Inquilab Logo

مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں اس شعبے کی اہمیت اور پروفیشنل کی مانگ میں اضافہ ہوگا

Updated: March 27, 2023, 1:45 PM IST | Azhar Mirza | Mumbai

میٹ دی پروفیشنل ‘کے ذریعہ ہم اس ہفتے علم نفسیات کی ماہر حمیرہ ضمیر الحسن خان سےآپ کی ملاقات کروارہے ہیں۔

Humira Zameerul Hasan Khan
حمیرہ ضمیرالحسن خان


 ’میٹ دی پروفیشنل ‘کے ذریعہ ہم اس ہفتے علم نفسیات کی ماہر حمیرہ ضمیر الحسن خان سےآپ کی ملاقات کروارہے ہیں۔ نیرول ، نئی ممبئی کی رہنے والی حمیرہ  نے ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس سے’ایم فِل اِن سائیکائٹرک سوشل ورک ‘ کیا ہے  اور وہیں بطور کاؤنسلر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔  قبل ازیں انہوں نے  بی اے سائیکالوجی کے بعد ایم اے سوشل ورک اِن مینٹل ہیلتھ (اسپیشلائزیشن) کیاہے۔  
 گفتگو کی شروعات میں انہوں نے بتایا کہ میں ایک کاؤنسلر کے طور پر ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز(ٹِس) میں سرگرم ہوں اور یونیورسٹی کے طلبہ کی مینٹل ہیلتھ کاؤنسلنگ کا کام کررہی ہوں۔ 
حمیرہ ، آپ  نے کریئر کیلئے یہ فیلڈ کیوں منتخب کی؟
  اسکول کے وقت سے ہی میرا رجحان سائیکولوجی کی طرف رہا ہے۔  لوگوں کو سمجھنا، کوئی اگر کچھ کررہا ہے ، اس کے پیچھے اس کی کیا سمجھ ہے یا وہ کیوں کررہا ہے، یہ جاننے کا تجسس مجھے ہمیشہ سے رہا۔ میرے دادا جی طویل العمری کے سبب کچھ باتیں ایسی کرتے جو دوسروں کو سمجھ میں نہیں آتی تھیں۔ تب میں ان کی ترجمان بن جاتی تھی۔ مجھے لوگوں کےسوچنے کے طریقے پر غور وفکر کرنا اور اسے سمجھنا اچھا لگتا تھا۔  ماسٹر ز میں نے سائیکالوجی کے  بجائے سوشل ورک میں کیا ہے۔ کیونکہ مجھے ٹِس سے پڑھائی کرنی تھی ۔  مینٹل ہیلتھ کو صرف ’کلینکل پرسپیکٹیو‘   یعنی کہ اسے  بیماری کے طور پر یا ایک ہاسپٹل سیٹ اپ میں نہیں دیکھنا چاہئے۔  جو سماجی عوامل  ہیں وہ کس طریقے سے ہماری ذہنی صحت پر اثر انداز ہوتے ہیں، اس کو جاننا ،سمجھنا اور اس کے گرد کام کرنے میں دلچسپی نے مجھے اس میدان میں پیشقدمی کی ترغیب دی۔ پھر اس کے بعد مجھے کلینکل پریکٹس بھی کرنی تھی،  ایم اے سوشل ورک کے بعد اتنی  ٹریننگ نہیں ہوتی کہ انفرادی طور پر کاؤنسلنگ کرسکیں۔ایک آرگنائزیشنل لیول پر کرسکتے ہیں۔ اسلئے میں نے ایم فل کیا، اسکے بعد ایک ریسرچر کے طور پر کام کیا۔ خودکشی کی روک تھام سے متعلق ایک پروجیکٹ میں ریسرچ اسوسی ایٹ کے طور پر کام کیا۔  اس کے علاوہ ایک دیگر پروجیکٹ میں بھی تعاون کیا ہے ۔ 
سائیکولوجی کو عموماً ایک خشک مضمون سمجھاجاتا ہے،اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟
 جی میں مذکورہ موقف کی تائید نہیں کروں گی، بلکہ مجھے تو یہ مضمون بڑا ہی دلچسپ لگتا ہے۔یہ انسان کو سمجھنے کا علم دیتا ہے۔ انسان کی سوچ ذہن میں کس طریقے سے بنتی ہے ، انسانی ذہن کی کون سی بیماریاں ، اس کی کتنی قسمیں ہیں، یا وہ کون سے عوامل ہیں جو ہماری ذہنی صحت پراثر انداز ہوتے ہیں، یہ سب کچھ سائیکولوجی مضمون سیکھاتا ہے۔
آپ سائیکولوجسٹ ہیں یا سائیکائٹرک؟
 وسیع اصطلاح میں مجھے آپ ’مینٹل ہیلتھ پروفیشنل ‘  کہہ سکتے ہیں۔  میں ایک ’سائیکائٹرک سوشل ورکر‘ ہوں۔میرا کام ذہنی طور سے متاثرافراد کو بات چیت  کے ذریعہ ٹھیک کرنے کی کوشش کرنا ہے ، ضرورت پڑے تو اس کے اہل خانہ سے بات چیت کرنا جو سائیکولوجسٹ نہیں کرتے ہیں۔ 
تعلیمی زندگی اور کریئر میں کیا آپ کو چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا؟
 اللہ کا شکر ہے کہ مجھے گھر والوں سے بھرپور تعاون ملا ہے۔ لیکن  میں ایک اقلیتی طبقہ کی  دوشیزہ  ہوں جو باحجاب رہتی ہے۔ اس سبب میرے لئے یہاں تک پہنچنا چیلنجنگ ہی رہا۔ بالخصوص ماسٹرز کے دوران مجھے احساس ہوا کہ میری شناخت کو دنیا کس طرح سے دیکھتی ہے۔ میرے حلیے اور شناخت کے سبب مجھے پلسیمنٹ نہیں ملا۔ایک دو جگہ پرسوال قائم کیا گیا کہ میں اپنے اس حلیے(حجاب /نقاب) کے ساتھ کام کرپاؤں گی۔ میرا یہ کہنا ہے کہ جب میں اسی طرح سے اب تک  اپنی تعلیم حاصل کرتی رہی ہوں، مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی ہے تو پھر ملازمت میں کیا مسئلہ ہوگا۔ بہر حال ، تب مجھے ملازمت نہیں ملی، حالانکہ میرے بیچ کے تقریباً سبھی طلبہ روزگار سے منسلک ہوگئے۔ ایسا نہیں تھا کہ قابلیت یا عدم صلاحیت کا کوئی مسئلہ تھا۔مجھے یہ لگتا ہے کہ ہم لوگوں (خواتین کو)کو’انٹرنلی‘ اور ’ایکسٹرنلی‘  بہت  سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔خیر میں نے فری لانس کے طور پر کام کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایم فل کیا۔ مجھے یہ پتہ تھا کہ جتنی بہترین ڈگری میرے پاس ہوگی، اتنے مجھے کم مسائل درپیش ہوں گے۔
آپ جس فیلڈ میں ہیں ، اس میں طلبہ کو کیوں جانا چاہئے؟
 آج ہمارے ملک میں ’مینٹل ہیلتھ پروفیشنلز‘ کی ضرورت تو بہت ہے۔  کیونکہ ذہنی طور سے پریشان افراد کی تعداد کے تناسب میں دیکھیں تو  ہمارے یہاں تربیت یافتہ افراد کی کمی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے یہاں روزگار کی شرح بہت خراب ہے، تو ایسا بھی نہیں ہے کہ آپ اس شعبے کی تعلیم مکمل کریں اور آپ کو ایک بہترین  ملازمت مل جائے اور اچھے پیسے ملنے لگیں۔ لوگ اس لئے بھی اس سمت نہیں آتے کہ اِدھر  اتنا پرکشش ’سیلری پیکیج‘ نہیںہوتا ۔لیکن اب صورتحال بدلنے لگی ہے ۔ کیونکہ حکومتی پالیسی میں اب ’مینٹل ہیلتھ‘ پربات ہورہی ہے۔ پروفیشنلز کی بھرتی بھی ہورہی ہے۔بہرحال ، اگر آپ لوگوں کے ذہنی مسائل کو سمجھنے اورحل کرنے کا جذبہ و فکر رکھتے ہیں اور تبدیلی پیدا کرنے کی صلاحیت و قابلیت رکھتے ہیں تو آپ کو  سائیکولوجی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہئے ۔
اس شعبے میں مواقع کہاں اور کیسے ہیں؟
 یہاں روزگار کا راست ذریعہ اسپتال(پرائیویٹ اور سرکاری)  ہیں،جہاں پر سائیکائٹرک شعبہ ہوتا ہے۔ وہاں  ملازمتوں کے مواقع ہوتے ہیں۔ ممبئی اور مہاراشٹر کا یہ حال ہے کہ جہاں بی ایس ڈبلیو کی ضرورت ہوتی ہے وہاں ایم ایس ڈبلیو کو رکھا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں یوپی گورنمنٹ نے بی ایس ڈبلیو کی بھرتی کی تھی۔ ایک دشواری جو یہاں آتی ہے ،  وہ ہے ’ہائرارکی‘ یہاں سائیکائٹرک  اپنے آپ کو سب سے بہتر سمجھتے ہیں کیونکہ وہ سائنس بیک گراؤنڈ سے آتے ہیں،  حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہ شعبہ ’ملٹی ڈسپلنری‘ جہاں پر ہر ایک کی اپنی خصوصیت اور مہارت ہے۔  پھر اس کے بعد آتے ہیں سائیکولوجسٹس کیونکہ وہ سائیکلولوجیکل ٹیسٹنگ کرسکتے ہیں ،جو ہمیں سکھایا تو جاتا ہے لیکن ہم کرتے نہیں ۔  اسکے بعد سوشل ورکر اور پھر سائیکائٹرک نرس کا نمبر آتا ہے ۔خیر، آپ پرائیویٹ سائیکائٹرک  کے ماتحت بھی کام کرسکتے ہیں ۔ مجھے لگتا ہے کہ مستقبل میں اس شعبے کی اہمیت بڑھے گی اور پروفیشنل کی ڈیمانڈ بڑھے گی ۔  فی الوقت یہ بھی ہورہا ہے کہ کوئی بھی  سرٹیفکیٹ کورس کرکے خود کو کاؤنسلر کہہ رہا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ اس شعبہ میں پریکٹس کیلئے آپ کے پاس کم ازکم ماسٹرز ڈگری ہونی چاہئے۔ 
سائیکولوجی اور اس سے متعلقہ شعبے میں کریئر کیلئے اعلیٰ  کورسیز کون سے ہیں؟
 ایسے طلبہ کیلئے مشورہ ہے کہ سب سے پہلے تو گیارہویں بارہویں آرٹس سے کیا جائے، ان جماعتوں  میں سائیکولوجی مضمون ہو تو اور بھی بہتر ہے۔ آپ بی اے سائیکولوجی بھی کرسکتے ہیں۔ کچھ یونیورسٹیاں ہیں جہاں بی ایس سی سائیکولوجی کا آپشن ہوتا ہے لیکن زیادہ تر اداروں  میں بی اے سائیکولوجی ہی ہوتا ہے ۔ اس کے بعد اگر آپ کو سائیکولوجی میں آگے بڑھنا ہے تو ایم سائیکولوجی کریں ۔ ایم اے سائیکلولوجی کی کئی شاخیں ہیں، ممبئی میں سوشل سائیکولوجی،  کلینکل سائیکلوجی، کاؤنسلنگ سائیکولوجی اور انڈسٹریل سائیکولوجی کے متبادل ہیں۔ انڈسٹریل سائیکولوجی کا کام ایچ آر اور کاؤنسلر کے بیچ والا ہوتا ہے ۔ کاؤنسلنگ سائیکلوجسٹ ایسے افراد جنہیں کوئی ذہنی مسئلہ تشخیص نہیں ہوا ہے لیکن وہ بالکل خطرے کی حد کے پاس ہیں ، یا پریشان ہیں یا ان کو کسی پروفیشنل سےبات کرنی ہے تو یہ ان کیلئے کام کرسکتے ہیں۔ کلینکل  سائیکلوجسٹ ایسے افراد کیلئے کام کرتے ہیںجنہیں سائیکائٹرک ’سیٹ اپ‘ میں  ڈائگنوس کیا گیا ہے ۔ کاؤنسلنگ سائیکولوجی والے کلینکل سائیکولوجی والوں کے ساتھ کام کرنے کیلئے فٹ نہیں ہیں۔ مینٹل ہیلتھ کیئر ایکٹ ۲۰۱۷ء کے مطابق کلینکل سائیکولوجسٹ ہونے کیلئے کم ازکم ڈگری کلینکل سائیکولوجی میں ایم فل ہونا چاہئے۔  اس کے بعد سائیکائٹرک سوشل ورک کی بات کریں تو آپ کے پاس بی اے یا بی ایس ڈبلیو ہو اس کے بعد آپ سوشل ورک میں  ایم اے یا ایم ایس ڈبلیو کریں  اور اس میں مینٹل ہیلتھ کا بہت جگہ اسپیشلائزیشن ہوتا ہے ،  بعدازیں  آپ ایم فل کرسکتے ہیں۔ فی الوقت ملک بھر میں ۱۰؍ سے ۱۱؍ یونیورسٹیز ہیں جہاں ایم فل اِن سائیکائٹرک سوشل ورک  کا ۲؍ سالہ کورس  ہوتا ہے ۔ ممبئی میں صرف  ٹِس  ہے، جہاں  ایم فل اِن سائیکائٹرک سوشل ورک ہے، اس کورس کا ہمارا پہلا ہی بیچ تھا۔  یہ کورس پونے، گوا، بنگلور ، سی آئی پی رانچی ، آسام ،دہلی میں ہیں۔ 
کیاان کورسیز کیلئے داخلہ امتحان دینا پڑتا ہے؟
  ایم فل میں میں داخلے کیلئے ہر یونیورسٹی کا علاحدہ انٹرنس ٹیسٹ ہوتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی میں ایم فل کو بہت سی جگہ سے ہٹادیا گیا ہے ، لیکن ایم فل اِن کلینکل سائیکولوجی اور ایم فل اِن سائیکائٹرک سوشل ورک کو ابھی ’ڈِی بَنک‘ نہیں کیا ہے اور انداز ہے کہ کچھ سال میں یہ کورسیز بھی  ختم کئے جاسکتے ہیں۔  ٹِس  میں سوشل ورک کورس کیلئے داخلہ امتحان دینا پڑتا ہے۔ 
کریئر کے حوالے سے آپ طلبہ کو کوئی پیغام دینا چاہتی ہیں؟
 ہمارے یہاں کریئر کے تئیں معلومات کی کمی دیکھی جاتی ہے۔ میں نے ماسٹرز کے وقت میں بھی اپنے ساتھ ایسے طلبہ دیکھے ہیں جنہوں نے ماسٹرز میں داخلہ تو لے لیا لیکن انہیں یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ انہوں نے یہ کیوں لیا اور آگے وہ کیا کریں گے۔ اگر طلبہ سیکنڈری اسکول سے ہی اپنا دماغ دوڑانے لگیں کہ وہ کیاکیا بن سکتے ہیں اور کس طرح بن سکتے ہیں تو یہ بہتر ہوگا۔ ہاں یہ بھی خیال رہے کہ اپٹی ٹیوڈ ٹیسٹ کو بھی حرف آخر نہیں مان سکتے۔ اسلئے طلبہ خود کی صلاحیتوں اور رجحان کو ٹٹولتے رہیں، مختلف فیلڈ کے لوگوں سےبات کریں۔مجھے انگریزی لٹریچر ، بی ایچ ایم ایس ، سائیکولوجی میں بھی مجھے دلچسپی تھی۔ میں اپنی بات کروں تو جب میں گیارہویں  بارہویں  میں تھی تب  مذکورہ کورسیز کرنے والے افراد سے ملتی رہی اور ان سے بات چیت کی جس سے مجھے کافی مدد ملی ۔ 

youth Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK