Inquilab Logo

چینی فوجی طیاروں کی تائیوان کی فضائی حدود میں پرواز

Updated: October 03, 2021, 7:29 AM IST | Beijing

تائیوان حکومت سخت ناراض ، ۳۸؍ جنگی طیاروں کی اس پرواز کو’ ’ اب تک کا سب سے بڑا حملہ‘ ‘ قرار دیا۔ چین پر علاقائی امن کو نقصان پہنچانےکا الزام

China has violated Taiwan`s airspace before (file photo)
چین نے اس سے پہلے بھی تائیوان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی ہے( فائل فوٹو)

تائیوان نے الزام لگایا ہے کہ جمعہ کے روز ۳۸؍ چینی فوجی طیاروں نے اس کی دفاعی زون میں پروازیں کی ہیں، جو بیجنگ کی طرف سے اب تک کا ’سب سے بڑا حملہ‘ ہے۔وزارت دفاع نے کہا کہ یہ طیارے، جن میں ایٹمی صلاحیت رکھنے والے بمبار طیارے بھی شامل تھے، دو مرحلوں میں تائیوان کی فضائی دفاعی شناختی زون داخل ہوئے۔تائیوان نے اپنے جیٹ طیاروں اور میزائل سسٹم کے ساتھ اپنا دفاع کیا۔
 واضح رہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے چین اور تائیوان کے درمیان تنازع بڑھ گیا ہے کیونکہ چین کے سب سے بڑے حریف امریکہ نے تائیوان کا ساتھ دینا شروع کیا ہے۔ یاد رہے کہ  چین تائیوان کو اپنا حصہ سمجھتا ہے جبکہ تائیوان خود کو ایک خود مختار ریاست سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تائیوان ایک سال سے زائد عرصے سے اس جزیرے کے قریب چینی فضائیہ کے مشن کے بارے میں شکایت کر رہا ہے۔تائیوان کے وزیر اعظم سو سینگ چانگ نےسنیچر کے روز نامہ نگاروں کو بتایا کہ’ ’چین فوجی جارحیت میں علاقائی امن کو نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘چین کی جانب سے اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے لیکن وہ اس سے پہلے تائیوان اور امریکہ کے درمیان ’ملی بھگت‘ کو نشانہ بناتے ہوئے یہ کہہ چکا ہے کہ ایسی پروازیں اس کی خودمختاری کی حفاظت کیلئے ضروری ہیں۔
 تائیوان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ ’’پیوپلس لبریشن آرمی (پی ایل اے)  کے ۲۵؍ طیارے دن کے اوقات میں اے ڈی آئی زیڈکے جنوب مغربی حصے میں داخل ہوئے۔‘‘ وزارت کا کہنا ہے کہ ’’اس کے بعد جمعہ ہی کی  شام کو پی ایل اے کے مزید ۱۳؍ جہاز اسی حدود میں داخل ہوئے، جنھوں نے تائیوان اور فلپائن کے درمیان پانی پر پرواز کی۔‘‘وزارت دفاع نے کہا ہے کہ چینی طیاروں میں چار ایچ ۶؍ بمبار بھی شامل تھے، جو ایٹمی ہتھیار کی نقل و حمل کرتے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہی ایک اینٹی سب میرین طیارہ بھی تھا۔
 فضائی دفاعی شناختی زون کسی بھی ملک کے علاقے اور فضائی حدود سے باہر کا علاقہ ہوتا ہے لیکن یہاں آنے والے غیر ملکی طیاروں کو شناخت، نگرانی اور قومی سلامتی کے مفاد میں کنٹرول کیا جاتا ہے۔اسے علاقے کا تعین یہ ملک خود کرتا ہے اور یہ تکنیکی طور پر بین الاقوامی فضائی حدود کہلاتی ہے۔بیجنگ اکثر تائیوان کے تبصروں پر ناراضگی ظاہر کرنے کیلئے اس طرح کے مشن کا آغاز کرتا رہتا ہے تاہم یہ واضح نہیں کہ حالیہ مشن کی وجہ کیا ہے۔ البتہ  ماہرین کا اندازہ ہے کہ حال ہی میں بحیرہ شمالی چین میں  امریکہ ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے  نئے اتحاد ’ آکس‘ کی جانب سے چین کا مقابلہ کرنے کیلئے  جو نئی آبدوز اتارنے کا معاہدہ ہوا ہے ،اس کے بعد امریکہ، آسٹریلیا، جاپان اور ہندوستان کے ’کواڈ‘ نامی اتحاد  نے جو نئی پیش قدمیوں کی بات کہی ہےیہ اسی کے جواب میں کیا گیا اقدام ہے۔ چین دراصل اس بہانے سے امریکہ کو للکارنا چاہتا ہے کیونکہ تائیوان خود اپنا دفاع نہیں کر سکتا ، اس کیلئے امریکہ اور دیگر ممالک کی مدد ضروری ہے۔ 
  یہ کہا جا سکتا ہے کہ چین کے اس اقدام سے اس بار خطے میں کشیدگی عروج پر پہنچ سکتی ہے کیونکہ اس بار کئی سمت سے چین کو چیلنج درپیش ہے۔ فی الحال امریکہ اور اس کے دونوں اتحادوں میں شامل ممالک نے اس معاملے میں کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا  ہے لیکن اس کا نوٹس ہر جگہ لیا گیا ہے۔ 
 چین اور تائیوان کا معاملہ
  تائیوان دراصل چین ہی  میں شامل تھا لیکن  ۱۹۴۰ء کی دہائی میں ہونے والی  خانہ جنگی کے دوران یہ ملک دو حصوں میں  تقسیم ہوگیا اور تائیوان ایک نئے ملک کے طور پر وجود میں آیا  لیکن بیجنگ کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اب بھی چین کا حصہ ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو اس جزیرے کو کسی بھی  وقت طاقت کے ذریعے دوبارہ حاصل کیا جائے گا۔ گزشتہ کچھ عرصے میں چین کے ارادے تائیوان کے تعلق سے جارحانہ رہے ہیں حالانکہ تائیوان نے ہر بار اپنا دفاع کیا ہے۔
 تائیوان پر حکومت کیسے کی جاتی ہے؟
 اس جزیرے کا اپنا آئین ہے اور جمہوری طریقے سے منتخب رہنما ہیں جبکہ اس کی مسلح افواج میں فوجیوں کی تعداد تقریباً ۳؍ لاکھ ہے۔ لیکن بین  الاقوامی سطح پر صرف چند ہی ممالک تائیوان کو بطور ملک تسلیم کرتے ہیں۔ دنیا کے ۱۹۳؍ ممالک میں سے کوئی ۱۴؍ ممالک ایسے ہیں جن کے تائیوان سے سفارتی تعلقات ہیں جبکہ زیادہ تر ممالک بیجنگ میں موجود چینی حکومت کو ہی تسلیم کرتے ہیں۔ امریکہ کا تائیوان کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلق نہیں ہے لیکن اس کے پاس ایک قانون ہے جس کے تحت وہ اس جزیرے کو اپنے دفاع کیلئے ذرائع فراہم کرتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK