Inquilab Logo

کیا پیگاسس مودی کا واٹر گیٹ ثابت ہوگا؟

Updated: August 12, 2021, 8:21 AM IST | Mumbai

اپوزیشن لیڈر دونوں ایوانوں میں پیگاسس پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک ہی سوال ہے کیا حکومت یا اس کی ایجنسیوں نے اسپائی ویئر خریدا تھا؟ اگر ہاں تو کن شرائط پر خریدا تھا؟ حکومت سوال کا جواب دے رہی ہے نہ بحث کیلئے تیار نظر آتی ہے۔

Opposition leaders want to discuss Pegasus in both houses.Picture:INN
اپوزیشن لیڈر دونوں ایوانوں میں پیگاسس پر بحث کرنا چاہتے ہیں تصویر آئی این این

حکومت مخالف عناصر  پر نظر رکھنے یا جاسوسی کرنے کی روایت بہت پرانی ہے اور راجے مہاراجے کے زمانے سے چلی آرہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ٹکنالوجی کے اس ترقی یافتہ دور میں اس کا رنگ وروپ بدل گیا ہے۔ حکومتیں اس کام کے لئے اپنی سیکوریٹی یا انٹلی جنس ایجنسیوں کا یا غیرملکی سائبر کمپنیوں کا استعمال کرتی ہیں۔ اگرآپ  محتاط نہیں  تو ان کمپنیوں کے آلات آپ کے بیڈ روم تک پہنچ جائیں گے اور خبر تک نہ ہوگی۔ پیگاسس اِسپائی ویئر ایسا ہی  ایک آلہ ہے جسے اسرائیل کی این ۔ ایس او گروپ آف ٹکنالوجیز نے تیار کیا۔ اسے سائبر ہتھیار کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔  یہ غیر قانونی طورپر ایک وائرس  کی طرح Cell فون میں گھُستا ہے ، اسے ۲۴؍ گھنٹے نگرانی کرنے والے  آلے میں تبدیل کرتا ہے  اور آپ کا  کچا چھٹا اپنے گاہکوں تک پہنچا دیتا ہے ۔ دوسر ے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ یہ اسپائی ویئر  آپ کے فون کو ہی نہیں، آپ کی زندگی اور چین وسکون کو بھی ہیک کرلیتا ہے۔آئی ٹی ایکٹ کی دفعہ ۴۳؍ اور ۶۶؍ کی رُوسے فون ہیکنگ جرم ہے لیکن ہندوستان ہی نہیں، دنیا کا کوئی بھی ملک اس سے مبّرا نہیں ہے۔
  ہمارا آئین تمام شہریوں کو آزادیٔ فکروضمیر اوراظہار وگفتار کی ضمانت دیتا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ  نے پرائیویسی کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیا۔ یہ سارے حقوق جمہوریت کی بقاء  کے لئے بے حد ضروری ہیں۔   سپریم کورٹ نے   بھی صاف کردیا کہ حکومت یا اس کی پالیسیوں پر تنقید ،  غداری تو کُجا توہین کے زمرے میں بھی نہیں آتی ہے لیکن جمہوری حکومتوں میں شاذ ہی اس پر عمل ہوتا ہے اور مودی حکومت نے  تو ساری حدیں پھلانگ دی ہیں۔ مودی ،آئین وجمہوریت کی پاسداری کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے لیکن اپنے آمرانہ مزاج کے ہاتھوں مجبور ہیں ۔ تنقید ان سے برداشت نہیں ہوتی اس لئے وہ کسی کو نہیں بخشتے ہیں۔ اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں۔ پارلیمنٹ میں غالب اکثریت کے باوجود وہ خود کو غیرمحفوظ سمجھتے ہیں اور تشکیک وتذبیب کا شکار ہیں۔  انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ لوگ ان کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔عوام بڑھتی بیروزگاری اور مہنگائی سے نجات چاہتے ہیں۔ مودی  کو ان کا کوئی حل نہیں سوجھ رہا ہے اس لئے وہ اپنے اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبا نے میں عافیت سمجھتے  ہیں۔
 پیگاسس جاسوسی اسکینڈل اگرچہ ’’مانسون سیشن سے پہلے منظر عام پر آیا لیکن حکومت پر فون ہیکنگ کے الزامات بہت  پہلے سے لگ رہے تھے۔ ۲۰۱۹ء میں انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ میں پہلی بار پیگاسس کا نام سامنے  آیا۔ جس میں  فیس بُک کے وہاٹس ایپ پلیٹ فارم نے سانفرانسکو کی عدالت میں چل رہے ایک کیس میں انکشاف کیا کہ ہندوستانی جرنلسٹوں اور حقوق انسانی رضاکاروں کی مخبری   کاکام پیگاسس نے انجام دیا تھا۔ جب اِس مخبری کی پرتیں کھلنے لگیں تو اس کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اس میں اپوزیشن لیڈروں سمیت سرکاری افسروں ،    وزیروں، عدلیہ ،الیکشن کمیشن ،  سی بی آئی کے ذمہ داروں وغیرہ کے نام بھی جُڑنے لگے۔ ان پرتوں کو کھولنے کا کارنامہ فرانس کی غیر سرکاری تنظیم فاربیڈن   اسٹوریز اور عالمی حقوق انسانی تنظیم ایمنسٹی  انٹرنیشنل نے اپنے میڈیا پارٹنرس کے ساتھ مل کر انجام دیا جس میں ہندوستان کا نیوز پورٹل ’ دی وائر‘ بھی شامل تھا۔
  حکومت نے حسب معمول ہیکنگ سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ہمیشہ کی طرح اپوزیشن پر الزام لگایا اوراسے  ملک اور حکومت کو بدنام کرنے اور مانسون سیشن نہ چلنے دینے کی سازش بتایا۔ حکومت اس گمان میں تھی کہ جس طرح رافیل دفاعی سودے کے گھپلے میں اپنے دفاع میں سپریم کورٹ کو مہر بند لفافے میں خط لکھ کر  اُس نے کلین چٹ حاصل کرلی تھی اُسی طرح پیگاسس اسکینڈل کے الزام  کی  دھار کو بھی کُند کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ یہ اس کی خوش فہمی ہے۔ رافیل معاملے میں راہل گاندھی اکیلے پڑگئے تھے اس بار اپوزیشن لیڈر متحد ہیں اور وہ اسکینڈل کی تہہ تک پہنچنا  چاہتے ہیں۔  دوہفتوں تک پارلیمنٹ کو چلنے نہ دینا  اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے فیصلے پر اٹل ہیں۔  مہر بند لفافے کی روایت سابق چیف  جسٹس رنجن گوگوئی نے شروع کی تھی ۔ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے انہیں  راجیہ سبھا کا ممبر بنا کر مرکز نوازی کا حق ادا کیا۔  موجودہ چیف جسٹس رمنا، جسٹس گوگوئی اوران کے  پیشرو جیسے نہیں۔ انہوںنے اب تک جس طرح کے بیانات دیئے ہیں اور عدالت سے جس طرح کے فیصلے آئے ہیں ان سے عدل وانصاف کے حامیوں کی  ڈھارس  بندھی ہے۔ عدالت نے پیگاسس کو سنگین اور حساس معاملہ قرار دے کر اپنے  تیور  ظاہر کردیئے ہیں۔ حکومت کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ پیگاسس کا شکار  فرانس سمیت دیگر ممالک  نے بھی اس کی جانچ شروع کردی ہے اور  خود  اسرائیل نے این ایس او کے دفاتر پر چھاپہ مار کر تحقیق کا  آغاز کردیا ہے۔
  اپوزیشن لیڈر دونوں ایوانوں میں پیگاسس پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ایک ہی سوال ہے کیا حکومت یا اس کی ایجنسیوں نے اسپائی ویئر خریدا تھا؟ اگر ہاں تو کن  شرائط پر خریدا تھا؟ حکومت سوال کا جواب دے رہی ہے نہ بحث کے لئے تیار  نظر آتی ہے۔ پیر کو راجیہ سبھا میں حکومت کا یہ بیا ن کہ اُس نے   این ایس او سے کوئی سودا نہیں کیا ، کسی کو مطمئن نہیں کرسکا۔ حکومت کے لئے مزید پریشانی کی بات  یہ ہے کہ  رافیل کا  جِن پھر بوتل  سے باہر آگیا ہے۔ اپریل میں فرانس کے ایک تفتیشی  جریدے ’ میڈیا پارٹ‘ نے تین قسطوں میں ایک رپورٹ شائع کی جس میں بتایا گیا کہ فرانسیسی اینٹی کرپشن ایجنسی (اے ایف اے ) کو ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ رافیل  بنانے والی کمپنی ڈسالٹ نے رافیل کی فروخت میں ہندوستان میں کسی کو ایک بڑی رقم دلالی کے طورپر ادا کی تھی۔ فرانس کے ایک جج نے اس معاملے کی تفتیش شروع کردی ہے۔ اگر اس میں صداقت پائی گئی  تو سپریم کورٹ کو جسٹس گوگوئی کی طرف سے حکومت کو دی جانے والی کلین چٹ پر نظر ثانی کرنا لازم ہوگا۔ بعید نہیں کہ پیگاسس اور رافیل گھپلے مودی کا  واٹر گیٹ ثابت ہوں۔n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK