افغانستان میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہونے والے فوٹوگرافر صحافی دانش کی کھینچی ہوئی تصاویر نے ہی ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت اوراس کی تباہ کاریوں کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کیا
EPAPER
Updated: July 18, 2021, 1:56 AM IST | Mumbai
افغانستان میں اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہونے والے فوٹوگرافر صحافی دانش کی کھینچی ہوئی تصاویر نے ہی ہندوستان میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت اوراس کی تباہ کاریوں کو پوری دنیا کے سامنے اجاگر کیا
جمعہ کو قندھار میں طالبان اور افغان فورسیز کے درمیان جھڑپوں کو اپنے کیمرے میں قید کرتے وقت پُلیٹزر ایوارڈ یافتہ پریس فوٹوگرافر دانش صدیقی جاں بحق ہو گئے۔ ان کی موت پر ہندوستان سے لے کر اقوام متحدہ تک ہر جگہ تعزیت کااظہا رکیا جارہا ہے۔ وہ عالمی خبررساں ایجنسی ’رائٹرز‘کیلئے کام کرہے تھے۔ رائٹرز کے مطابق اسی ہفتے انہیں افغانستان میں تعینات کیاگیاتھا جہاں سے وہ ’’افغان فورسیز اور طالبان کی جنگ کی رپورٹنگ کررہے تھے۔‘‘
ان کی تصویروں کی ایک دنیا قدر دان تھی، یہی وجہ ہے کہ انہیں روہنگیا مسلمانوں کی نقل مکانی کی تصویر پر پُلیٹزر جیسا باوقار ایوارڈ تفویض کیا گیا۔ دانش کی کھنچی ہوئی تصویروں نے ہی ہندوستا ن میں کورونا کی دوسری لہر کی شدت اوراس کی تباہ کاریوں سے پوری دنیا کو روبرو کروایا تھا۔ اس کی وجہ سے وہ سوشل میڈیا پربھگوا شدت پسندوں کے عتاب کا شکار بھی ہوئے مگر انہوں نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ کورونا کی وبا کے دوران کھینچی گئی ان کی تصویروں نے نہ صرف حکومت کی قلعی کھول دی بھی عام آدمی کو جھنجھوڑ کر بھی رکھ دیا۔ ان میں وہ تصویر بھی شامل ہے جس میں تاحد نگاہ چتائیں جلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔
اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران وہ کس قدر شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرتے تھے اس کا اندازہ اسی حقیقت سے لگایاجاسکتاہے کہ وہ جنگ سے ڈرے نہ کورونا سے خوفزدہ ہوئے۔ گزشتہ سال شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف تاریخی مظاہروں کو بھی انہوں نے اپنے کیمرے میں قید کیا۔ ان کی بہادری کی گواہ جامعہ میں مظاہرین پر گولی چلانے والے رام بھکت گوپال کی وہ تصویر بھی ہے جس میں گوپال بندوق تانے کھڑا ہے۔ دانش نے یہ تصویر بالکل اس کے سامنے سے لی جسے آج بھی اخبارات اور نیوز میڈیا استعمال کررہاہے۔ دانش کا جامعہ سے خاص تعلق تھا۔وہ اسی ادارے کے طالب علم رہے۔