روسی حکام نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد ملے۔ حالیہ برسوں میں، وسطی ایشیائی ممالک قازقستان اور کرغیزستان نے طالبان کو اپنی دہشت گرد گروپس کی فہرست سے ہٹا دیا ہے۔
EPAPER
Updated: April 19, 2025, 7:38 PM IST | Inquilab News Network | Moscow
روسی حکام نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد ملے۔ حالیہ برسوں میں، وسطی ایشیائی ممالک قازقستان اور کرغیزستان نے طالبان کو اپنی دہشت گرد گروپس کی فہرست سے ہٹا دیا ہے۔
روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کو افغانستان کے حکمران گروپ طالبان پر عائد پابندیاں ہٹا دی ہیں جسے دو دہائیوں سے زائد عرصہ قبل دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔ روس کی عدالت کا یہ اقدام طالبان کیلئے ایک سفارتی فتح ہے۔ طالبان کو روس میں ۲۰۰۳ء میں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا تھا، جس کے باعث ان کے ساتھ کسی بھی رابطے پر روسی قانون کے تحت سزا دی جاتی تھی۔ واضح رہے کہ طالبان نے اگست ۲۰۲۱ء میں افغانستان پر قبضہ کیا اور اپنی حکومت قائم کی۔ اسی دوران، طالبان کے وفود نے روس کی میزبانی میں منعقدہ مختلف فورمز میں شرکت کی ہے کیونکہ ماسکو نے خود کو علاقائی طاقت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل کے دفتر کی درخواست پر یہ فیصلہ کیا۔ پراسیکیوٹر نے گزشتہ سال منظور کئے گئے ایک قانون کے بعد یہ درخواست کی تھی۔ قانون کے تحت، دہشت گرد تنظیم کے طور پر سرکاری نامزدگی کو عدالت کے ذریعے معطل کیا جا سکتا ہے۔ روسی حکام نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ رابطے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ افغانستان کو مستحکم کرنے میں مدد ملے۔ حالیہ برسوں میں، وسطی ایشیائی ممالک قازقستان اور کرغیزستان نے طالبان کو اپنی دہشت گرد گروپس کی فہرست سے ہٹا دیا ہے۔ یاد رہے کہ سابق سوویت یونین نے افغانستان میں ۱۰ سالہ جنگ لڑی جو ۱۹۸۹ میں ماسکو کی افواج کے انخلاء کے ساتھ ختم ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے: سری لنکا نے ہندوستان کیساتھ زمینی رابطے کی تجویز مسترد کر دی
افغان حکومت عالمی سطح پر الگ تھلگ
طالبان نے ابتدا میں ۱۹۹۶ء سے ۲۰۰۱ء تک اپنی پہلی حکومت کے مقابلے میں زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کا وعدہ کیا تھا لیکن ۲۰۲۱ء کے قبضہ کے فوراً بعد انہوں نے خواتین اور لڑکیوں پر پابندیاں نافذ کرنا شروع کر دیں۔ خواتین کو زیادہ تر ملازمتوں اور عوامی مقامات جیسے پارکس، غسل خانوں اور جم جانے سے روک دیا جبکہ لڑکیوں کو چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگادی۔ طالبان نے اپنی سخت اسلامی قانون یا شریعت کی تشریح کو بھی واپس لایا ہے جس میں عوامی سزائے موت شامل ہے۔ ان فیصلوں نے طالبان کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کر دیا ہے اور ملک کو ملنے والی غیر ملکی امداد بھی متاثر ہوئی ہے۔ حالانکہ ان کی حکومت نے چین اور متحدہ عرب امارات سمیت کئی ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس سال طالبان سے خواتین پر عائد ان پابندیوں کو ہٹانے کی اپیل کو دہرایا۔ کچھ طالبان عالمی برادری کے ساتھ زیادہ روابط کی کے خواہشمند ہیں اور سخت پالیسیوں کو ختم کرنا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ بیرونی حمایت حاصل کی جا سکے۔ حالیہ مہینوں میں، صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان اور امریکہ کے درمیان زیادہ تر قیدیوں کے تبادلے اور رہائی کے حوالے سے روابط میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش نے پاکستان سے ۱۹۷۱ء کے مظالم کیلئے معافی اور واجب الادا رقم کا مطالبہ کیا
تجزیہ کاروں کا ردعمل
کریسس گروپ کے ایشیاء پروگرام کے سینئر تجزیہ کار ابراہیم بہیس نے کہا کہ طالبان کی دہشت گرد گروپ کے طور پر درجہ بندی کابل کے ساتھ تجارت اور سیاسی تعلقات میں قانونی رکاوٹ تھی اور اسے ہٹانا ماسکو کی تعلقات بہتر کرنے کی خواہش کی عکاسی کرتا ہے۔ جنوبی ایشیا کے تجزیہ کار مائیکل کگلمین نے کہا کہ روس کا یہ اقدام کوئی انقلابی نہیں ہے کیونکہ بہت سے ممالک نے کبھی بھی طالبان کو باضابطہ طور پر دہشت گرد تنظیم کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا۔ تاہم، انہوں نے اس فیصلے کو دوطرفہ تعلقات کیلئے "اہم" قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ روس کیلئے یہ ایک اعتماد سازی کا اقدام ہوگا جو مزید رابطوں کیلئے راہ ہموار کرے گا اور ماسکو کو افغانستان میں اپنے مفادات، خاص طور پر داعش-خراسان جیسے روس مخالف دہشت گرد گروپس کے بارے میں خدشات کے تحفظ میں بہتر بنائے گا۔ کگلمین نے مزید کہا، "دریں اثنا، طالبان کیلئے، عدالت کا فیصلہ ایک ایسی قانونی حیثیت کو تقویت دیتا ہے جسے وہ اپنی حکمرانی کی عالمی قبولیت کی طرف اشارہ کرنے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔"