Inquilab Logo

چار کوششوں میں نا کامی نے مایوس کیا لیکن خودکو ٹوٹنے نہیں دیا،محنت و کوشش کی اور

Updated: May 25, 2023, 10:46 AM IST | Shaikh Akhlaq Ahmed | Mumbai

ممبئی کے واڑی بندر کی شولاپور اسٹیٹ چال کے رہنے والے سیدمحمد حسین سید رمضان نے یوپی ایس سی امتحان۲۰۲۲ء میں ۵۷۰ ؍ویں رینک حاصل کی ہے۔

Syed Muhammad Hussain Ramzan Outside UPSC Headquarters. Left: With the family outside the house.
سید محمد حسین رمضان یوپی ایس سی کے ہیڈکوارٹر کے باہر۔ بائیں : گھر کے باہر اہل خانہ کے ساتھ۔

ممبئی کے واڑی بندر کی شولاپور اسٹیٹ چال کے رہنے والے سیدمحمد حسین سید رمضان نے  یوپی ایس سی  امتحان۲۰۲۲ء میں ۵۷۰ ؍ویں رینک حاصل کی ہے۔ محمد حسین کیلئے کامیابی کا یہ حصول جدوجہد و آزمائشوں  سےپُر رہا ۔ وہ اس طرح کہ   ڈونگری، واڑی بندرمجگاؤں ڈاک سے متصل ہے، لہٰذا یہاں گودام  زیادہ ہیں ۔ روزانہ   ہیوی گاڑیوں کی لوڈنگ اَن لوڈنگ ہوتی ہے ۔ یہیں  لب سڑک ایک  پترے کے چھوٹے سے جھوپڑے میں حسین  سید  رہتے ہیں ۔ حسین سے خصوصی ملاقات کیلئے راقم   واڑی بندر پہنچا ۔ علیک سلیک کے بعد فوراً حسین گویا ہوا ’’سر میں نے وعدہ کیا تھا اس بار میں آپ کو انقلاب کیلئے  انٹرویو کا ضرور موقع دوں گا، لیجئے پورا ہوگیا ۔‘‘  مجھے چند ماہ قبل  فاطمہ بائی موسیٰ پٹیل گرلز سول سروس کوچنگ سینٹر پر  ہونیوالی ملاقات یاد آگئی ۔    کچھ دیر کیلئے حسین چند ٹی وی چینلز اور یوٹیوبرز کے درمیان مصروف ہوا اور پھر کہا کہ سر ہم یہاں سے قریب ایک جگہ چل کر بیٹھتے ہیں، گھر چھوٹا ہے ملنے جلنے والے آتے رہیں گے۔ ہم قریب میں واقع جعفر سلیمان ہاسٹل پہنچے۔ حسین  نے بتایا کہ ’’ سر میرے  پانچویں اٹیمپٹ کی مکمل تیاری اسی جگہ ہوئی ہے ۔‘‘ 
ابتدائی تا گریجویشن تک کا سفر کیسے طے ہوا؟
 اس استفسار پر حسین نے بتایا کہ اول تا پنجم جماعت تک میں نے خوجہ شیعہ اثناء عشری اسکول سے حاصل کی ، پھر  سینٹ جوزف ہائی اسکول، ڈونگری میں چھٹی جماعت میں داخلہ لیا، جہاں سے دسویں   ۲۰۱۲ءمیں۶۱؍ فیصد سے کامیاب کیا۔ بعد ازیں انجمن اسلام الانا جونیئر  کالج وی ٹی سے بارہویں  کامرس ۲۰۱۴ء میں۷۲؍  فیصد  سے کامیاب کیا۔ پھر  الیفنسٹن کالج سے ۲۰۱۷ء  میں   بی کام ۸۶؍ فیصد   سے مکمل کیا۔
’سول سروس ‘ہدف کیوں اور کیسے ؟
 اس ضمن میں محمد حسین نے بتایا کہ ’’میرے والد ناخواندہ  ہیں، ان کا  بچپن ایسے علاقہ میں گزرا جو ایک زمانہ میں جرائم کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔   والد نے ہم بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلاکر سرکاری افسر بنانے کا خواب دیکھا ۔  وہ  محلہ کمیٹی کے ممبر ہیں ، لہٰذاپولیس اسٹیشن کی  جانب سے منعقد پروگراموں میں شرکت کرتے تھے،  سرکاری دفاتر میں ان کے ساتھ مجھے جانے کا موقع ملتا تھا، تبھی افسران سے متاثر ہو کر کم عمری میں ہی میرے  ذہن میں افسر بننے کا خیال بس گیا۔‘‘قابل ذکر ہے کہ چھوٹا گھر ہونے کی وجہ سے اکثر  باہر بیٹھ کر اور رات کے وقت اسٹریٹ لائٹ کی روشنی میں پڑھائی کرنے والے حسین نے کبھی ٹریفک کے  شور کی پرواہ  نہیں کی۔
تیاری کیسے شروع ہوئی؟
  حسین نے بتایا کہ’’ گریجویشن  کے بعد میں نے مقابلہ جاتی امتحانات میں کریئر کا فیصلہ کیا میرے والد کی خواہش تھی کہ اگر قرب جوار اور علاقہ کے حالات بدلنا ہے تو  مجھے کچھ بن کر دکھانا ہوگا۔ کریئر سے متعلق بہت زیادہ اویرنیس نہ ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے طور سے جو کچھ معلومات حاصل کی اور اسے بنیاد بنا کر ممبئی سے پونے پہنچا۔وہاں یونک اکیڈمی میں ایڈمیشن لیا اور  باقاعدہ سول سروسز کی پڑھائی کی ۔  آٹھ ماہ کی تیاری میں ۲۰۱۸ء  کے پہلے ہی اٹیمپٹ میں پریلیم امتحان کوالیفائی ہوگیا لیکن مینس  میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اسی دوران جامعہ ریسیڈینشئیل کوچنگ اکیڈمی کا علم ہوا میں نےاسکاانٹرنس کامیاب کیا اور دہلی چلا گیا۔ لیکن۲۰۱۹ء  کا پریلیم  کوالیفائی نہیں کرسکا اور اسکی وجہ یہ تھی کہ میں نے مینس کی تیاری پر پورا زور لگایا اور اسی پر اپنی تمام توجہ مرکوز کردی تھی چونکہ پڑھائی کا مجھے تجربہ نہیں تھا یہ میرے لئے ایک بڑا سبق تھا  ۔
ممبئی میں سول سروس امتحان کی تیاری کیسے ہوئی؟
 حسین نے بتایا کہ ’’کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے  میں ممبئی آگیا۔  یہاں اس وقت کے سی ای او   مقصود خان  نے مجھے حج ہاؤس میں تیاری کا موقع دیا ۔ گھر سے قریب تمام سہولیات  ملنے سے   خوب محنت کی  اور بالترتیب ۲۰۲۰ء  اور۲۰۲۱ء  کا  پریلیم کوالیفائی کیا لیکن مینس میں پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔چند ناگزیر حالات کے سبب حج ہاؤس سینٹر سے  سابق طلباء نکلے تو میرے لئے یہ بڑی کسمپرسی کا عالم تھا۔ اسی دوران مقصود خان صاحب کی کوششوں سے جعفر سلیمان مسافر خانہ میں سول سروس امتحان کی تیاری کے لئے ایک سینٹر کا آغاز کیا گیا۔ اللہ نے اسباب پیدا کئے میں بہت خوش ہوا کیونکہ چھوٹا سا گھر تھا جہاں گھر کے تمام افراد کے درمیان رہ کر یکسوئی کے ساتھ پڑھائی ناممکن تھی۔ جعفر سلیمان سینٹر جوائن کرنے کے بعد  میں نے پڑھائی کے ساتھ ساتھ طلباء کو کوچنگ بھی شروع کی۔ الحمد للہ جب سے یہ سینٹر کا قیام ہوا ہے تب سے کسی نہ کسی امتحان میں طلباء اپنی کامیابی کا لوہا منوا رہے ہیں۔ اس کا پورا کریڈٹ مقصود خان  اور انکے رفقاء کو جاتا ہے جنھوں نے بلا تردد وقت ضرورت اس سینٹر کی بنیاد رکھی۔ نہایت محدود ذرائع اور سہولیات کے فقدان کے باوجود یہاں سے تیاری کرنا میرے لئے نتیجہ خیز ثابت ہوا۔
 پے درپے ناکامی نے آپ پر کیا اثر ڈالا؟
  پریلیم  کے پہلے چار اٹیمپٹ میں سے  تین  کوالیفائی کر چکا تھا لیکن  مینس  میں مسلسل ناکام ہوتا،  جس  میں بہت مایوس ہوا لیکن خود کو ٹوٹنے نہیں دیا ۔ ایک دن یہیں  مسافر خانہ کی مسجد کے صحن میں بیٹھ کر اللہ کے حضور خوب رویا اور پھر  خود احتسابی کی،  اپنی کمزوریوں، خوبیوں کا احاطہ کیا اور ناکامی کی وجوہات  کا اندازہ لگایا  اورآخر میں  مصمم ارادہ  کے ساتھ یہاں  سے یہ عزم لے کر اٹھا کہ اب اگلا سفر کامیابی کا ہی ہوگا۔ اور پھر مئی۲۰۲۲ء  کا پریلیم کوالیفائی کیا۔ اس  سے میرا حوصلہ بڑھا۔ ستمبر۲۰۲۲ء  میں مینس امتحان ہوا، الحمدللہ   اس میں بھی مجھے کامیابی ملی، پھر انٹرویو کی تیاری کے لئے میں جامعہ آرسی اے دہلی چلا آیا جہاں سینئر کی تربیت و رہنمائی، مسلسل ماک انٹرویوز اور خوب محنت سے کانفیڈنس حاصل ہوا۔  فروری۲۰۲۳ء  کا انٹرویو اَپیئر کیا اور الحمدللہ اپنی پانچویں کوشش میں۵۷۰؍  رینک کے ساتھ مجھے کامیابی حاصل ہوئی۔   آج میں جس مقام پر ہوں اس میں میرے والدین، رشتہ دار، دوست احباب، حج ہاؤس، جامعہ آر سی اے، جعفر سلیمان مسافر خانہ سول سروس سینٹر، اور خصوصی طور سے مقصود احمد خان صاحب کا تعاون حاصل رہا۔‘‘
آپ  طلباء کے نام کوئی پیغام دینا چاہتے ہیں؟
  محمد حسین نے طلبہ سے کہاکہ ’’ سول سروس کے امتحان میں وقت لگتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما اور محنت طلب امتحان ہے جس میں جامع منصوبہ بندی، یکسوئی، مثبت رویہ، مستقل مزاجی ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ کبھی کبھی دوران تیاری بہت تناؤ سے گزرنا پڑتا ہے۔ میں طلباء سے کہنا چاہوں گا کہ کامیابی کسی کی جاگیر نہیں۔ ہر ایک محنت کش کا اس میں حصہ ہے۔ آپ جس فیلڈ میں بھی اپنا کرئیر بنانا چاہتے ہو، اس فیلڈ کے پروفیشنلز سے ملاقات کرکے مکمل جانکاری حاصل کریں اور خوب محنت کریں۔ ‘‘  قابل ذکر ہے کہ  حسین کے دادا سرکاری ملازم تھے۔   والد سیّد رمضان تعلیم حاصل نہیں کرسکے۔ انہوں نے   ڈاک یارڈ میں مزدور کے طور پرکام کیا پھر  سپروائزر بن گئے۔ والدہ زاہدہ سید خاتون خانہ ہیں ۔ ان دونوں نےبچوں کی پڑھائی کیلئے خوب مشقتیں اٹھائی ہیں۔

youth Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK