Inquilab Logo

نوجوان سرکاری ملازمتوں کےحصول کی کوشش کریں، یہ ملک کی بھی خدمت ہے اور قوم کی بھی

Updated: May 20, 2022, 2:45 PM IST | Maulana Khalid Saifulah Rahmani | Mumbai

معاش کے مختلف ذرائع میں سے ایک جائز اہم ذریعہ’’ملازمت‘‘ بھی ہے جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’اجارہ‘‘بھی کہتے ہیں۔ اجارہ اشیاء کا بھی ہوتا ہے جیسے مکان کو کرایہ پر حاصل کرنا ،اجارہ وقت کا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس کا وقت حاصل کیا جائے،جیسے ٹیچر سے تدریس کے لئے ، اور اجارہ عمل کا اور کام کا بھی ہوتا ہے

In the current situation, Muslims should make special efforts to join the army and police.Picture:INN
موجودہ حالات میں فوج اور پولس میں شامل ہونے کی مسلمانوں کو خصوصی کوشش کرنی چاہئے؛تاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی نمائندگی ہو۔۔ تصویر: آئی این این

قرآن مجید کی سورہ نمبر۶۲؍ کا نام ’’جمعہ‘‘ ہے، جو گیارہ آیتوں اور دو رکوع پر مشتمل ہے، اسی کے دوسرے رکوع، آیت نمبر ۹؍تا ۱۱؍ میں نماز ِجمعہ کے احکام بیان کئے گئے ہیں۔ بعض احکام صراحتاً ذکر کئے گئے ہیں اور بعض کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ اس میں ہدایت دی گئی ہے کہ جب جمعہ کی اذان ہو تو لوگوں کو فورا مسجد کی طرف دوڑ پڑنا چاہئے؛  تاکہ وہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ جمعہ کا خطبہ بھی سن سکیں، اور فرمایا گیا ہے کہ اذان کے بعد اپنے کاروبار کو بند کر دو، پھر جب نماز سے فارغ ہو جاؤ تواب زمین کی وسعتوں میں رزق کی تلاش کیلئے پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل یعنی روزی تلاش کرو۔ آپ حضرات ان احکام سے واقف ہیں۔   قابل توجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے  اس ارشاد میں رزق کو اپنا ’’فضل‘‘ قرار دیا ہے، یعنی حقوق واجبات کو ادا کرنے اور عزت و خود داری کے ساتھ اپنی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے کسب ِ معاش کی جدوجہد میں شامل ہونا اور اس کی تگ و دو کرنا کوئی بری بات نہیں ہے، جیسے اذان کے بعد نماز کے لئے آنا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اسی طرح نماز سے پہلے اور نماز کے بعد فارغ اوقات میں کسب ِ معاش کی کوشش بھی دین کا ایک اہم حکم ہے جیسا کہ مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے۔  پس یہ آیت دین اور دنیا کوساتھ لے کرچلنے کے سلسلے میں بنیادی اصول کو واضح کرتی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ دین کے ساتھ ساتھ دُنیا کی ضرورتوں کے لئے جدوجہد اور اللہ تعالیٰ کے حق کو ضائع کئے بغیر بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہر مسلمان کا فریضہ  ہے۔ اس کی کیا صورت ہو؟ اس کی تفصیل لوگوں کی پسنداور ان کی صلاحیت پر چھوڑ دی گئی ہے، بعض مذاہب میں مختلف قبائل کے لوگوں کے لئے پیشے متعین تھے، وہ اسی پیشے کے ذریعے کسب ِ معاش کر سکتے تھے، خاص کر ہندوستان میں ذات پات کی تقسیم  کاجو غیر انسانی اور نامنصفانہ نظام مروج تھا، اس میں پیشے مقرر تھے اور بہت سختی کے ساتھ پابندی کی جاتی تھی کہ جو شودر ہیں وہ برہمن جیسی اپنے سے اونچی ذاتوں کے پیشے اختیار نہیں کرسکتے۔ قرآن نے  اس آیت میں اس تصور کو  رد کیا ہے اور کہا ہے کہ رزق کی تلاش کے لئے زمین میں پھیل جاؤ، یعنی  روزگار کے جتنے مواقع موجود ہیں، ان سے استفادہ کرو، کھیتی، شجر کاری، تجارت، مویشی پالن، صنعت و حرفت یا ملازمت، کسبِ معاش کی  تقریباً تمام صورتوں کا قرآن و حدیث میں ذکر موجود ہے۔  معاش کے مختلف ذرائع میں سے ایک جائز اہم ذریعہ’’ملازمت‘‘ بھی ہے جس کو فقہ کی اصطلاح میں’’اجارہ‘‘بھی کہتے ہیں۔ اجارہ اشیاء کا بھی ہوتا ہے جیسے مکان کو کرایہ پر حاصل کرنا، اجارہ وقت کا بھی ہوتا ہے کہ کسی سے اس کا وقت حاصل کیا جائے، جیسے ٹیچر سے تدریس کے لئے، اور اجارہ عمل کا اور کام کا بھی ہوتا ہے جیسے کوئی شخص آپ کا کوئی سامان آپ کی منزل تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرے اور اس کی اجرت متعین ہو، وغیرہ۔ یہ ساری صورتیں جائز ہیں اور قرآن و حدیث سے ثابت ہیں۔ موجودہ دور میں شہری زندگی میں کسبِ معاش کے دو ذرائع بہت اہم ہیں، ایک: تجارت، دوسرے: ملازمت۔ تجارت میں سرمایہ لگانا پڑتا ہے؛ اس لئے جو غریب و نادار لوگ ہیں وہ اس سے استفادہ نہیں کر پاتے۔ ملازمت کیلئے پہلے سے کسی سرمائے کی ضرورت نہیں اور اس میں ایک متعین تنخواہ ملتی ہے جو کارکنان کے لئے اطمینان کا باعث بنتا ہے، اس لئے یہ کسبِ  معاش کی نسبتاً آسان صورت ہے۔  ہمارے ملک کی آبادی بہت زیادہ  ہے جس میں بعض کام افرادی وسائل سے پورے کئے جاتے ہیں اور بعض مشینوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ جہاں آبادی کم ہو، وہاں مشین اور ٹیکنالوجی مفید ثابت ہوتی ہے اور کم پیسوں میں زیادہ آمدنی حاصل ہو جاتی ہے، اور جہاں آبادی زیادہ ہو جیسا کہ ہمارا ملک ہے، وہاں مشینوں کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ افرادی وسائل سے فائدہ اٹھانا بہتر ہوتا ہے؛کیونکہ اس کی وجہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار حاصل ہوتا ہے، اور جب روزگار حاصل ہوتا ہے تو لوگوں کی قوتِ خرید کو بھی فروغ ملتا ہے، حکومت کو ٹیکس کی زیادہ آمدنی بھی ہوتی ہے اور ہر جہت سے یہ بات مفید ہوتی ہے۔ اِدھر ۲۰۱۴ء کے بعد سے سرکاری ملازمت میں نئی تقرری کا سلسلہ بڑی حد تک موقوف کردیا گیا تھا، بے روزگاری اور معاشی بدحالی کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے بے فائدہ مسائل اٹھائے جاتے ہیں، نفرت کا ایجنڈہ تلاش کیاجاتا ہے، اور اس کو پوری قوت کے ساتھ چلایا جاتا ہے، کوشش کی جاتی ہے کہ اصل اور حقیقی مسائل کی طرف سے لوگوں کی توجہ ہٹی رہے۔ بڑی مشکل سے حکومت نے خالی جگہوں کو پُر کرنے کی کوشش کا اعلان کیا ہے۔ مرکزی حکومت کی طرف سے بھی اور ریاستی حکومتوں کی طرف سے بھی، جس میں اعلیٰ ملازمتوں کے مواقع بھی ہیں، اور درجہ چہارم کے لئے بھی تقرری کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس اعلان میں مذہب، نسل اور زبان کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہے، اگر چہ انٹرویو لینے والے عہدہ داروں میں بہت سے لوگ اپنی آنکھوں پر تعصب کے چشمے لگائے رہتے ہیں، لیکن صلاحیت بہر حال اپنے آپ کو منوالیتی ہے،اور تمام عہدہ داران تنگ نظر اور متعصب نہیں ہوتے، اس کی مثال ماضی میں بھی سامنے آتی رہی ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ مسلم نوجوان، ہنر مند اور مختلف ڈگریوں کے حاملین پوری محنت اور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں، اور حوصلہ نہ ہاریں، خاندان میں اگر ایک فرد کے لئے سرکاری ملازمت حاصل ہوجائے تو پورے خاندان کے حالات بدلتے ہیں، وہ خود بھی باعزت زندگی گزارتا ہے اور خاندان کے دوسرے کمزور اور پریشان حال لوگوں کے بھی کام آتا ہے، خاندان کے بچے تعلیم کے راستہ پر چل پڑتے ہیں، اگلی نسلوں کی زندگی بدلتی ہے،اور ان کو سماج میں عزت حاصل ہوتی ہے، اور ان میں بھی تعلیم کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔ اگر شرعی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ملازمت میں مسلم وغیر مسلم اور حکومت کی ملازمت يا پرائیویٹ ملازمت میں کوئی فرق نہیں ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دس سال حضرت شعيب علیہ السلام کی بکریاں چرائیں، یہ گویا پرائیویٹ ملازمت کی شکل ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے بادشاہ مصر سے وزارت خزانہ کا مطالبہ کیا، یہ حکومت کی ملازمت ہے، اور وہ بھی ایک ایسی حکومت کی جس میں غیر مسلموں کو غلبہ حاصل ہے۔ ممانعت صرف ایسی ملازمت کی ہے جس میں انسان کو خلاف شرع کام کرنا پڑے، جیسے: سودی لین دین کا ذریعہ بننا پڑے، جوئے میں شرکت ہو، مال حرام کی تجارت کرنا پڑجائے وغیرہ۔ اگر کوئی ملازمت ایسی ہو جس میں بعض دفعہ خلاف شرع کام بھی ہوا کرتے ہوں مگر وہ اس ملازمت کا مقصود نہیںہوتے، اور وہ اصل مقصد کے اعتبار سے جائز ہو تو اس کی ملازمت بھی درست ہے، جیسے: محکمہ پولس کے لوگوں کا ظلم و زیادتی میں شریک ہونا عام بات ہے؛ لیکن اس کا اصل مقصد امن و امان کو قائم رکھنا ہے جو ایک جائز مقصد ہے، اس لئے اس شعبہ کی ملازمت اختیار کرنا نہ صرف جائز ہے؛ بلکہ موجودہ حالات میں فوج اور پولس میں شامل ہونے کی مسلمانوں کو خصوصی کوشش کرنی چاہئے ؛ تاکہ زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی نمائندگی ہو۔
  یہ ملک کی بھی خدمت ہے اور قوم کی بھی۔ یہ اپنے لئے بھی سربلندی کا ذریعہ ہے، اور قوم کے لئے بھی عزت و وقار کا سبب ہے۔ جب ہم مسجد سے باہر نکلتے ہیں اور دونوں طرف ٹوپی اور برقع پہنے ہوئے بھکاری مردوں اور عورتوں کی لائن  نظرآتی ہے، تو کیا صرف انہی افراد کی رسوائی ہوتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ پوری قوم کے چہرہ پر ذلت و رسوائی کا بدنما داغ ہے، آئے دن ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں جگہ جسم فروشی کے اڈے پر دھاوا بولا گیا،  اور اس میں فلاں فلاں عورتیں گرفتار ہوئیں، عموماً ان  کے نام مسلمانوں کے سے ہوتے ہیں، کیا یہ واقعہ پوری ملت کو شرمسار نہیں کرتا؟ آئے دن ایسی داستانیں اخبارات کی زینت بنتی ہیں، جن کے مطابق مسلمان خواتین نے غیر مسلم مردوں کےہاتھ تھام لئے، اس سے بڑھ کر شرم کی بات اور کیا ہوگی؟  یہ اور اس طرح کے واقعات کے پیچھے جو چیز کارفرما ہوتی ہے، وہ ہے’’غربت و افلاس‘‘ اور ’’بے روزگاری‘‘ اس لئے مسلمانوں کا مزاج بننا چاہئے کہ وہ محنت و مزدوری کریں، کسی بھی حلال کام کو چھوٹا نہ سمجھیں، کسب معاش کی جد وجہد میں آگے بڑھیں، شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے معاشی حالات کو بہتر بنانے پر توجہ دیں اور ملازمت کے جو بھی مواقع ملیں، ان کو حاصل کرنے کی بھرپور جد وجہد کریں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK