Inquilab Logo Happiest Places to Work

زندگی مشکل ہوگی ،اتار چڑھاؤ آئیں گے، پریشانیاں بھی ہوں گی لیکن

Updated: July 05, 2023, 10:43 AM IST | Muniba Mazari | Mumbai

میرے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے اور لوگ پوچھتے ہیں کہ تم ہنستے ہنستےکیوں نہیں تھکتی؟ اس کا کیا راز ہے؟  میں  کہتی ہوں، میں  نے ان چیزوں کے بارے میں سوچنا بندکردیا ہے ، جو میں کھوچکی ہوں۔

Muniba Mazari  photo;INN
منیبہ مزاری تصویر :آئی این این

سب میری معذوری دیکھتے ہیں، میں اپنی قابلیت دیکھتی ہوں۔ لوگ مجھے ’ڈِس ایبلڈ‘ کہتے ہیں، میں خود کو ’ڈِفرنٹلی ایبلڈ‘ مانتی ہوں۔ زندگی میں ایسے کچھ حادثات ہوتے ہیں، جو آپ کو پوری طرح توڑکر رکھ دیتے ہیں۔ پریشان کرتے ہیں، لیکن یقین جانئے وہ آپ کو ’بیسٹ ‘  بناتے  ہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا تھا۔  میں اٹھارہ سال کی تھی جب میری شادی ہوگئی۔   بدقسمتی سے میری ازدواجی زندگی خوشحال نہیں تھی۔ شادی کے ۲؍ سال بعد میرا کار ایکسیڈنٹ ہوگیا۔  مجھے شدید چوٹیں آئیں۔ فہرست بہت لمبی ہے ، آپ گھبرائیے گا نہیں۔ میری کلائی ٹوٹ گئی تھی، کندھے کی ہڈی اور کالر بون بھی فریکچر تھی۔ پسلیاں بھی بری طرح زخمی تھیں  جس سے پھیپھڑے اور گردوں پر اثر پڑا تھا ۔ سانس لینا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ ریڑھ کی ہڈی کے ۳؍مہرے پھوٹ چکے تھے۔ یوں  اپنی پوری زندگی  مفلوج جسم کے ساتھ گزارنا میرا مقدر بن چکا تھا۔  میں اسپتال میں تقریباً ڈھائی ماہ زیر علاج رہی۔ میرے کئی طرح کے آپریشن ہوئے۔ ایک دن ڈاکٹر نے کہا کہ  میں نے سنا ہے کہ تم آرٹسٹ بننا چاہتی تھی،  تمہارے لئے ایک بری خبر ہے۔ تم اب مصوری نہیں کرپاؤگی۔ کیونکہ تمہاری کلائی اور بازو  پوری طرح سے ڈیفارمڈ ہوگئے ہیں،اس وجہ سے قلم بھی نہیں پکڑسکوگی۔ اگلی بار ڈاکٹر آئے، اور مجھ سے کہا کہ تمہاری ریڑھ کی ہڈی کا زخم کافی گہرا  ہے ۔افسوس کہ تم دوبارہ چلنے پھرنے کے قابل نہیں بن سکوگی۔  اتنا ہی نہیں تم ماں بھی نہیں بن پاؤگی ۔ یکے بعد دیگرے یہ  سب جان کر میں گہرے  صدمہ میں چلی گئی۔ میں سوچنے لگی کہ اتنا سب کچھ  ہونے کے بعد بھی میں زندہ ہی کیوں  ہوں؟  میں  نے  اپنی والدہ سے پوچھا کہ ’’میں ہی کیوں ؟‘‘اور تب میں مجھے یہ معلوم  ہوا کہ الفاظ میں بھی آپ کو راحت دینے کی طاقت ہوتی ہے ۔ میری والدہ نے مجھ سے کہا کہ یہ وقت بھی گزرجائے گا۔  خدا کے پاس تمہارے لئے اس  سے بہتر منصوبہ ہے ۔ مجھے نہیں پتہ کہ وہ کیا ہے ، پر اسکے پاس  ہے۔ یقین جانئے  ان سب پریشانیوں اور دکھوں کے درمیان  وہ الفاظ  اتنے جادوئی تھے کہ انہوں نے مجھے چلتے رہنے کا حوصلہ دیا۔ 
 ایک دن میں نے اپنے بھائی سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ میرے ہاتھ ’ڈیفارمڈ‘ ہیں ۔ لیکن میں اسپتال کی ان سفید دیواروں کو دیکھ دیکھ کر تھک چکی ہوں ۔ ان سفید کپڑوں کو پہنتے پہنتے بیزار ہوگئی  ہوں۔ میں اپنی زندگی میں رنگ بھرنا چاہتی ہوں۔   میں کچھ کرنا چاہتی ہوں، مجھے تم برش اورکچھ رنگ لاکر دو، ساتھ ہی  چھوٹا سا کینواس بھی لا دو، میں پینٹنگ کرنا چاہتی ہوں۔ اور اس طرح میں نے اسپتال کے بیڈ پر اپنی پہلی پینٹنگ  بنائی۔  وہ آرٹ کا کوئی فن پارہ یا میرا جنون نہیں تھا، وہ میری تھیراپی تھی۔ مجھے اسپتال سے رخصت ملی ، اور میں گھر واپس گئی ۔ یہاں آکر مجھے احساس ہوا کہ میرے جسم میں کئی پھوڑے نکل آئے ہیں۔ میں بیٹھ بھی نہیں سکتی تھی۔ میرے پورے جسم کو کئی طرح کے انفیکشن لاحق ہوگئے،  کئی طرح کی الرجی ہوگئی  ۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ میں بستر پر بالکل سیدھی پڑی رہوں۔ یہ کام کوئی چھ مہینے یا ایک سال کے لئے نہیں تھا۔ میں دو سال تک بستر پر پڑی رہی، اسی ایک کمرے میں بند۔ اس دوران کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے اور پرندوں کی چہچہاہٹ سنتے ہوئے اکثر یہ سوچتی کہ وہ ایک دن ضرور آئے گا  جب میں اہل خانہ کے ساتھ باہر جاؤں گی ۔ خوب موج مستی کروں گی۔ اس عرصے میں مجھے یہ احساس ہواکہ لوگ کتنے خوش قسمت ہیں۔ تبھی میں نے تہیہ کرلیا تھا کہ جب میں بیٹھنے لگوں گی تو اس درد کو سب کو بتاؤں گی ۔ انہیں اس بات کا احساس دلاؤں گی کہ وہ کتنے خوش نصیب ہیں ، جو کہ وہ ماننے کو تیار نہیں رہتے۔  میں نے طے کرلیا کہ اب میں اپنے ڈر سے لڑوں گی۔ ہم سبھی کے اندر ڈر ہوتے ہیں۔ انجانا ڈر،لوگوں کو کھونے کا ڈر، صحت، پیسہ کھونے کا ڈر۔ ہم اپنے کریئر میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم مشہور ہونا چاہتے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ پیسہ چاہتے ہیں۔ ہم ہروقت ڈرے ہوتے ہیں۔ تو میں نے   ایک ایک کرکے ان سبھی ڈر کے متعلق لکھا۔ اور پھر میں نے طے کرلیا کہ اب  تمام ڈر اور خوف سے مجھے باہر آنا ہے۔ آپ کو پتہ ہے میرا سب سے بڑا ڈر کیا تھا؟ طلاق۔ میں اس انسان کے پیچھے پڑی ہوئی تھی جو میرے ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتا تھا۔     میں نے خود کو تنہا کرلیا اور اسے رشتےسے آزاد کردیا۔  میں  نے اپنے آپ کو  جذباتی طور پر اتنا مضبوط بنالیا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ وہ شادی کررہاہے، تو میں نے خود اسے میسیج بھیجا اور نیک خواہشات پیش کیں۔   میرا دوسر اڈر تھا کہ میں کبھی ماں نہیں بن سکوں گی اور یہ ڈر میرے لئے بڑا دکھ بھرا تھا۔ پھر خیال گزرا کہ دنیا میں  کتنے سارے بچے ہیں، جو اپنائے جانے کے منتظر ہیں ۔ لہٰذا میں نے خود سے کہا کہ  رونے دھونے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہے ۔ جاؤ اور کسی ایک کو گود لے لو، اور میں نے یہی کیا۔ معذور یا کسی قسم کی محرومی  سے دوچار ہم جیسے لوگوں کا دکھ یہی ہے کہ ہمیں کوئی قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ ہم ’مکمل‘  لوگوں کی دنیا میں ’ادھورے ‘ ہیں۔ اسی لئے  میں نے طے کیا کہ اس بارے میں مہم چلانے کے لئے کوئی این جی او کھولنے کی بجائے میں خود لوگوں کے سامنے آؤں ۔ میں مصوری کرنے لگی ۔ میں نے نیوز اینکر بننے کا ہدف بنایا اور اس میں کامیاب رہی۔ میں ٹی وی شوز کرچکی ہوں۔  یواین وومین پاکستان کی نیشنل گڈوِل ایمبیسڈر بھی رہی   اور اب میں بچوں اور خواتین کے حقوق کیلئے  سرگرم رہتی ہوں ۔   جب بھی میں  لوگوں  کے درمیان جاتی ہوں۔ میں بہت ہنستی ہوں۔ میرے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ ہوتی ہے اور لوگ پوچھتے ہیں کہ تم ہنستے ہنستے کیوں نہیں تھکتی ؟ اس کا کیا راز ہے؟  میں ہمیشہ ایک بات کہتی ہوں، میں نے ان چیزوں کے بارے میں سوچنا بندکردیا ہے ، جو میں کھوچکی ہوں۔ کیونکہ  جنہیں  میرے ساتھ ہونا چاہئے وہ میرے ساتھ ہیں۔ خیر، میں آپ سب سے یہی کہوں گی کہ اپنی زندگی کو بھرپور طریقے سے جئیں۔ جیسے بھی ہو خود کو قبول کریں۔ خود کیلئے بھی رحمدل بنیں۔ کیونکہ تبھی آپ دوسروں کے لئے رحمدل بن سکتے ہیں۔ خود سے پیار کریں  اور اس پیار کو پھیلائیں۔ زندگی مشکل ہوگی ، اتار چڑھاؤ بھی آئیں گے، پریشانیاں بھی آئیں گی، لیکن یادرکھئے یہ سب آپ کو مضبوط بنائیں گی ۔ اسلئے پھر کہوں گی آپ جیسے بھی ہیں خود کو قبول کیجئے ۔دنیا بھی آپ کومان جائے گی  ۔ زندگی میں ڈرنا، رونا کوئی بری بات نہیں ، لیکن ہمت ہارجانا بری بات ہے۔اسلئے ناکامی ملے تو گھبرائیے نہیں، اٹھئے اور کوشش کیجئے۔  

youth Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK