Inquilab Logo

انسانوں کو کب گلے لگاؤ گے؟

Updated: February 15, 2023, 10:42 AM IST | Parvez Hafeez | Mumbai

کاش لوگوں کو گائے کو گلے لگانے سے پہلے معاشرے کے دبے کچلے مظلوم اور مغموم لوگوں کو گلے لگالینے کا اپدیش دیا گیا ہوتا،کاش ارباب اقتدار یہ سمجھ سکتے کہ جانور خواہ کتنا بھی مقدس کیوں نہ ہو اسے گلے لگانے سے قبل ان بدقسمت ہم وطنوں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے بار بار جن کے گلے کاٹنے کی سر عام دھمکیاں دی جاتی ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

جب سے نریندر مودی دہلی کے راج سنگھاسن پر براجمان ہوئے ہیں اور کسی کے آئے ہوں یا نہیں لیکن گائے کے اچھے دن ضرور آگئے ہیں۔ ہندوستان جنت نشان میں گائے ہمیشہ سے مقدس جانور سمجھی جاتی رہی ہے اوربرادران وطن گائے کی پرستش کرتے رہے ہیں۔گائے کے گوبر اور گئوموتر کو بھی کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ بی جے پی کی مہا گیانی رکن پارلیمنٹ پرگیہ تو گئو موتر سے کورونا جیسی عالمی وبا سے شفایاب ہونے کا دعویٰ بھی کرچکی ہیں۔ ممکن ہے کسی آشرم میں کورونا کی کسی ایسی نئی ویکسین پر کام چل رہا ہوگا جس کے اجزائے ترکیبی میں گئو موتر شامل ہو۔
 سوائے مغربی بنگال اور کیرالا جیسے چند صوبوں کے گئوکشی پر سارے ملک میں کئی دہائیوں سے پابندی نافذ ہے۔غیر قانونی طور پر گائے کا گوشت بیچنے والے کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالنے کے قانون پر سختی سے عمل در آمدپہلے بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن امرت کال میں گائے کی تقدیس و حرمت میں اتنا اضافہ ہوگیا ہے کہ اب صرف فریج میں گائے کا گوشت رکھنے کے شک میں کسی کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاسکتا ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ کی سزا چند سال ہے لیکن گائے کو گجرات سے مہاراشٹر لے جانا اب اتنا سنگین جرم بن گیا ہے کہ اس کی وجہ سے ایک نوجوان کو پچھلے ماہ عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ 
  کانگریس سرکاروں نے۶۰۔۶۵؍سال میں گائے کی فلاح و بہبود کیلئے اتنی اسکیمیں نہیں متعارف کروائی ہوں گی جتنی مودی سرکار نے محض آٹھ برسوں میں کرادی ہیں۔ لیکن سرکار کی کوئی بھی اسکیم اتنی حیرت انگیز اورانوکھی نہیں ہے جتنی ’ اینیمل ویلفیئر بورڈ آف انڈیا سنٹرل ‘کی جانب سے حال میں کی گئی گائے کو گلے لگانے کی اپیل تھی۔ ایک ہفتے قبل لوگوں سے۱۴؍ فروری کو’’گائے کے دن کو گلے لگائیں‘‘منانے کا مشورہ دیا گیا۔ایک فرمان جاری کرکے لوگوں کویہ گیان دیا گیاکہ گائے سے بغل گیر ہونے سے ان کی جسمانی اور جذباتی صحت بہتر ہوگی او’ انفرادی اور اجتماعی شادمانی‘میں اضافہ ہوگا۔ دیش واسیوں کو یہ بھی یاد لایا گیا کہ گائے ہندوستانی تہذیب و ثقافت اور معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔مویشی بورڈ کے مطابق چونکہ نوجوان نسل ’مغربی تہذیب کی چکاچوند ‘سے گمراہ ہوگئی ہے اور ’ویدک رسوم و رواج‘کا وجود خطرے میں پڑگیا ہے اس لئے گائے سے بغل گیر ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
 موجودہ حکومت اگر گائے کی اتنی ناز برداریاں اٹھا رہی ہے تو اس کی وجہ صاف ہے:اس مویشی کی عنایتوں سے بی جے پی بھرپور طریقے سے فیضیاب ہوئی ہے۔ رام مندر، کشمیر تنازع، جارح وطن پرستی اور ترنگا کے علاوہ گائے کو بھی بی جے پی نے اپنی نظریاتی اور سیاسی بالادستی قائم کرنے کیلئے ایک طاقتور ہتھیار کی طرح استعمال کیا ہے۔ پچھلے چند سال میں گائے کے تحفظ کے نام پر ہجومی تشدد نام کی صنعت خوب پھلی پھولی ہے اور اس منافع بخش صنعت میں ہزاروں بے کار نوجوانوں کو گئو رکشک بننے کا موقع بھی ملا ہے۔ 
 جب ہندوستانی شہریوںکو ۱۴؍فروری کے دن گائے کو گلے لگانے کا مشورہ دیا گیا توکسی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ یہ نیا شوشہ دراصل نوجوانوں کو ویلنٹائن ڈے سے دور رکھنے کے لئے چھوڑا گیا ہے۔ صبح سے شام تک نفرت کا زہر پھیلانے والوں کو بھلا یہ کیسے برداشت ہوتا کہ لوگ سال کے ایک دن سر عام اپنی محبتوں کا اعلان کرتے پھریں۔
 چند سال قبل لوگوں کو کرسمس کی خوشیوں میں حصہ لینے سے روکنے کی خاطر اسی طرح ۲۵؍ دسمبر کے دن کو تلسی پوجن دیوس قرار دے دیا گیاتھا۔ دلچسپ بات یہ تجویزآسا رام باپو کی تھی۔ سفید داڑھی والے اس ڈھونگی نے یہ توجیہ پیش کی کہ نوجوان نسل کو گمراہ ہونے سے بچانے کے لئے ہندو تہذیب و ثقافت کا گیان دینا لازمی ہے۔جی ہاں یہ وہی مہاپرش ہیں جو اپنے آشرم میں اپنی پوتی سے بھی کم عمر لڑکی کی عصمت دری کرنے کے جرم میں جودھپور کی جیل میں ایک عمر قید کی سزا کاٹ ہی رہے تھے کہ دو ہفتے قبل گجرات کی ایک عدالت نے انہیں ایک اور نابالغ لڑکی کی آبروریزی کا مجرم قرار دے کر دوسری عمر قید کی سزا سنادی۔ 
 ۱۴؍فروری کے دن کو گائے کو گلے لگانے کا دن کے طور پر منانے کے سرکاری فرمان پر پہلے تو کسی کو یقین ہی نہیں آیا۔ لوگوں نے سمجھا کہ بی جے پی کی ویلنٹائن ڈے سے شدید بیزاری کے مدنظر کسی نے یہ ظریفانہ بیان مویشی بورڈ کے نام سے منسوب کرکے جاری کردیا ہے۔ جوں ہی انہیں پتہ چلا کہ یہ لطیفہ نہیں حقیقت ہے تو سوشل میڈیا پر طنزو مزاح بھرے کمنٹس گشت کرنے لگے۔ ایک شخص نے کہا کہ گائے کو گلے لگانے سے قبل اس کی رضامندی لینا ضروری ہے ورنہ دست درازی کا الزام لگ سکتا ہے۔ ایک دوسرے شخص نے دریافت کیا کہ اگر کوئی مسلم نوجوان گائے کو گلے لگاتا ہے تو اس کی یہ حرکت لو جہاد کے زمرے میں رکھی جائے گی یا نہیں۔کسی نے یہ بھی پوچھا کہ گائے اگر اللہ میاں کی گائے نہ ہوئی اور اس نے التفات کا جواب تشدد سے دیاتو کیا ہوگا۔وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی نے مغربی بنگال اسمبلی میں اس پورے مضحکہ خیز سچویشن کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ سرکار کو چاہئے کہ گائے کو گلے لگانے والے ہر فرد کو دس لاکھ روپے کا مفت بیمہ فرا ہم کرے تاکہ گائے کی سینگوں سے زخمی ہونے کی صورت میں وہ اپنا علاج کراسکے۔
 تنقیدیں جب بڑھنے لگیں تو فرمان واپس لے لیا گیا۔ ایک مبصر کے مطابق چونکہ اس احمقانہ فرمان کا کوئی سر پیر نہیں تھا اسی لئے حکومت کو اسے واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔ لیکن میرا خیال یہ ہے کہ یہ کوئی پاگلوں والا فیصلہ نہیں تھا بلکہ سنگھ پریوار کی ایک شاطرانہ حکمت عملی تھی۔ دراصل اڈانی اسکینڈل کی وجہ سے پچھلے پندرہ دنوں سے مودی سرکار جس قدر دباؤ میں ہے اور جتنی بیک فٹ پر نظر آرہی ہے اتنی پہلے کبھی نہیں تھی۔ مودی بھکتوں کا پلان یہ تھا کہ لوگوں کی توجہ اڈانی ایشو سے ہٹانے کے لئے گائے کو قربانی کا بکرا بنایا جائے۔اگر اس فرمان کا اس قدر مذاق نہیں اڑایا جاتا تو اسے کبھی واپس نہیں لیا جاتاکیونکہ گائے حکمراں جماعت کے لئے ہمیشہ سے ایک بے حد قیمتی اثاثہ رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ کاش انسان کو بھی گائے کی قسمت اور قدر و منزلت ملی ہوتی،کاش لوگوں کو گائے کو گلے لگانے سے پہلے معاشرے کے دبے کچلے مظلوم اور مغموم لوگوں کو گلے لگالینے کا اپدیش دیا گیا ہوتا،کاش ارباب اقتدار یہ سمجھ سکتے کہ جانور خواہ کتنا بھی مقدس کیوں نہ ہو اسے گلے لگانے سے قبل ان بدقسمت ہم وطنوں کو گلے لگانے کی ضرورت ہے بار بار جن کے گلے کاٹنے کی سر عام دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ 

Humans Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK