Inquilab Logo

کامیابی محنت چاہتی ہے، لڑکا ہو یالڑکی ،جو محنت کرے گا وہ کامیاب ہوگا

Updated: May 29, 2023, 12:54 PM IST | Shaikh Akhlaq Ahmed | Mumbai

کلوا، تھانے کی عائشہ قاضی یوپی ایس سی امتحان ۲۰۲۲ء میں ۵۸۶؍ واں رینک سے کامیاب ہوئی ہیں۔عائشہ کے والد ابراہیم قاضی کا آبائی وطن رتناگری کا داپولی شہر ہے۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

 کلوا، تھانے کی عائشہ قاضی یوپی ایس سی امتحان ۲۰۲۲ء میں ۵۸۶؍ واں رینک سے کامیاب ہوئی ہیں۔عائشہ کے والد ابراہیم قاضی کا آبائی وطن رتناگری کا داپولی شہر ہے۔ انہوں  نے کاروبار کے سلسلے میں شہر کی جانب ہجرت کی اور تھانے ضلع کے کلوا میں سکونت اختیار کی۔ عائشہ کی  پرائمری سے گریجویشن تک کی مکمل تعلیم تھانے  ضلع میں ہوئی۔  اسکے بعد  الاحسان انگلش میڈیم اسکول ممبرا سے پہلی تا  چھٹی جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ کم عمری میں روزانہ اپ اینڈ ڈاؤن کی صعوبتوں سے تنگ آکر والدین نے بعد ازیں ساتویں  سے گیان وکاس منڈل نیو انگلش اسکول کلوا میں داخلہ کروایا جہاں سے عائشہ نے دسویں کا امتحان  ۲۰۱۳ء میں۹۴؍  فیصد  سے کامیاب کیا۔ بعد ازیں ممبرا کے عبد اللہ پٹیل جونیئر کالج میں داخلہ ہوا جہاں آرٹس اسٹریم سے بارہویں  کا امتحان ۲۰۱۵ء  میں۸۹ء۵۹؍ فیصد  سے کامیاب ہوئی ۔ عائشہ نے انقلاب کیلئے کی جانے والی خصوصی گفتگو کی شروعات میں  بتایا کہ ’’میں کالج کی ٹاپر  رہی۔اس کے بعد  تھانے کے جوشی بیڈیکر کالج سے آرٹس میں گریجویشن   کا فیصلہ کیا ۔ ۲۰۱۸ء  میں کل۷؍  سی جی پی اے میں سے۶ء۹؍   سے گریجویشن مکمل کیا۔ اسکولی دنوں  سے ہی مجھے پڑھائی کے علاوہ تقریر اور مضمون نویسی کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا شوق رہا۔ میں نے گریجویشن تک کئی مقابلوں میں حصہ لیا اور متعدد انعامات جیتے۔
-مقابلہ جاتی امتحان کی ترغیب کیسے ملی ؟
 سول سروس امتحان کی تیاری سے متعلق سوال پر عائشہ نے بتایا کہ بچپن سے والدین نے ایک بات دل و دماغ میں ڈال دی تھی کہ پڑھائی کرنا ہے اور کچھ کر دکھانا ہے۔ میں نے جونیئر کالج کی پڑھائی کے دوران مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کا فیصلہ کیا۔ اسی  دوران پولیٹیکل سائنس کے استاد نے مجھے ان امتحانات سے متعلق  تفصیلات بتائیں  اور مشورہ دیا کہ گریجویشن کی پڑھائی کے ساتھ ہی  یو پی ایس سی کی تعلیم کی بنیادی پڑھائی کا آغاز کر دینا۔ انہوں نے بعد ازیں میرے والدین کو بھی اس امتحان کے فائدے اور میری  ذہانت کس طرح سے اس امتحان کے لئے بہت زیادہ موزوں ہے، ساتھ ہی اس امتحان کے فائدے اور کامیابی کے بعد کی مراعات ذکر کیا۔ گھر پر ہم تینوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا  اور آخر کار میں نے تہیہ کرلیا کہ اب مجھے مقابلہ جاتی امتحانات کے ذریعے ہی میری منزل حاصل کرنا ہے۔
-یوپی ایس سی امتحان کی تیاری کیسے ہوئی؟
 اس امتحان کی تیاری اور کامیابی کے سفر کی روداد بیان کرتے ہوئے عائشہ نے بتایا کہ ’’ یہ میرے لئے ایک صبر آزما اور آزمائش   سے بھرا سفر ثابت ہوا۔ گریجویشن کے دوسرے سال سے ہی میں نے پڑھائی کا آغاز کیا مجھے یونیورسل اکیڈمی کی جانب سے ممبرا میں جاری آئی ایس کوچنگ سینٹر کا علم ہوا جہاں ویک ڈیز  (پیر تا جمعہ) تیاری کے لئے طلبہ استفادہ کرتے تھے اور ویک اینڈز پر (سنیچر اور اتوار) کے دن انجمن اسلام وی ٹی میں طلبہ کیلئے  خصوصی لیکچر کا انعقاد کیا جاتا تھا اور رہنمائی کی جاتی تھی۔ میں نے پورے سیکنڈ ائیر میں  ان کوچنگ سینٹر میں حاضری لگائی  اور ساتھ ہی ٹائم ملنے پر گھر پر ذاتی تیاری کرتی تھی۔پھر یہ کہ گریجویشن کے فائنل ایئر میں میرا خاص مضمون تاریخ تھا جو یوپی ایس سی  کی تیاری کے نقطۂ نظر سے پڑھائی کے لئے بہت اہم مضمون تھا ۔ میں فوکس رہ کر تمام تر توجہ پڑھائی پر مرکوز کی ۔ پھر یوپی ایس سی  کی پڑھائی کو سال بھر کیلئے  بریک دیا کیونکہ میں منصوبہ بند طریقے سے پڑھائی کر رہی تھی اور اسلئے سائنس کی بجائے میں نے آرٹس میں گریجویشن  کا فیصلہ کیا تھا ۔ اگرچہ  سائنس اور میتھس مضامین میرے بہت اچھے تھے۔
-آپ نے پہلا اٹیمپٹ کب دیا اور اس کے بعدکا سفر کیسا رہا؟
 عائشہ نے بتایا کہ گریجویشن مکمل ہوتے ہی  میں نے یوپی ایس سی کی آن لائن کلاسیز جوائن کی اور۲۰۱۸ء  میں ذاتی پڑھائی کی بنیاد پر پہلا پریلیم امتحان دیا جسے میں مجھے ناکامی ہاتھ آئی ۔ پھر حج کمیٹی کے داخلہ امتحان کا اشتہار نظروں سے گزرا،  میں نے یہ  امتحان دیا اورکامیاب ہوئی ۔ یوں میں نے نومبر۲۰۱۹ء  میں حج کمیٹی کے کوچنگ سینٹر کو جوائن کیا۔ یہاں دستیاب تمام سہولیات سے  پڑھائی کا اچھا موقع وماحول ملا میں نے۲۰۲۰ء  اور ۲۰۲۱ء  میں پریلیم امتحان اَپیئر کئے لیکن بدقسمتی سے دونوں میں ناکامی ہاتھ آئی۔اس کے بعد اچانک سینئرز کو حج ہاؤس  ہاسٹل خالی کرنا پڑا یہ میرے لئے پریشانی کا باعث تھا چونکہ ممبئی میں اتنے  پر وقار ماحول میں والدین نے اجازت دی تھی اب کہیں دوسری جگہ جانا میرے لئے مشکل تھا اور چند مارکس کی وجہ سے پریلیم بھی کوالیفائی نہیں ہوا تھا ۔ ایسے میں والدین کا تنہا لڑکی کو کہیں دور بھیجنا بھی مسئلہ ثابت ہوا۔ اسلئے میں نے محدود ذرائع کے ساتھ گھر بیٹھ کر پڑھائی کا فیصلہ کیا ۔ چونکہ  ایک آن لائن کوچنگ جوائن کی ہوئی تھی اس لئے  پڑھائی کے طریقے سے اچھی خاصی واقفیت حاصل ہو چکی تھی۔۲۰۲۲ء  کے پریلیم کے لئے دل و جان سے محنت کی اور امتحان کو کوالیفائی کیا، حوصلہ بڑھا۔ اب مجھے فکر ہونے لگی کے کاش مینس کی تیاری کے لئے گرلز کا کوئی کوچنگ سینٹر دستیاب ہوجائے  تو یکسوئی کے ساتھ سینئرز کی رہنمائی میں کامیابی مل جائے گی۔ میں نے دہلی کے نامور کوچنگ سینٹر کو مسلسل دو ماہ تک فون کیا میں بہت پریشان رہی یہاں وہاں تلاش کرتی رہی لیکن کوئی انتظام نہیں ہوا۔ 
-اس صورتحال میں آپ نے کیا قدم اٹھایا؟
 عائشہ نے کہا کہ ’’میں سوچنے لگی کہ چار سال سے مسلسل جس کیلئے  دن رات ایک کررہی ہوں   اب جبکہ مجھے ایک اچھے کوچنگ سینٹر کی ضرورت ہے  وہ دستیاب نہیں ہو رہا۔ ایسے میں مقصود خان صاحب نے ہر طریقے سے میری بہت مدد کی، پڑھائی کا مواد، ٹیسٹ سیریز سے لے کر گائیڈنس تک چھوٹی چھوٹی چیزوں کا خیال رکھا، وہ  شفیق باپ کی طرح ساتھ کھڑے رہے اور قدم قدم پر رہنمائی کی۔ خان صاحب  نے صرف مجھے ہی نہیں  دیگر امیدواروں  کے کریئر کو شیپ دینے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ میری کامیابی میں سر کا اہم رول ہے۔ ‘‘عائشہ نے کچھ سیکنڈ کے توقف کیا اور پھر گویا ہوئی ’’   لڑکی ذات کے لئے اکیلے بیرون شہر جانے کیلئے کئی طرح کے مسائل ہوتے ہیں۔ ملت کے بہی خواہ کچھ انتظام کیوں نہیں کرتے اس کا خیال دل میں بار بار آیا۔‘‘
-اس اٹیمپٹ کیلئےپھر آپ نے کیا حکمت عملی اختیار کی؟
  جب امتحان کے لئے ایک ماہ رہ گیا تو مجھے دہلی کے اسی سینٹر سے فون آیا جسے میں متعدد مرتبہ فون کر چکی تھی۔ لیکن اب امتحان کے لئے چونکہ صرف ایک ماہ بچا تھا ایسے میں نئی جگہ جانا، وہاں کے ماحول میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا مجھے تھوڑا مشکل نظر آیا۔ سینئرز اور خیر خواہوں نے گھر رہ کر پڑھائی کا مشورہ دیا چونکہ میرا مینس کا سینٹر بھی ممبئی ہی تھا اسلئے صرف چند روز کے لئے دہلی جانا مجھے مجھے ٹھیک نہیں لگا۔ میں نے گھر پر ہی  پڑھائی کی ، امتحان آیا اور چلا گیا۔  ڈر تو لگتا ہے لیکن اس مرتبہ کانفیڈنس بھی عروج پر تھا الحمد للہ مینس بھی کوالیفائی کیا۔ اب انٹرویو کی باری تھی اسلئے جامعہ دہلی کا رخ کیا۔ یہ انٹرویو کی تیاری کے لئے آئیڈیل مقام ہے، یہاں  ہر اعتبار سے نکھارا اور سنوارا جاتا ہے، سینئرز اور پوسٹ پر قائم نوجوانوں سے تربیت کے مواقع فراہم کئے  جاتے ہیں۔  عید کے دو دن بعد انٹرویو کی تاریخ تھی رمضان کے روزے، عبادتیں، ذکر اذکار، تلاوت کے ساتھ طاق راتیں اور پھر دن بھر ماک انٹرویو اور دیگر کام ،بدن تھک کر چور ہو جاتا تھا لیکن الحمد للہ انٹرویو بہت اچھا ہوا اور یہ مرحلہ بھی اللہ نے آسانی سے عبور کروادیا۔
-آپ کون سا شعبہ منتخب کرنا چاہتی ہیں؟
 میرا رینک ۵۸۶؍ ہے۔ انٹرویو میں مجھے بہت اچھے نمبر ملے ہیں  مینس میں تھوڑے اورنمبرات مل جاتے تو رینک اچھی رہتی تھی۔ اس کے باوجود اللہ کا بہت شکر ادا کرتی ہوں ۔ میں فارین سروسیز کی خواہ ہوں اب جو مل جائے ویسے ابھی مزید اٹیمپٹ باقی ہے، ان شاء اللہ  رینک کی بہتری کیلئے پھر کوشش کروں گی۔ 
  خاندان سے متعلق سوال پر عائشہ نے بتایا کہ  میرے والد کا نام ابراہیم ہے اور وہ ایک تاجر ہیں ، جبکہ والدہ سیمین عبدالعزیز خاتونِ خانہ ہیں  اور وہ طالبات اور خواتین کو تجوید کے ساتھ قرآن پڑھنا سکھاتی ہے۔ میرے والدین نے اردو میڈیم سے تعلیم حاصل کی ہے۔ عائشہ نے کہا کہ والدین کی حوصلہ افزائی سے ہی میرا یہ سفر ممکن ہو سکا ہے۔

youth Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK