آئین میں ترمیم سے متعلق پیش کردہ مسودے کے مسترد ہونے پر مظاہرہ ، پولیس کے مظاہرین پر تشدد سے ناراض لوگوں نے بڑے پیمانے پر ’رنگ وروغن‘ سے احتجاج کیا
EPAPER
Updated: November 21, 2020, 11:38 AM IST | Agency | Bangkok
آئین میں ترمیم سے متعلق پیش کردہ مسودے کے مسترد ہونے پر مظاہرہ ، پولیس کے مظاہرین پر تشدد سے ناراض لوگوں نے بڑے پیمانے پر ’رنگ وروغن‘ سے احتجاج کیا
تھائی لینڈ میں جاری حکومت مخالف مظاہروں نے ایک بار پھر شدت اختیار کر لی ہے اور اب کی بار مظاہرین کسی حد تک تخلیقی رنگ اپنایا۔ بدھ کی رات دارالحکومت بینکاک میں ہزاروںافرادنے احتجاج کا انوکھا طریقہ اپنایا اور پولیس ہیڈکوارٹر کے باہر اکھٹے ہو کر عمارت پر پینٹ پھینکنے لگے جس کی وجہ سے پوری عمارت ایک نئے رنگ برنگی ہو گئی۔ واضح رہے کہ آئین میں ترمیم کے تعلق سے پیش کئے گئے مسودے کو حکومت نے مسترد کر دیا تھا جس کے خلاف منگل کے روز بھی یہاں احتجاج ہوا تھا جس نے پرتشدد صورت اختیار کر لی تھی اور اس میںدرجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے۔پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف بدھ کی رات بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا اور رائل تھائی پولیس کے ہیڈکوارٹرس پر مختلف رنگوں کے پینٹ کی بالٹیاں پھینکی گئیں اور گرافیٹی ا سپرے کیا گیا۔
ٍ تھائی لینڈ میں گزشتہ کئی ماہ سے طلبہ کی سربراہی میں ہونے والے مظاہروں کے باعث کشیدگی ہے جبکہ مظاہرین کے مطالبات میں آئینی ترامیم، ملک کے وزیرِ اعظم کو برطرف کرنے اور شاہی نظام میں ردوبدل کرنا شامل ہیں۔منگل کو تھائی لینڈ میں اب تک کے سب سے زیادہ پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے جن میں مظاہرین اور پولیس حکام کے درمیان تصادم ہوا۔ان جھڑپوں میں کم ازکم ۴۰؍ افراد زخمی ہوئے اور مظاہرین نے پولیس پر اسموک بم اور پینٹ کے تھیلے پھینکے ۔جواب میں پولیس نےواٹر کینن اور آنسو گیس کے ذریعے جواب دیا ۔مظاہرین ایک عرصے سے ملک کے پارلیمان تک پہنچنے کی کوشش کر رہے تھے جہاں اراکینِ پارلیمان آئین میں ممکنہ تبدیلیوں پر بحث کر رہے تھے۔ ان میں سے ایک متنازع قانونی مسودہ بھی ہے جسے ایک غیر سرکاری تنظیم انٹرنیٹ ڈائیلاک آن لا ریفارم کی جانب سے پیش کیا گیا ہے اور اسے مظاہرین کی حمایت بھی حاصل ہے۔اس مسودے میں ایک شفاف اور جمہوری حکومت کا قیام اور ایسی ترامیم جن کے تحت صرف ایک رکنِ پارلیمان ہی وزیرِ اعظم بن سکتا ہے شامل ہیں۔ تھائی لینڈ کے موجودہ پارلیمانی نظام کے تحت ایک غیرمنتخب شدہ شخص کو بھی وزیرِ اعظم بنایا جا سکتا ہے۔بدھ کی شام اس مسودے کو مسترد کر دیا گیا جس کے مظاہروں کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مظاہرین کے ایک رہنما پنوسایا ’رنگ‘ ستھی جیراوتاناکل نے بتایا کہ ’ہم یہاں صرف اپنے غصے کی وجہ سے آئے ہیں۔‘
حکومت مخالف احتجاج
مظاہرین نے پولیس پیڈکوارٹرس کی دیواروں پر شیشے کی بوتلیں پھینکیں جس کے باہر پولیس کی جانب سے کنکریٹ کے بلاک اور خاردار تاریں لگائی گئی تھیں۔دیگر مظاہرین کی جانب سے دیواروں پرا سپرے پینٹ کے ذریعے پولیس مخالف نعرے لکھے گئے اور انھوں نے ایک ایسی یادگار پر پینٹ پھینکا جس پر تھائی لینڈ کی ملکہ کی تصویر موجود تھی۔ تاہم ان کی تصویر کو چھیڑا نہیں گیا۔مظاہروں کے دوران ربر کے بطخیں بھی نظر آئیں جو اس سے قبل منگل کے روز بھی نظر آئی تھیں ۔ ان بطخوں کو واٹر کینن سے بچاؤ کے لئے استعمال کیا گیا۔ احتجاج کا یہ سلسلہ جمعرات کی صبح بھی جاری رہا ۔ اس دوران پولیس ہیڈکوارٹرس کو سفید پینٹ کر دیا گیا تھا تاہم گزشتہ روز ہونے والے احتجاج کے باعث ڈالے گئے نشانات اب بھی موجود ہیں۔ مظاہرین نے اگلے ہفتے ایک اور مظاہرہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ فی الحال حکومت کے پاس ان مظاہرین کو روکنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آ رہا ہے۔