ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ہم صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں،کانگریس کا وہاں پھنسے ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی پر مودی حکومت سے جواب طلب
EPAPER
Updated: August 17, 2021, 8:18 AM IST | New Delhi
ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ ہم صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں اور کسی بھی قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں،کانگریس کا وہاں پھنسے ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی پر مودی حکومت سے جواب طلب
افغانستان میں اقتدار کی منتقلی اور طالبان کے قابض ہونے کے بعد یہاں ہندوستان میں بی ایف ایس مستعد ہوگیا ہے۔ افغانستان کی تازہ صورتحال کے حوالے سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بارڈر سیکوریٹی فورس (بی ایس ایف) کے ڈائریکٹر جنرل ایس ایس دیسوال نے کہا کہ ہمسایہ ملک کی صورتحال پر کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔انہوں نے بتایا کہ جو کچھ افغانستان میں ہو رہا ہے، وہ ان کا اندرونی مسئلہ ہے لیکن ہم اس صورتحال پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی قسم کے چیلنج کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔
بین الاقوامی سرحد پر ڈرون خطرات کے بارے میں انہوں نے کہ ’’ڈرون کے ذریعے ہتھیار اور منشیات ڈالنے کی کئی کوششیں کی گئیں لیکن دشمن کے ان ناپاک عزائم کو ہماری چاک و چوبند سیکوریٹی فورسیز نے ناکام بنا دیا۔‘‘انہوں نے کہا کہ ڈرون تھرٹ ایک چیلنج ہے جس کے ساتھ نمٹا جا رہا ہے اور آنے والے دنوں میں ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کا موثر مقابلہ کیا جائے گا۔
اس دوران کانگریس نے مودی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ وہ وہاں پھنسے ہندوستانیوں کو ملک واپس لانے کیلئے کیا کررہی ہے؟ اور اس نے اس کیلئے کون سی حکمت عملی اختیار کی ہے۔ کانگریس نے کہا کہ وزیر اعظم مودی کو بتانا چاہئے کہ ان کی حکومت ہندوستانیوں کی محفوظ واپسی کیلئےکیاکر رہی ہے؟
کانگریس کے شعبہ مواصلات کے سربراہ رندیپ سنگھ سرجے والا نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ افغانستان کی صورتحال نازک موڑ پر ہے اور وہاں سفارت خانہ کے عملے کے ساتھ ساتھ دیگر ہندوستانیوں کی زندگیاں بھی خطرے میں ہیں۔ سیاسی صورتحال سے پیدا ہونے والے حالات کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو ملک اور اپوزیشن کو پوری معلومات دینی چاہئیں۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم مودی کو زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہنا چاہئے۔ ان کی خاموشی ہندوستانی شہریوں اور افغانستان سے متعلقہ فریقوں کے مفاد میں نہیں ہے اسلئے جلد از جلد اس حوالے سے کوئی ٹھوس فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو اپنے شہریوں ، سفارت خانے کے عملے اور افغانستان کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے اپنی پالیسی کو ملک کے روبرو واضح کرنی چاہئے۔