سے اُردو اور اُردو سے مراٹھی کا پُل قائم کرنے میں مصروف ہیں۔
املنیر میں منعقدہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن کاافتتاح سمترا مہاجن نے کیا۔ تصویر : آئی این این
مراٹھی ساہتیہ سمیلن جواملنیرمیں منعقد ہوا، کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمنٹ کی سابق اسپیکر سمترا مہاجن نے بڑے پتے کی بات کہی کہ سیاست دانوں کو ادب کی سمجھ نہیں ہوتی ایسا کہنا غلط ہے کیوں کہ سیاست داں سماج سے اٹھ کر ہی جاتے ہیں اور انہیں سماج میں کیا ہو رہا ہے، کیا لکھا جارہا ہے اور کیا پڑھا جارہا ہے اس بارے میں مکمل معلومات ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب یہ سکھاتا ہے کہ معاشرے میں کیسے برتاؤ کیا جائے۔ معاشرے میں نچلی سطح پر زندگی گزارے والوں کو سماج کے قومی دھارے میں لانے کے لئے ادب بھی اہم کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ اس کی وجہ سے ہمیں سوچنے سمجھنے اور برتنے کا سلیقہ آتا ہے۔ واضح رہے کہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن مہاراشٹر میں مراٹھی زبان کی سب سے بڑی تقریب ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس تقریب کی صدارت یا اس میں شرکت کی دعوت باعث افتخار و اعزاز ہوتی ہے۔
اس مرتبہ سمیلن کی صدارت مراٹھی کے مشہور ادیب و ناول نگار ڈاکٹر رویندر شوبھنے کو سونپی گئی تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مراٹھی زبان، ادب، مذہب، ثقافت، روایت اور آج کے نوجوانوں کے مسائل کے بارے میں طویل گفتگو کی۔ مراٹھی تہذیب کی حفاظت اور مراٹھی ادب کے فروغ کے لئے انہوں نے جہاں کئی اہم نقاط پر گفتگو کی وہیں اس بات پر بھی زور دیا کہ مراٹھی کے ادب کو مختلف زبانوں میں منتقل کرنے کا کام تیزی کے ساتھ ہونا چاہئے۔ ساتھ ہی دیگر زبانوں کے نمائندہ فن پاروں کو مراٹھی میں ڈھالنے کا کام بھی بڑے پیمانے پر کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت اور مختلف سماجی گروہوں اور تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مراٹھی ادب اور زبان کو بچانے کی کوشش کریں۔ صدر جلسہ کے علاوہ دیگر مقررین نے بھی اس بات پر زور دیا کہ مراٹھی ادب اور تہذیب کو محفوظ رکھنے کیلئے جہاں بہت سے اقدامات کی ضرورت ہے وہیں اس زبان میں لکھے جارہے ادب کو دیگر زبانوں میں منتقل کیا جانا بھی بہت ضروری ہے۔ ساتھ ہی دیگر زبانوں کے ادب کو مراٹھی میں منتقل کرنے کی روایت زور پکڑنی چاہئے تاکہ زبانوں کی حفاظت کا کام ہر سطح پر ممکن بنایا جاسکے۔
واضح رہے کہ مراٹھی ساہتیہ سمیلن مہاراشٹر میںمراٹھی زبان کا سب سے بڑا پروگرام ہوتا ہے جو گزشتہ ۹۶؍ برس سے ہر سال منعقد ہورہا ہے اور اس سال اس کا ۹۷؍واں انعقاد تھا جبکہ املنیر میں یہ تقریب ۷۲؍ برس بعد منعقد کی گئی۔ اس سمیلن کی روایت بہت مضبوط اور شاندار رہی ہے۔ اسے مراٹھی سماج کی نمائندہ تقریب بھی کہا جاتا ہے جہاں پر ہونے والی گفتگو، پڑھا جانے والا ادب اور یہاں ہونے والے ادبی فیصلے مہاراشٹر کے مراٹھی حلقوں میں قدر و احترام کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں اور ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ بہت جلد مراٹھی ساہتیہ سمیلن کے۱۰۰؍ سال مکمل ہوں گے۔ چونکہ یہ حکومت کی طرف سے اسپانسرڈ تقریب ہوتی ہے اس لئے اسے بڑے پیمانے پرمنعقد کرنا آسان بھی ہوتا ہے مگر اس میں منعقد ہونے والے پروگراموں اور ان میں ہونے والی گفتگو پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہوتا ہے۔ ماضی میں بھی مراٹھی ساہتیہ سمیلن مہاراشٹر کی سیاست اور سماج دونوں کو راہ دکھانے میں اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور مختلف زبانوں کے درمیان پُل کا کام کرتا رہا ہے، امید ہے کہ یہ مستقبل میں بھی یہ سمیلن اپنا کردار ایسے ہی ادا کرتا رہے گا۔ ۳؍ دنوں تک جاری رہی اس تقریب میں سمترا مہاجن کے علاوہ نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار، ریاستی وزیر دیپک کیسرکر اور ودھان پریشد کی ڈپٹی چیئر پرسن ڈاکٹر نیلم گورہے نے شرکت کی جبکہ مقامی اراکین اسمبلی اور دیگر اہم لیڈران بھی یہاں موجود رہے۔
اب آتے ہیں اس بات کی جانب کہ مراٹھی کے شہ پاروں کو دیگر زبانوں میں منتقل کرنے کا کام بڑے پیمانے پر ہونا چاہئے۔ اس کے جواب میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام اردو حلقوں میں طویل عرصے سے ہو رہا ہے۔ خطہ ودربھ کے مردم خیز ضلع ایوت محل سے تعلق رکھنے والے معروف محقق ونقاد اور ادیب ڈاکٹرسید یحییٰ نشیط نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’اردو۔ مراٹھی کے تہذیبی رشتے‘ لکھ کر نہ صرف ان دونوں زبانوں کی مشترکہ روایات، ثقافتی ہم آہنگی اور دونوں زبانوں کے باہمی رشتوں کو مزید مضبوطی عطا کرنے کااہم کارنامہ انجام دیا ہے بلکہ یہ بھی واضح کیا ہے کہ اردو اور مراٹھی کے تہذیبی رشتے کتنے مضبوط اورہمہ جہت ہیں۔ یہ کتاب آج سے ۳؍ دہائی قبل ۱۹۹۵ء میں لکھی گئی تھی لیکن اس کے حوالے اور اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے بلکہ آج بھی اردو اور مراٹھی دونوں حلقوں میں اس کے حوالے دئیے جاتے ہیں۔
یہاں ہم کہنا چاہتے ہیں کہ اردو میں مراٹھی پر کافی دھیان دیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں مراٹھی کے شہ پاروں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے کی جتنی کوششیں ہوئی ہیں اتنی دیگر کسی زبان کے تعلق سے غالباً نہیں ہوئی ہو گی۔ اردو میں پوری ایک فوج ہے جس نے مراٹھی سے اردو ترجموں کو انجام دیا ہے جس میں کئی اہم نام ہیں جیسے پروفیسر عبدالستار دلوی ، پروفیسر یونس اگاسکر، سلام بن رزاق، خالد اگاسکر ، ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط ، ڈاکٹر رام پنڈت، قاسم ندیم ، وقار قادری ، نور پرکار اورڈاکٹر شرف الدین ساحل جیسے سینئر ادباء و شعرا ء نےمراٹھی ادب کے دریا سے قیمتی موتی نکال کر اردو کے خزانے میں اضافہ کیا ہے۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے ہر چند کہ اس کی رفتار میں معمولی کمی آئی ہے۔