Inquilab Logo

بابری مسجدکا انہدام منصوبہ بند تھا،اوما بھارتی نےتمام ثبوت دیکھنےکےبعدخوداعتراف کیا تھا

Updated: October 02, 2020, 8:35 AM IST | Agency | New Delhi

مسجد کے انہدام کی تفتیش کرنے والے جسٹس منموہن لبراہن کاسی بی آئی کورٹ کے فیصلے پر سخت اعتراض ، کہا کہ میری تفتیش بالکل درست ہے ، سازش منصوبہ بند تھی بابری مسجد کے انہدام کی سازش کا پتہ لگانےاوراس معاملے کی تفتیش کرنے کے لئے۱۹۹۲ء میں بنائے گئے لبراہن کمیشن کے صدر جسٹس منموہن سنگھ لبراہن نے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا ہے

Uma Bharti - Pic : INN
اوما بھارتی ۔ تصویر : آئی این این

بابری مسجد کے انہدام کی سازش کا پتہ لگانےاوراس معاملے کی تفتیش کرنے کے لئے۱۹۹۲ء میں بنائے گئے لبراہن کمیشن کے صدر جسٹس منموہن سنگھ لبراہن  نے سی بی آئی کورٹ کے فیصلے پر سخت اعتراض کیا ہے۔انہوں نے انڈین ایکسپریس سےگفتگو کرتے ہوئے کہاکہ’’بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند تھا ۔اوما بھارتی نے  تمام ثبوت دیکھنے کے بعد  یہ اعتراف کیا تھا اور وہ ہمیشہ یہ بات قبول کرتی رہی ہیں کہ بابری مسجد کے انہدام میں وہ شامل رہی ہیں اور وہ ایک منصوبہ بند سازش تھی ۔ 
 واضح رہے کہ جسٹس لبراہن نے اپنی رپورٹ میں ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، اوما بھارتی ونئے کٹیار اور دیگر آر ایس ایس لیڈران کو مسجد کی شہادت کے لئے ذمہ دار قرار دیا تھا ۔ جسٹس لبراہن نے فیصلے پر ردعمل میں مزید کہا کہ کورٹ نےجو فیصلہ کیا وہ اس پر تبصرہ نہیں کریں گے لیکن ان کی رپورٹ میں تمام ثبوتوں کی بنیاد پر یہ بات ثابت ہوئی تھی کہ  بابری مسجد کی شہادت میں آر ایس ایس کی لیڈر شپ ، مقامی انتظامیہ اور ریاستی حکومت کی ملی بھگت تھی۔ اس کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہو سکتا تھا ۔  

 جسٹس لبراہن نے کہا کہ میرے سامنے جتنے بھی ثبوت آئے تھے اور جتنی تفتیش میں نےکی تھی اس کے مطابق بابری مسجد کا انہدام منصوبہ بند ہی تھا کیوں کہ اتنی بڑی واردات چند منٹوں میں یا چند گھنٹوں میںانجام نہیں دی جاسکتی ۔ اس کےلئے مہینوں کی منصوبہ بندی درکار ہے۔ انہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ کارسیوکوں کو ایودھیا بلوانا اور انہیں ایک منصوبے کے تحت وہاں جمع کروانا بھی پوری پلاننگ کا حصہ تھا ۔ اس میں مقامی مشینری ، ریاستی حکومت  اور آر ایس ایس کی پوری لیڈر شپ شامل تھی ۔ میں نے اپنی رپورٹ میں اس کی کھلے طور پر نشاندہی کردی تھی ۔ واضح رہے کہ جسٹس لبراہن کمیشن کی رپورٹ ۲۰۰۹ء میں حکومت کو پیش کی گئی تھی ۔ اس میں ایل کے اڈوانی اور بی جے پی کے دیگر لیڈران کو بابری مسجد کے انہدام کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا ۔ اسے ایک منصوبہ بند سازش بھی قراردیا گیا تھا ۔ جسٹس لبراہن نے سی بی آئی کی تفتیش پر بھی سوال کیا ۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں کورٹ پر کوئی تبصرہ نہیں کیوں کہ اس کے سامنے جیسے ثبوت پیش کئے گئے اس نے اسی کے مطابق فیصلہ دیا ہے۔ اگر پختہ ثبوت پیش کئے گئے ہوتےتو ممکن تھا کہ اس سازش کے اہم کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچادیا جاتا۔ جسٹس لبراہن نے اپنی رپورٹ میں یہ بات بھی واضح طور پر لکھی ہے کہ بابری مسجد کے انہدام کوروکا جاسکتا تھا ۔ اگر مقامی انتظامیہ تھوڑی سے منصوبہ بندی کے ساتھ کارسیوکوں کو  وہاں سے ہٹاتا ، علاقے میں سختی کے ساتھ چوکسی برتتا اور پورا انتظامیہ ایک پلان پر عمل کرتا تو ممکن تھا کہ مسجد کو بچالیا جاتا لیکن وہاں کسی کی ایسی کوئی منشا نہیں تھی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK