اپنے والد کی خاطر آکسیجن کے حصول کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کورونا مریضوں کوگھر گھرآکسیجن سلنڈر پہنچانا اوران کی اکھڑتی سانسیں بحال کرنا ہی ۲۶؍سالہ عرشی کا مشن بن گیا ہے
EPAPER
Updated: May 17, 2021, 12:24 PM IST | PTI | Shahjahanpur
اپنے والد کی خاطر آکسیجن کے حصول کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد کورونا مریضوں کوگھر گھرآکسیجن سلنڈر پہنچانا اوران کی اکھڑتی سانسیں بحال کرنا ہی ۲۶؍سالہ عرشی کا مشن بن گیا ہے
کورونا کی اس وبا کے دور میں جب اتر پردیش میں ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ضرورت مندوں کیلئے فرشتہ بن کر پہنچ رہے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں میں شاہجہاں پور کی بٹیاعرشی بھی شامل ہیں۔ اپنی جان یا کورونا سے متاثر ہوجانے کے خوف کو بالائے طاق رکھ کر عرشی نے کورونا مریضوں کی اکھڑتی سانسوں کو بحال کرنے کیلئے گھر گھر آکسیجن کے سلنڈر پہنچانےکواپنا مشن بنا لیا ہے۔ خبر ملنے پر وہ شاہجہاں پور ہی نہیں اتراکھنڈ تک آکسیجن کے سلنڈر اپنی اسکوٹی پر لاد کر پہنچ جاتی ہیں۔ کورونا سے متاثر اپنے والد کیلئے آکسیجن کی حصولیابی کی جدوجہد سے شروع ہونے والا یہ سفر اب ایک مشن میں تبدیل ہوچکاہے۔ اپنے والدکی جان بچالینے میں کامیابی کے بعد عرشی کی کوشش ہوتی ہے کہ آکسیجن کی کمی کی وجہ سے کسی گھر کا چراغ نہ بجھنے پائے۔ شاہجہاں پور میں وہ ’’آکسیجن والی بٹیا‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ شاہجہاں پور کے مدار کھیل علاقے میں رہنے والی ۲۶؍ سالہ عرشی اپنے دو بھائیوں اور دیگر متعلقین کی مدد سے ا ب تک آکسیجن کے ۲۰؍ سلنڈر مختلف مریضوں کے گھروں تک مفت پہنچا چکی ہیں۔ عرشی اپنے اس سفر کے آغاز کے تعلق سے بتاتی ہیں کہ ان کے والد جن کی طبیعت ٹھیک نہیں چل رہی تھی کی پہلے ہی رمضان کو حالت اچانک بگڑنےلگی۔ ان کے اندیشے اس وقت صحیح ثابت ہوئے جب والد صاحب کی کورونا رپورٹ پازیٹیو آگئی۔ انہیں گھر پر ہی آئسولیشن میں رکھاگیاتھا جہاں ان کا آکسیجن لیول تیزی سے نیچے جانے لگا۔ عرشی کے مطابق’’ڈاکٹروں نے مجھے ان کیلئے فوری طور پر آکسیجن کا بندوبست کرنے کیلئے کہا۔‘‘ وہ بتاتی ہیں کہ ’’آکسیجن حاصل کرنے کیلئے میں نے جب اہلکاروں سے رابطہ کیاتو بتایا گیا کہ گھر پر علاج کیلئے آکسیجن نہیں ملےگا۔اس کیلئے مجھے والد صاحب کو اسپتال داخل کرانا ہوگا۔‘‘خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے گفتگو کرتے ہوئے عرشی نے بتایا کہ’’دردر کی ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی میں ایک عددآکسیجن سلنڈر کا بندوبست نہ کرسکی۔ میری پریشانی بڑھنے لگی تبھی کسی طرح سے ضلع مجسٹریٹ کے دفتر سے مجھے ایک سلنڈر ملا۔‘‘