Inquilab Logo

قلت ِ آب بنگلور ہی کا مسئلہ نہیں ہے!

Updated: March 21, 2024, 11:43 AM IST | Mumbai

یہ تشویش اس لئے بھی برقرار رہے گی کہ الیکشن کا اعلان ہونے کے بعد مرکزی حکومت کے لیڈران پر انتخابی جن سوار ہوچکا ہے۔ اب موہوم سی اُمید بھی نہیں رہ گئی ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کو ترجیح دی جائیگی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

اِن دِنوں ’’آئی ٹی ہَب‘‘ کہلانے والے بنگلور میں پانی کا بحران اِتنا شدید ہے کہ ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ ایک بنگلور شہر ہی نہیں پوری ریاست کرناٹک عالمی خبروں میں جگہ بنا رہی ہے محض پانی کے بحران کی وجہ سے، مگر ا س کی وجہ سے ہمیں یہ مغالطہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ صرف جنوبی ریاست کرناٹک کا مسئلہ ہے۔ آبی قلت پورے ملک میں ہے البتہ کسی ریاست میں کم ہے اور کسی میں زیادہ مثلاً کرناٹک۔ روایتی طور پر ہندوستان پانی کی قلت کا ملک ہے، اسی لئے بارش پر اس کا انحصار بہت زیادہ ہے۔ بارش افراط ہوجائے تو سکون کا سانس لینے کا موقع ملتا ہے، نہ ہو تو فکر دامن گیر ہوجاتی ہے کہ خدا جانے کیا ہو۔ ملک کے کئی حصوں میں سال کے بارہ مہینے پانی بالخصوص پینے کے پانی کی قلت رہتی ہے خواہ کافی بارش ہو یا ناکافی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں دُنیا کی ۱۸؍ فیصد آبادی رہتی ہے مگر ہندوستان میں دُنیا کا صرف ۴؍ فیصد پانی ہے۔ اِدھر چند برسوں سے ملک میں کہیں سوکھا تو کہیں سیلاب کی صورتحال نے عجیب و غریب مسئلہ پیدا کردیا ہے۔ جہاں سوکھا پڑا ہے وہاں تو مشکلات ہیں ہی، جہاں سیلاب آیا ہوا ہے وہاں بھی ناگفتہ بہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ موجودہ صورتحال تو اور بھی تشویشناک ہے۔ 
یہ تشویش اس لئے بھی برقرار رہے گی کہ الیکشن کا اعلان ہونے کے بعدمرکزی حکومت کے لیڈران پر انتخابی جن سوار ہوچکا ہے۔ اب موہوم سی اُمید بھی نہیں رہ گئی ہے کہ پانی کے بحران سے نمٹنے کو ترجیح دی جائیگی۔ مرکزی حکومت کے زیر نگرانی ۱۵۰؍ آبی ذخائر ہیں۔ یہاں سے پینے اور زراعت کیلئے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ پن بجلی کیلئے بھی پانی کی سپلائی کا یہی سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی حالت اچھی نہیں ہے۔ صرف ۴۰؍ فیصد پانی باقی رہ گیا ہے۔ مہاراشٹر اور آندھرا جیسی صنعتی اور یوپی و پنجاب جیسی زراعتی ریاستوں میں اس وقت آبی ذخیرہ ۱۰؍ سال کی کمترین سطح پر ہے۔ یہ اور اس طرح کی جتنی بھی تفصیل پڑھنے کو ملتی ہے وہ فکرمیں مبتلا کرنے والی ہے مگر ہم آپ جانتے ہیں اب سے کم و بیش ۷۵؍ دن (۴؍ جون تک) اِس ملک میں ہر خبر الیکشن کے بارے میں ہوگی، ہر تجزیہ کار انتخابی امکانات کا تجزیہ کریگا، تشہیر، نعرہ بازی، الزام تراشی اور حقیقی مسائل سے گریز کیا جائیگا اور اس شور و غل میں قلت ِ آب جیسے مسائل کو حاشئے پر بھی جگہ نہیں ملے گی۔ 
ہوتا یہ ہے کہ جب کسی سال اچھی بارش ہوجاتی ہے تو سب مطمئن ہوجاتے ہیں کہ قلت ِ آب کا مسئلہ ختم ہوگیا جبکہ ایسا نہیں ہوتا، مسئلہ برقرار رہتا ہے کیونکہ ہمارے آبی وسائل انتہائی محدود ہیں۔ ان وسائل کی بھی حفاظت جیسی حفاظت نہیں ہوپاتی۔ آبی محکموں کے عملے کوکتنے لوگ جانتے ہیں ؟ پائپ لائنیں پھٹ جاتی یا اُن میں سے پانی رِسنے لگتا ہے تو کئی دن تک اس عملے کے لوگ حرکت میں نہیں آتے۔ ویسے ذمہ داری شہریوں کی بھی ہے کہ وہ پانی کے ضیاع سے بچیں مگر اُن میں بھی بیداری مہم نہیں چلائی جاتی۔ شہری انتظامیہ کا اپنا دُکھ ہے۔ وہ بستیوں میں پانی کی سپلائی محدود وقت کیلئے کرتا ہے، فائیو اسٹار ہوٹلوں کو چوبیس گھنٹے فراہم کرتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں تو ہفتے میں صرف دو دِن یا ایک دن پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔ چونکہ ۲۰۲۳ء گرم ترین سال تھا اور ۲۰۲۴ء کیلئے بھی کچھ ایسی ہی پیش گوئی کی جارہی ہے اس لئے ملک کو ہنگامی حالات سے بچانے کیلئے تحفظ آب کی ذمہ داری سب کو نبھانی ہوگی۔ مرکزی حکومت کو بالخصوص حرکت میں آنا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK