Inquilab Logo

افغانستان : زلزلہ میں زندہ بچ جانے والوں میں خوف

Updated: June 29, 2022, 12:14 PM IST | Agency

ابھی خطرہ ٹلا نہیں ہے ، تباہ کن زلزلے کے بعد وقفے وقفے سے محسوس کئے جانے والے جھٹکے بے یارو مددگارمتاثرین کو دہلاد یتے ہیں ۔ وزیر صحت عامہ قلندر عباد کے مطابق زلزلے سے متاثرہ علاقے ابھی تک محفوظ نہیں ہیں کیونکہ علاقے میں زلزلے کےہلکے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ نقد امداد کی ضرورت

A girl with books on the rubble of a mud house in a village in Gyan District.Picture:AP/PTI
گیا ن ضلع کے گاؤں میںکچے مکان کے ملبے پر ایک بچی کتابوں کے ساتھ۔ تصویر: اےپی/ پی ٹی آئی

گزشتہ دودہائیوں کے شدید ترین زلزلے کی مار جھیلنے والے افغانستان کے پہاڑی علاقوں میں زندہ بچ جانے والے  افراد ابھی ڈرے سہمے ہوئے ہیں ، کیونکہ متاثر ہ علاقے میں اب بھی وقفے وقفے سے  زلزلے کے ہلکے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں متاثرہ علاقہ زندہ بچ جانے والوں کیلئے غیر محفوظ ہوگیا ہے جبکہ حکام زلزلے کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے نمٹنے میں مصروف ہیں۔  میڈیا رپورٹس کے مطابق افغانستان کے کا ر گزار وزیر صحت عامہ قلندر عباد نے منگل کو کابل میں  پریس کانفرنس  سے خطاب کرتے کہا کہ زلزلے سے متاثرہ علاقے ابھی تک محفوظ نہیں ہیں کیونکہ علاقے میں ہلکے زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں۔ حکام کے مطابق جمعہ کو  زلزلے ہلکے جھٹکے  میں ۵؍ افراد ہلاک اور۱۱؍ افراد زخمی ہوگئے تھے جبکہ بعد میں آنے والے جھٹکوں میں زخمی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ ہفتے بدھ کو آنے والے زلزلے میں تباہ ہونے والے گھر رہنے کے قابل نہیں ہیں جس کی وجہ سے  متاثرین کو خیموں میں رہنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دوسری جانب آنے والے کچھ ہفتوں میں پہاڑوں کا درجۂ حرارت تیزی سے گرے گا جس نے حکام کیلئے ایک نیا چیلنج پیدا کردیا ہے۔ حکام نے کہا کہ متاثرین کیلئے سر چھپانے کی جگہ نہیں ہے ۔ ان کے پاس رہنے کیلئے پناہ گاہیں نہیں ہیں جن میں معمر اور بچے بھی شامل ہیں، اس لئے ہم عالمی برادری سے خصوصی توجہ دینے کی گزارش کرتے ہیں۔ واضح رہےکہ افغانستان میں دہائیوں میں سب سے زیادہ تباہ کن زلزلہ گزشتہ ہفتے بدھ کو پاکستان کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی علاقے میں آیا جس کے نتیجے میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک اور۳؍ ہزار زخمی ہوگئے تھے جبکہ۱۰؍ ہزار گھر تباہ ہوگئے تھے۔اقوام متحدہ کے ہیومنٹرین کے دفتر ( او سی ایچ اے) سے جاری بیان کے مطابق تباہ کن زلزے میں۱۵۵؍ بچے  ہلاک  ہوگئے ہیں جبکہ تقریباً۲۵۰؍ بچے زخمی اور۶۵؍ یتیم ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہیومنٹرین دفتر نے اتوار کو بتایا کہ متاثر ہ علاقوں میں خیموں کی کمی پر قابو پا لیا گیا ہے اور گروپ خوراک، صحت کی کٹس ، نقد رقم  اور دیگر امدادی اشیاء تقسیم کر رہے ہیں۔اس  کے مطابق   کئی  اہم مسائل باقی ہیں جن میں موبائل فون نیٹ ورک کی کمی اور کچھ علاقوں میں سڑک کی خستہ حالی شامل ہیں۔ ان کی وجہ سے روابط میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔  افغانستان میں آنے والا یہ تباہ کن زلزلہ  افغان طالبان کیلئے ایک بہت بڑا امتحان ہے جن سے کئی غیر ملکی حکومتوں نے گزشتہ سال اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے انسانی حقوق کے بارے میں خدشات کی وجہ سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان کے حکومتی اداروں اور بینکوں پر پابندیوں نے ایک ایسے ملک کیلئے براہ راست امداد کو منقطع کردیا ہے جو۶ء۱؍ شدت کے زلزلے سے قبل ہی قحط سالی اور دیگر انسانی بحران کا سامنا کر رہا تھا، حالانکہ اقوام متحدہ اور پاکستان  اور  دیگر ممالک نے متاثرہ علاقے میں امداد بھیجی ہے۔ ایک افغان امدادی ایجنسی نے پیر کو زلزلے سے بچ جانے والوں کیلئے نقد رقم کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال نقدرقم زلزلے سے متاثر دیہی باشندوں کی  بنیادی ضروریات کیلئے سب سے زیادہ کارآمد ثابت ہوگی، کیونکہ  فی الحال خوراک ذخیرہ کرنے کیلئے  جگہ نہیں ہے جبکہ  متاثرین کے رہنے کے  خیمے ہیں ۔ افغان ہلال احمر سوسائٹی کے نائب سربراہ ملا نوردین ترابی نےا س کی تصدیق کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ متاثرین نقد رقم مانگتے ہیں۔  ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا کہ درست ہے، افغان ہلال احمر سوسائٹی کے پاس کھانا ذخیرہ کرنے کی جگہ نہیں ہے اور ان کے پاس متاثرین کو دینے کیلئے  بہت خیمے بھی ہیں۔ان کے مطابق نقد رقم ان  متاثرین کیلئے زیادہ کارآمد ثابت ہو گی جو اپنی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اگر عطیہ دینے والے ممالک اور ادارے متاثرین کیلئے رقم کی تقسیم کرنے کے بارے میں فکر مند ہوں تو افغان ہلال احمر سوسائٹی رقم کی تقسیم میں مدد کر سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK